نئی نسل کے لوگ شاید آغا شورش کاشمیریؔ کے نام سے بھی ناآشنا ہوں لیکن بیسویں صدی کے دوران وہ ایک ایسے مرد مجاہد تھے جن کا طوطی پورے ہندوستان میں ۔ خصوصی طورپر شمالی ہندوستان پنجاب اور کشمیر میںبولتاتھا ۔ وہ اپنے زمانہ میں تحریک آزادی ء ہند کے مجاہد سالاروں میں شمار کئے جاتے تھے، جنہوں نے اپنی شعلہ نوائی کے باعث اپنی زندگی کا بہترین حصہ جیل خانوںمیں بسرکیا۔ وہ بے باک صحافی تھے جن کا قلم ہر ظلم، جبر، تشدد استحصال کے اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف بے باکی سے اُٹھا اور تہلکہ مچادیا۔ وہ شعلہ نواشاعر تھے جن کی شعلہ نوائی نوجوانوں کے دل گرمادیتی تھی۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میںانہوں نے حق وصداقت کی آواز بلند کی لیکن راقم اُلحروف کو آغاشورش کاشمیری ؔکے ان تمام پہلوئوں پر کچھ تحریرکرنامقصود نہیں۔ صرف ان کا تحریک آزادی ٔ ہندمیں مجاہد انہ کردار کو پیش کرنا مقصود ہے تاکہ نئی نسل ان کے مجاہدانہ کارناموں سے روشناس ہوکراستحصال اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف صف آراء ہوں اور حق وصداقت کے راستہ پر گامزن ہوسکے۔ نیز شورش کی حسین یادوںکو بھلا نہ دیا جائے بلکہ اُن سے روشنی حاصل کرکے موجودہ زمانہ میں مسائل حیات حل کر نے کے لئے پیش قدمی کی جائے۔
آغاشورش کے نام کی وجہ تسیمہ بھی معنی خیز ہے۔ آغا لفظ دراصل فارسی زبا ن کے لفظ آقا کا نعم البدل ہے جوکہ ایران میں لفظ مسٹریاشری کی طرح استعمال لایا جاتاہے اور زیادہ پیار اور عزت سے کسی کو مخاطب کرنا ہو تو آغا جانی کہہ کر بھی پکارا جاتاہے۔ برصغیر ہند میں آغا قابل احترام ہستی کے لئے استعمال ہوتاہے۔،خصوصاً اہل تشیعہ کے یہاں قابل احترام شخصیتوں کے لئے۔ اس حساب سے آغاکا لفظ شورش کے نام سے پہلے آتاہے۔ شورش لفظ بغاوت کے ہم معنی ہے ،خصوصی طورپر پنجاب میں شورش کوبغاوت کے معنوںمیں ہی زیر استعمال لایا جاتا۔ جیلوںمیں جرائم پیشہ قید ی سیاسی قیدیوں کو ’’شورشی‘‘ کے نام سے پکاراجاتاہے۔ چونکہ آغا شورش کاشمیری ہنگامہ خیز اور شورش خیز شاعر تھے اور جس مجمع میں شعر پڑھتے تھے،وہاں ہنگامہ ہوجاتا تھا اور شورش شورش کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوجاتی تھیں، اس لئے ان کا نام ہی شورش پڑ گیا۔ وہ کشمیری النسل تھے، جن کے آبا واجداد کسی قحط سالی، تلاش روزگار یا حکومتی جبر وتشد د کے باعث ہجرت کرکے پنجاب کے قصبہ جلال پورجٹاں ضلع گجرات میںجابسے، جو جموںو کشمیر کے قصبہ منادر سے متصل واقع ہے۔ اس قصبہ میں چونکہ کشمیری آباد تھے، اس لئے اس محلہ کو کشمیری محلہ کہاجاتاتھا۔ اسی نسبت سے ان کا نام آغا شورش کاشمیری ؔہوگیااور انہوں نے یہی یہ نام اختیار کرلیا۔
