شبیر احمد بٹ
پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی و تنزلی میں تعلیم ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے ۔قوموں کی خوشحالی اور بدحالی کا راز بھی اسی تعلیم اور اس کے طریقہ کار میں پنہاں ہیں ۔اس تعلیم کے سفر میں امتحانات اور ان کے طریقہ کار کی بھی اپنی ایک اہمیت اور انفردایت ہے ۔ صدیوں سے یہی ریت چلتی آرہی ہے کہ بچے امتحان دیتے ہیں اور پھر نتائج آتے ہیں ۔ اب ایک زمانہ ایسا تھا جب ہر مضمون (subject ) کے پرچہ جات پر یہی لکھا ہوتا تھا کہ مندرجہ ذیل دئے گئے آٹھ سوالات میں سے پانچ کے جوابات لکھئے سوال نمبر آٹھ ضروری ہے ۔ایک ہی قسم کی سیریز سب بچوں کو ملتی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ طرز عمل بھی تبدیل ہوتا گیا ۔اب جو سوالی پرچے تیار کئے جاتے ہیں ان میں بہت ساری چیزوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔حالانکہ ابھی بھی ان میں تبدیلی کی کافی گنجائش موجود ہیں مگر کہا جاسکتا ہےکہ بورڈکے امتحانی پرچوں میں پہلے کے مقابلے میں مثبت تبدیلیاں آئی ہیں ۔اب چونکہ نئی قومی نیشنل ایجوکیشن پالیسی کو بھی نافذالعمل بنایا گیا ہے تو اس کے مثبت پہلو بھی اب ان امتحانی پرچوں کے ساتھ ساتھ امتحانی طریقہ کار پر پڑنے لازمی ہیں ۔اب اکثر مضمون یعنی سبجکٹس ایسے ہیں، جن میں بیس نمبرات انٹرنل مارکس کے طور پر ملتے ہیں اور فائنل میں سو کے بجائے اسی٨٠ نمبرات ہی ہوتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سبھی سبجکٹس کو اس زمرے میں لایا جائے اور ہر سبجکٹ کے انٹرنل مارکس نہ صرف لازمی ہونے چاہیے بلکہ ان انٹرنل مارکس کی تقسیم میں اضافہ ہونا چاہیے ۔بیس کے بجائے یہ تیس بھی ہو جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔سال بھر بچوں کے لئے اسکولوں اور
کالجوں میں مختلف ایکٹوٹیز اور ایسائنمنٹس ہوتے ہیں ۔ غرض مجموعی ترقی ( Holistic development ) کی بنیاد پر نمبرات کی تقسیم ہونی لازمی ہیں ۔ امتحانات کو تنائو سے پاک ( stress free) بنانے کے لئے یہ چیزیں کافی اہمیت رکھتی ہیں ۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے تحت اب چونکہ گیارہویں جماعت تک کے سبھی امتحانات اسکولی بنیادوں پر لئے جائیں گے اور ان امتحانات کو سمسٹر وائز لیا جائے گا جو ایک خوش آئند بات ہے ۔ضروت اس بات کی ہے کہ ہم بچوں کو اس قابل بنائیںکہ پڑھ لکھ کر بھی ہمارے یہاں بیروزگاری اور بیکاری کا رونا نہ رویا جائے ۔اس کے علاوہ بچوں کو سول سروسز اور دیگر امتحانات کے لئے تیار کیا جائے ۔اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ بچہ گریجویشن کے بعد بھی یہ نہیں جانتا ہو کہ اس کا مقصد کیا ہے ۔اس کو آگے جاکے کس فیلڈ میں جانا ہے ۔ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کو بھی پرکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ بورڈ امتحانات میں شریک ہونے والے بچوں کو چاہیے اپنے امتحانات کی تیاری کے دوران اپنے ہر مضمون کے پچھلے سال کے پرچہ اور ماڈل پیپر کو دیکھے اور سمجھے ۔ نمبرات کی تقسیم کو سمجھے اور وقت کو دھیان میں رکھ کر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ سوالات اور نمبرات کے لحاظ سے وقت کی تقسیم کاری کتنی لازمی ہے ۔دو نمبرات کے سوال کے ساتھ پندرہ منٹ لگا دینے سے کتنا نقصان ہوسکتا ہے، اس بات کو سمجھنا ضروری ہے ۔
کافی سارے بچے بہت محنت کرتے ہیں مگر امتحانی پرچوں ، وقت کی تقسیم کاری یا امتحانات سے متعلق اس طرح کی دیگر لازمی چیزوں کو سمجھنے اور سیکھنے کی کو شش نہیں کرتے ہیں ،جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اتنی محنت کے باوجود وہ امتحانی مراکز پر اپنے پرچے دیکھ کر ہڑ بڑا جاتے ہیں ۔جلد بازی اور اُلجھائو (کنفیوزن ) کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر نتائج ان کی توقعات کے برعکس آتے ہیں ۔اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کو ان چیزوں کی تعلیم دے اور اس کے لئے انہیں اچھے سے تیار کرائیں ۔
رابطہ۔7889894120
[email protected]