اشکوئوں کے سمندر اور ٹوٹے دلوں پر شایدرب الکریم کو رحم آیاکہ ننھی زینب کادرندہ طینت قاتل شیطان پولیس کے شکنجے میں آچکاہے۔ اپنے جرم کی پاداش میںاُسے ایسی سزاملنی چاہیے کہ ہر درندہ صفت انسان کے لئے تازیانہ ٔ عبرت ہو۔ اس سیر ئل کلر کی حیوانیت نے تمام خلق ِخدا کو نہ صرف رُسوا وشرمندہ کردیا بلکہ ہمسایوں اور محلے داروں کے درمیان رشتوںاور قرابتوں تک پرشک وبے اعتمادی کی سرحدیں کھڑی کردیں۔اب لازم ہے کہ والدین اپنے ننھے منے اور معصوم بچوں کوبطورتربیت دن رات یہ سمجھائیں کہ اپنے گھریاسکول سے باہرقدم رکھتے ہوئے کسی سے بات چیت کریں اورنہ کسی کے ساتھ کہیں جائیں،کسی سے کوئی چیز لے کر کھائیں اورنہ کسی کی ٹافی مٹھائی قبولیں ۔ والدین کی اس ناصحانہ گفتگو سے بچوں کویہ دنیاضرورایک قید خانہ بلکہ جنگلی جانوروں کا مسکن محسوس ہوگا مگر کیا کیجئے بچوں کو یہ ہدایات دینااور پیشگی متنبہ کر نا ان کے تحفظ اوربھلائی کے لئے لابدی اورناگزیر ہے۔ ننھی زینب کادرندہ قاتل شکنجے میں آچکاہے مگر کشمیر کی معصوم کلی آصفہ کا قاتل ابھی تک آزاد ہے۔ پاکستان قصورکی ہی طرح کھٹوعہ کے روح فرساواقعے پردل پاش پاش اورہرآنکھ اشک بارہے ۔ کٹھوعہ میں جو سانحہ رونما ہوا وہ انسانیت سوز اور جگر پاش ہے۔ معصوم کلی آصفہ کو مسلنے کچلنے کے المیہ پرہر باضمیر شخص غم سے نڈھال ہے ، ہربااخلاق انسان افسردگی کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے، جب کہ ہر ماں باپ اپنی نعمت ِعظمی یعنی بیٹی کو قدم قدم درپیش خطرات سے اندرہی اندر گھل رہاہے۔آصفہ کسی درندہ صفت بھیڑیے اور انسانی معاشر ے میں رہ بس رہے کسی آدم خور کی ہوس کا نشانہ بن بیٹھی ۔ اس معصوم کی دلدوز ہلاکت کے ماتم میں انسان تو انسان فرشتے بھی سوگوار ہوئے ہوں گے۔ کٹھوعہ کے ہیرانگرمیں معصوم گوجر بچی آصفہ کی مبینہ عصمت ریزی کے بعد اس کا وحشیانہ قتل اس فرقہ پرستی کامہیب روپ ہے جوعفریت کی طرح جموں اورمضافات میں چنگاڑرہاہے اور بتا رہاہے کہ کٹھوعہ، ہیرا نگر اور سانبہ کے علاقے میںمقیم گوجر بکروال کنبے کس قدر عدم تحفظ کے شکار اور مصیبت کے مارے ہیں۔اس یرقانی عفریت کے دست تظلم سے جموں ڈویژن میں مقیم خانہ بدوش گوجر بکروال طبقہ گزشتہ سالوں سے ہراساں وپریشان ہے ۔ اسے وقفہ وقفہ سے معلوم ونامعلوم درندوں کے ہاتھوںمظالم وشدائددوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ چند سال قبل گول گلاب گڑھ میں ایک مقامی پروفیسر سمیت کئی گوجرمظاہرین کو توہین قران کے خلاف غم وغصے کی پاداش میں گولیاں مار مار کر انہیں ابدی نیند سلایا جانا ا ور کشتواڑ میں عید کے موقع پر نمازیوں کے خلاف حملہ بولنا گو یا گزشتہ کل کے واقعات ہیں ۔ خاص کر2014میں جب سے بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی، انڈیا کے طول وعرض میں مسلم آبادی کے خلاف فرقہ پرستوں کی خون خوار دھماچوکڑیاں بھی شروع ہوئیں، جب کہ ریاست میں پی ڈی پی کے اشتراک سے بی جے پی حکومت سنبھالنے کی دیر تھی کہ آر ایس ایس نے جموں میں ترشول، تلواریں اور بندوقیں لئے سڑکوں پر مارچ کر کے مسلمانوں کو گویا بالمعنی چتاؤنی دی کہ اب تمہاری خیر نہیں، اس کے بعد گئو رکھشا کے نام پر اوردوسرے بہانوں سے گوجر بکروال طبقہ کو مصائب کا نشانہ بنانا بلکہ ۷۴ء کو نہ بھولنے کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ چل پڑا ۔ اسی وسیع تر تناظر میں ہمیں معصوم کلی آصفہ کی آبروریزی اور قتل کو دیکھنا ہوگا اور جموں ڈویژن میں یرقانی فرقہ پرستوں کے ہدف بن رہے بے نوا لوگوں کے غیر یقینی حال اور تاریک مستقبل کے لئے فکر کر نی ہوگی۔
اس میںدورائے نہیں کہ جموں ڈویژن میں عملاََیرقانی فرقہ پرست راج کررہے ہیں۔اس تندو تلخ حقیقت کو سمجھنے میں کسی راکٹ سائنس پر دسترس کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ ساری صورت حال واضح اورمبرہن ہے ۔اس بات کے فہم وادراک میں اس پولیس گردی کوملحوظ خاطررکھاجانا چاہیے جس سے جموں ڈویژن کی مسلم آبادی عملاً سیاسی طورdisempower نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصفہ کے اغواء ہونے کے ایف آئی آر کے باوجود سات روز تک پولیس نے خلاف معمول کوئی جنبش وحرکت نہ کی ۔ بہر کیف ننھی کلی آصفہ کے انسانیت سوزقتل سے خطے کے مسلمانوں پر رنج وغم کے کوڑے ہی نہیں برس رہے ہیں بلکہ وہ اس فکر وتشویش میں پڑے پریشان ہیں کہ جب ان کا کوئی والی وارث نہیں ، تووہ اپنے عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے کس پر انحصار کر یں گے۔ یہ سوگوارلوگ بیک زبان مطالبہ کررہے تھے کہ درندہ صفت قاتل یا قاتلوں کے گروہ کوفوری گرفتارکیاجائے اور پھانسی کے پھندے پرلٹکاکر انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں تاکہ نہ صرف گوجر بکروالوں کو احساس ِ تحفظ ملے بلکہ یرقانی فرقہ پرستی کے راج دلاروں کے ہاتھوں پولیس مزیدیرغمالی سے بچے اور مجرموں کو انسانیت کے خلاف کوئی اور گل کھلانے کا موقع نہ ملے۔ عوام کا یہ مطالبہ پورا کرنے کے برعکس حکومتی کردار کا یہ گھٹیا پن دیکھئے کہ ایک این جی او چلانے والے معروف گوجر لیڈر جو آصفہ کے لئے ازروئے قانون انصاف کی دہائیاں دے رہاتھا، اُسے ہی گرفتار کیا گیا ۔ اگرچہ رائے عامہ کے دباؤ اس شخص کو رہا کیا گیا مگر اس سے واضح ہو اکہ مسلمانوں کے تئیں حکومت کا رویہ کیا ہے ۔ اس گوجر لیڈر کا جرم یہ تھا کہ وہ حکومت سے اپیل کر رہاتھا کہ تمام کوائف کو سامنے لاتے ہوئے اس ناقابل معافی سنگین واردات میں ملوث مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچایاجائے اورمتاثرہ کنبے کوفوری انصاف دلانے میں کوئی دقیقہ فرد و گزاشت نہ کی جائے ۔ ظاہر ہے حکومتی سطح پر یہ کر گزرنے پر ہی علاقے کے ا قلیتی طبقے گوجراوربکروالوں کو اس خوف و ہراس سے نجات مل سکتی ہے، جس نے آصفہ ٹریجڈی کے پس منظر میں ان کی نیندیںحرام کررکھی ہیں ۔