چونکہ شورش کشمیری نژاد تھے، اس لئے ان کو کشمیر سے والہانہ اُنس اور محبت تھی بلکہ کشمیر ہی وجہ رہی سیاست میں اُن کے وارد ہونے کی ۔ 1931-32میںجب راجوڑ ہ شاہی کے خلاف جموں وکشمیر میں صدائے احتجاج بلند ہوئی اور راجواڑہ شاہی کے استحصال، لوٹ کھسوٹ ، ظلم وتشدد، اور مذہبی توہین اور مذہبی آزاری کی خبریں بیرون ریاست پہنچتی رہیں تو سارے ملک میں ہیجان برپا ہوگیا اور جموںوکشمیر کے مظلومین کے حق میں آوازیں بلند ہو ناشرو ع ہوگئیں۔ جموں و کشمیر کے مظالم کے خلاف چونکہ عملی طورپر ایجی ٹیشن شروع کرکے ’’کشمیر چلو‘‘ کی تحریک مجلس ِاحرار نے چلائی تھی، اس لئے شورش کاشمیری مجلس احرار میں شامل ہوگئے اور دل وجان سب کچھ مجلس کے سپر د کردیا۔یاد رہے کہ برصغیر میں عوامی سطح پر جموںوکشمیر کے عوام پر ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنے والی جماعت مجلس احرار اسلام ہی تھی جس نے مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری کی قیادت میں منظم جتھے بھیجنے کا فیصلہ کیا ور جموںوکشمیر کی تحریک کو زبردست تقویت پہنچائی۔ مہاراجی سرکار ان جتھوں کوروکنے میں بے بس ہوگئی اور اس نے پنجاب کی برطانوی سرکار کے ذریعہ سرحد پرجتھے روکنے کا ا نتظام کیا۔ کوہالہ سے لے کر سوچیت گڑھ تک احرار کے جتھے داخل ہوناشروع ہوگئے۔ ان کے لباس میں سرخ کُرتے اور زمینی رنگ کی شلوار ہوتی تھی۔ اس لئے عام لوگوں نے مجلس احرار کو ’’لال کرتی پارٹی‘‘ کہنا شروع کردیا۔ مجلس احرار کے پچاس ہزار رضاکار گرفتارکرلئے گئے۔ سوچیت گڑھ ، میر پور اور کوہالہ میںگولیوں سے درجنوں شہید ہوئے۔ ضلع میرپو ر کو انگریزی فوج کے حوالے کردیاگیا جس کے سربراہ سالبسری دالا تھر تھے۔ لاتھر بعدمیں جمو ںوکشمیر پولیس کے سربراہ بھی مقرر کئے گئے۔ میرپو ر میںمارشل لاء نافذ کرکے برہما ایکٹ نافذ کیاگیا۔ اس ایجی ٹیشن میں میرپور کے دو مجاہدوں باناخان اور صوبہ صادق شاہ کو تختہ دارپر بھی لٹکادیاگیا۔ ریاستی سرکار احرار کی ایجی ٹیشن سے تائب ہوگئی اور اس نے بات چیت کی پیش کش کی لیکن اس بات چیت سے پیشتر ہی شیخ عبداللہ نے بیان دے دیا کہ بیرونی عناصر کو ریاستی معاملات میںدخل اندازی نہیںکرنی چاہیے۔ ریاستی عوام خود اپنے معاملات نپٹالیں گے۔ اس بیان نے مجلس احرار کی مجاہدانہ تحریک کا خاتمہ کردیا۔ البتہ مجلس احرار نے اس تحریک میںجو قربانیاں دی ہیں اُسے کوئی مورخ نظرانداز نہیں کرسکتا۔ اسی تحریک کے دوران آغا شورش کاشمیری مجلس احرار میں شامل ہوئے اورتحریک کشمیرمیں بھی پیش پیش ر ہے ۔ اس بات آغا کی جموں وکشمیر سے اُلفت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ مجلس احرار کے جتھوں کی زبان سے شورش کاشمیریؔ کا شعر جب گونجتا تھا ؎
غضب ہے کہ ارزانیٔ خونِ مسلم
پانی کی صورت بہا یا عدونے
کوئی جہلم سے جاکر یہ پوچھے
کہ گلگلوں کیا اس کو اس کے لہونے
تو ہنگامہ مچ جاتا، اسی طرح شورشؔ کا یہ شعر گونجتاتھا ؎
سب لوٹے بو کے بیچ دیو
کشمیر چلو۔ کشمیر چلو
اورپھریہ شورشؔ کا یہ نعرہ ’’ڈنڈا بخاری دانہ جانیں راجیا
جس تیرے وٹ کڈنیں‘‘
غضب کا جوش وجدا پیدا کردیتاتھا
افسوس کا مقام ہے کہ مجلس احرار کی اس مجاہدانہ اورقربانی کی تحریک کو فراموش کرکے لوگ شورش کاشمیری ؔکی اس میں کارکردگی کوبھی فراموش کرچکے ہیں۔ شیخ عبداللہ 1931ء میںبے راہ روی کے باوجود شورشؔ جب دس سال کی جیل کاٹنے کے بعد رہاہوئے تو اس وقت مہاراجہ کے خلاف تحریک ’’کشمیر چھوڑدو‘‘ جاری تھی۔ آغاشور ش نے ارونا آصف علی کے ہمراہ آر ایس پور ہ (جموں) پہنچ کر تحریک ’’کشمیر چھوڑ دو‘‘ کے حق میں زبردست تقریرکی۔مجلس احرار اسلام آزادیٔ برصغیر ہند کے لئے مردانہ وار مصروف جدوجہد رہی ہے۔ آغاشورش کاشمیری اس جماعت کے اعلیٰ ترین ارکان میںسے تھے۔ احرار کے اعلیٰ ترین لیڈروںمیں برصغیر کے شعلہ نوا خطیب مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری ، چوہدر ی افضل حق، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، صاحبزادہ فیض الحسن ،شیخ حسام اُلدین، قاضی احسان احمد،شجاع آبادی، مولانا مظہر علی اظہر جیسے، خطیب ، مجسمہ قربانی مجاہد، بطل ِحریت شخصتیں شامل تھیں جنہوں نے نہ صرف اپنی خطابت کے ذریعے ملک بھرمیں زبردست بیداری پیداکی بلکہ برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد میںاپنی زندگیاں نچھاورکردیں۔ وہ برسوںتک جیل خانوںمیںبند رہے۔ مصائب اور مشکلات برداشت کئے لیکن ان کے پائے ا ستقلال میں کوئی لرزش نہیں آئی اور پامردی سے مصروف جدوجہد رہے۔ ہندوستان میںبرطانوی سامراج کے خلاف ایسی کوئی قابل ِذکر تحریک نہیں ہے جس میں احرار کے لیڈروں اور کارکنوں نے بیش بہا قربانیاں نہ دی ہوں۔ خود آغا شورش کاشمیری متواتر دس سال تک پنجاب کی مختلف بدنام زمانہ جیلوں کی تاریک کوٹھڑیوںمیں بند رہے۔ انگریزوں کے وقت میںجیل خانے آج کے جیل خانوں کی طرح نہیںتھے جہاں نام نہاد لیڈر آج کل آرام سے جیل یاتراکرتے ہیں۔ صبح گئے اور شام کو واپس آئے اور اگر جیل کا ٹنی بھی پڑی تو کلاسیں حاصل کرکے آرام دہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس زمانہ میںجیلیں اذیت ناک ذبح خانے جیسے تھیں۔ آغا شورش کاشمیری بھی متواتر دس سال تک پنجاب کی اذیت ناک جیلوںمیںرہے لیکن اُف تک نہیں کی ۔جب رہا ہوئے تو ان سے جب جیل کے تاثرات کاپوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا۔
دس برس کے روز و شب کیسے کٹے ،کیونکرکٹے
یہ کہانی میں ابھی شورشؔ سنا سکتا نہیں
اس زمانہ میں سیاست آج کی طرح محض تماشہ نہیںتھاکہ چند دن جیل رہے اور پھر اس کے بعد منسٹریاں اورمراعات حاصل کرلیں۔ آغا شورش ؔنے اپنے سیاست میںقدم رکھنے کے سلسلہ میں کہاہے ؎
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھاتھا
جب سیاست کاصلہ آئینی زنجیر یںتھیں
سرفروشوں کے لئے دار ورسن قائم تھے
خان زادوں کے لئے مفت میں جاگیریں تھیں
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیر یںتھیں
از اُفق تابہ اُفق خوف کا سناٹاتھا
رات کی قید میں خوف کی تصویریں تھیں
اسی طرح انہوں نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہاہے ؎
سخنِ افرنگ کو لیبک کہی ہے میںنے
اپنے اسلاف کے بے خوف پن کی خاطر
نوجوانی عمر کے دس سال گزارے ہیںمیںنے
قید کی گود میں ناموس وطن کی خاطر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم بھی اپنے کئے پر نظر ڈالوگے
تم نے کانٹوں کے عوض سرووسمن بیچے ہیں
تم نے تاریخ کے سینے میں سناں گاڑی ہے
تم نے خون شہیداں کے کفن بیچے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بار ہا سختی ٔقانون کادِل ڈوب گیا
میر ی للکار سے انگریزوں کے ایوانوں میں
لب میں اِک تہمت بے جاکے سوا کچھ بھی نہیں
دس برس کاٹ کے پنجاب کے زندانوں میں
نام نہاد آزادیٔ ہند کے بعد بھی شورشؔ نے لکھا ؎
بڑی خونخوارہے سرمایہ و محنت کی آمیزش
خدا وندان ِسیم و زر کی نادانی نہیںجاتی
اب اپناملک ہے بالکل بجا میرے خدا وندو!
گھر جمہور کے چہرے کی ویرانی نہیںجاتی
تمہاری باندیاں ریشم کے انباروں میں تلتی ہیں
ہماری بیٹیوں کے تن کی غُریاتی نہیں جاتی
مصیبتوں کی بدولت ایک ایسا وقت آتاہے
خدا کے نام پر جب بات تک مانی نہیںجاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شورش ؔکا شمیری کو اپنے ساتھیوں کی قربانیوں پرناز تھا۔ انہوں نے کہا ہے ؎
خونِ احرار سے لبریز ہے جام ومینا
شہ رگِ عدل پہ ہے خجنر جلاد ابھی
برصغیر ہندو پاکستان سے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی دونوں ممالک میں عوام کی جگہ سامراج ، گماشتہ سرمایہ داروں اور لینڈلارڈوں کا اقتدار قائم ہوگیااورعوام کی لوٹ کھسوٹ اور استحصال بدستور جاری ہے۔ شورش نے ان عناصر سے سمجھوتہ بازی نہیںکی بلکہ ان کے خلاف جدوجہد بدستور جاری رکھی۔ پاکستان میںحالت مزید خراب اور وگرگوں ہوگئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اورلیاقت علی خان کی رحلت کے بعد اس ملک میں نام نہاد بورژوا جمہوریت بھی ختم ہوگئی۔ کبھی خواجہ غلام محمد، اسکندر مرزاکی شکل میں بیوروکریٹ اقتدار پر قابض ہوگئے اور کبھی فوجی جرنیل ایوب خان، یحییٰ خان ، ضیاء اُلحق کی صورت میں برسراقتدار آگئے۔ اگرتھوڑے عرصے کے لئے نام نہاد جمہوری طرزِ حکومت بھی قائم ہوئی۔ اس سے اقتدار بدستور ہندوستان کی طرح سامراج، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈلارڈوں کے زیر نگین رہا۔ شورش نے ان عناصر سے سمجھوتہ بازی ہرگز نہیںکی۔ بلکہ ان کے خلاف جہاد جاری رکھا۔ وہ عوام کے حق میں تبدیلی کے سلسلہ میں پُراُمید تھے۔ اُنہیں حکمرانوں کا لالچ، دبائو، اور جاہ پسندی کبھی خرید نہ سکی اور ان کی پائے استقلال ظلم وتشدد کے خلاف بدستور بڑھتارہا۔ انہوں نے فرمایا۔
کچھ دنوں اوراندھرے کی فراوانی ہے
طلعت صبح درخشاں کی قسم
کچھ دن اور غریبوں پر ستم رانی ہے
کج کلائوں کے گریباں کی قسم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نائو منجدھار میں بے خوف خطر کھیلے گی
ناخدا بربط طوفان پہ اجز خواں ہوںگے
رہبرو! اپنی مسافت کاصلہ مانگیںگے
رہنمااپنی سیاست پہ پیشماں ہوںگے
بایں ہمہ معلوم ہوتاہے کہ حکمرانوں کی چالبازیوں ، کہہ مکرنیوں، دغابازیوں، سازشوں اور داروغ بیانوں سے وہ مایوس ضرو ر تھے۔ انہوں نے سیاستدانوں کی بد کرداروں کے باعث سیاست سے کنارہ کشی کرلی لیکن صحافت کے میدان میں قلمی جہاد جاری رکھا۔ ’’چٹان‘‘ کے ذریعہ ان کی یہ کیفیت ان کے مندرجہ ذیل کلام سے ظاہر ہے ؎
فصاحت چھوڑدی میںنے ، صحافت تونہیں
لیکن خطابت چھوڑدی میں نے
سیاسی معرکوں میںکٹ کھنوں کی گالیاں کھا کر
بالآخر اے وطن والو! سیاست چھوڑد ی میںنے
میرا دل آج بھی جن کے تصور سے لرزتا ہے
بہت سے رہنمائوں کی رفاقت چھوڑدی میںنے
میراذہن رساجب مصلحت کی طرف مُڑتاہے
مجھے افسوس ہوتاہے صداقت چھوڑدی میںنے
میر ی اس عمر میں عزیزو مجھ سے مانگتے کیاہو
عزیزو! کج کلاہوں سے شرارت چھوڑدی میںنے
دھنی الطبع ہیں سوداگران دین پیغمبر
ان منبر فروشوں کی حمایت چھوڑدی میںنے
میںٹکرا تارہاہوں کاسہ لیسانِ حکومت سے
مجھے افسوس ہے اپنی روایت چھوڑدی میں نے
غزل ہائے رواں کاتذکرہ لکھوں تو کیا لکھوں
سبق ایسا ملا ان سے محبت چھوڑدی میںنے
پس دیوار زنداں نوجوانی کے زمانہ میں
بہ پاس حریت ہراک راحت چھوڑدی میںنے
آغا شورشؔ کاشمیری کی ہمہ پہلو شاعری کے متعلق راقم الحروف کوئی خانہ فرسائی کرنے سے قاصرہے۔ انہوںنے لاہور سے ’’چٹان‘‘ اخبار تا دم آخر جاری رکھا۔ صحافت میں مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال اور البلاغ سے ترغیب حاصل کی اور ’’زمیندار ‘‘ کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان سے روشنی۔ صحافت میں وہ دونوں کی روایات پرقائم رہے۔ جس طرح مولانا ظفر علی خان ’’زمیندار‘‘ کے صفحہ اول پر حالات حاضرہ پرفی البدیہ اشعار لکھتے تھے،اس طرح شورش کاشمیری بھی ’’چٹان‘‘ کے پہلے صفحہ پر اشعار کی شکل میںاظہار خیال کرتے تھے۔ ان کے کلام کا مجموعہ’’ کلیات شورشؔ‘‘ کے عنوان سے ان کے فرزند مسعود شورش نے شائع کیاہے جو 1819صفحات پر مشتمل ہے۔راقم کی شناسائی شورشؔ سے ساحر لدھیانوی کے ہمراہ لاہور میں انارکلی بازارمیں واقع دہلی مسلم ہوٹل میں ہوئی تھی۔ جہاں میںہوٹل کے منیجر علاقہ پلندری سے تعلق رکھنے والے سردار محمد عالم کی کمال مہربانی سے قیام پذیر تھا۔ یہ واقعہ1946کا ہے۔ چند دن کی ملاقاتوں میںشورشؔ کے ساتھ لگا ئو رہا ۔اتنے برس کے بعد بھی ان کی پُرکشش شخصیت کے اثرات ذہن میںمحفوظ ہیں۔ اسی بناء پر یہ چند حروف تحریرکیں کیونکہ اس عمر میں پُرانی یادیں عود کرآتی ہیں۔ آغا شورش کی یاد اسی سلسلے کی کڑی ہے ؎
کررہاتھاغم زندگی کاحساب
آج تم بے شمار یاد آئے
…………….