غور طلب ہے کہ آصفہ کے غریب ولاچار والدین اپنی معصوم وکم سن بچی کی جلد از جلد بازیابی کی تگ و دو میں متعلقہ پولیس تھانہ کے باہر مبینہ طور پولیس اہل کاروں کی منتیں کرتے رہے، ان کے پاؤں پڑتے رہے تاکہ پولیس جلدی سے معصوم بچی کی تلاش کیلئے کوئی نتیجہ خیز قدم اٹھائے لیکن بے سود!! پولیس نے اپنی ذمہ داری بالائے طاق رکھ کر مشکوک طرزعمل اختیارکیا جسے یہ تاثر ملا کہیں وردی پوشوں کومجرموں کے ساتھ کوئی سازبازاور سانٹھ گانٹھ تو نہیں ۔ بنابریں متعلقہ تھانے پر یہ الزام لگا کہ وہ اپنی ڈیوٹی کی لاج رکھ سکے اور نہ مجبور و مظلوم والدین کے دکھ درد پر ان کی رگ ِ حمیت پھڑکی ۔ آخر وہی ہوا جس کی فکر آصفہ کے مظلوم و بے بس والدین کو ستائے جارہی تھی، معصوم بچی کا اغوا کے بعد قتل کیا گیا ۔جی ہاں!اس معصوم بچی کا قتل ہوا جس کی گمشدگی کی رپورٹ سات روز قبل اس کے والدین نے پولیس تھانہ میں درج کرائی تھی ۔ناقدیں کہہ رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ فوری کارروائی کر نے کی بجائے متعلقہ پولیس نے انتہا درجے کی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔پولیس کی یہی غیر سنجیدگی اس کی ’’ناقص کار کردگی‘‘ پر دلالت کرتی ہے یا دال میں کچھ کالا ہے ؟ اگرچہ حکومت نے متعلقہ ایس ایچ او کو معطل کر کے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری ہے مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ جو پولیس ہر معاملے میں آگے آگے رہنے کی عادی ہے وہ آصفہ کے بارے میں اتنی بے نیازی کیوں برت گئی۔ واضح رہے کہ جموں ڈویژن میں مخلوط حکومت قائم ہونے کے فوراً بعد سے وہاں کے لوگ واویلا کرتے رہے ہیں کہ انتظامیہ میں اوپر سے نیچے تک یرقانی فرقہ پرستی کے سوچ کے حامل عناصر کو دھڑ ادھڑ تعینات کیا گیا،اس وجہ سے جموں میں وہ وتوازن بگڑ گیا جو برسوں سے وہاں انتظامیہ میں موجود تھا۔ یہ اس کا بھی لیکھا جوکھا ہے کہ ننھی کلی آصفہ کی عصمت ریزی اور وحشیانہ موت کا المیہ دن کی روشنی میں رونما ہوا ۔ یہ بات محتاج تشریح نہیں کہ ننھی اور معصوم بچی آصفہ کی عصمت ریزی اور لرزہ خیزقتل ایک کھلی درندگی اور وحشیانہ حرکت ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ’’بیٹی پڑھائوبیٹی بچائو ‘‘ نعرہ کے یہی معنی ہوتے ہیں ؟ انسانیت کوشرمسار کردینے اوردل کو دہلادینے والے اس واقعے نے بلاشبہ اس نعرہ کی دھجیاں بکھیرکررکھ دیںاوربہروپ انتظامیہ کے چہرے سے نقاب اُلٹ کررکھ دی۔
ا س المیہ کے بارے میں یہ معلومات بھی ہمارے ا جتماعی حافظے میں محضوظ رہنی چاہیں ۔ رسانہ ہیرا نگر کے رہائشی گوجر محمد یوسف پجوال کی معصوم آٹھ سالہ بیٹی آصفہ بانو 10جنوری کو کٹھوعہ کے مقام پر جہاں گوجروں نے ڈھیرا جمایا تھا ،اپنے گھوڑے لے کر دن کے بارہ بجے ان کو پانی پلانے نزدیکی ندی پر لے گئی لیکن جب شام تک وہ واپس نہیں لوٹی تو اس کے گھروالوں نے اس کی ہر ممکنہ جگہ پر تلاش شروع کردی ، اس کا کوئی اَتہ پتہ نہیں چل سکا ۔ بعد میں اس کا والد اپنی برادری کے کئی افراد کو اپنے ساتھ لے کر ہیرانگر پولیس سٹیشن پر گیا اور پولیس کو تحریری طور پر اس بات سے آگاہ کیا کہ اس کی بیٹی صبح سے غائب ہے جس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ اس لئے اس بارے میں کیس رجسٹر کرکے آصفہ کی تلاش شروع کردی جائے لیکن پولیس ہیرا نگر نے اس درخواست پر کوئی دھیان ہی نہیں دیا ۔ اس کے بعد کسی بکروال نے آصفہ کے گھروالوں کو اطلاع دی کہ ان کی لڑکی کی لاش جنگل میں پڑی ہے، چنانچہ وہ جب جائے واردات پر گئے تو وہاں انہوں نے زخموں سے چور آصفہ کی لاش دیکھی جو انتہائی بری حالت میں تھی۔ آصفہ کے لواحقین نے اس کے بعد کئی اَن کہی داسانوں کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقے میں اقلیتی طبقوں سے وابستہ افراد کا شرپسند عناصر نے ناک میں دم کررکھا جنہیں بی جے پی اورآرایس ایس کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ماضی قریب میں جب نئی دہلی میں ایک چلتی بس میں ایک لڑکی دامنی کی عصمت دری کے بعد اسے قتل کیاگیا تو پورابھارت بشمول کشمیر اس درندگی کے خلاف سیخ پاہوا ، دلی پولیس بھی حرکت میں آگئی اورملوثین کو گرفتار کیاگیا لیکن جموں کی مسلمان بچی کے ساتھ جب اسی طرح بلکہ اس سے بدترین سانحہ پیش آیاتو متعصب میڈیاسمیت حقوق البشر اور حقوق نسواں کے ٹھیکیداروں کو کیوں سانپ سونگھ گیا ؟ شاید اس لئے کہ معصوم آصفہ کا تعلق مسلم فرقے سے تھا؟اس کھلی سفاکیت پر مسلسل خاموشی اختیار کرنا انسان دوستوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ اگر یہ دلدوزواقعہ بھارت کی کسی ریاست کے کسی بڑے شہر میں پیش آیاہوتاتو یہ قومی سطح کا مسئلہ بن گیا ہوتالیکن افسوس صدافسوس! کہ یہ المیہ ایک خانہ بدوش معصوم کلی کا ہے اس لئے ہر سو خاموشی چھائی رہی۔ بہر صورت آصفہ کی نعش دیکھ کر انسانیت کا کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ کیس کی تحقیقات میں عامیانہ اپروچ اختیار کئے جانے کا ہی شاخسانہ ہے کہ تقریبا20دن گذرنے کے باوجود اب تک کوئی مجرم گرفتارہوااورنہ ہی عوام الناس کو اس حوالے سے کرائم برانچ کی انکوائری میں کسی پیش رفت کاعلم ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی ڈی پی کے ایک قانون ساز چوہدری قمر نے یہ معاملہ کرائم برانچ کی بجائےSIT کے ذریعے حل کرانے کی مانگ کی ۔ پاکستان میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آنے کے سبب زبردست بحران کھڑا ہوا تووزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے سفاک درندے عمران کو قانون کے کٹہرے میں جوں توں لا کھڑا کروایا اور اب مطالبہ یہ ہورہاہے کہ اس حیوان کو بر سرعام پھانسی دی جائے تاکہ باقی لوگ عبرت پکڑیں۔اس نوع کے سانحات پر آئندہ روک لگانے اورانصاف کا مطالبہ صرف اورصرف یہ ہوتاہے کہ درندوں کوپکڑکرسرعام پھانسی پر لٹکا یا جانا چاہئے۔ایک ایسے موقع پر کہ جب برصغیر ہر روشن ضمیرشخص مظلومہ زینب کے المیے پر زاروقطاراشک بار تھا کٹھوعہ میں آصفہ کا دل دہلا دینے والا سانحہ سامنے آیا۔ زینب پرساری دنیا کے ساتھ ہندوستان بھر میں اس واقعہ کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ چینلوں پر مباحثے ہوئے، مگر کھٹوعہ واقعے پر متعصب چونچال میڈیامذمت کرسکا،دھمال ڈال سکا اورنہ ہی اسے بحث و مباحثے کا موضوع بناسکا ۔ ایسا کیوں ہوا؟ وہ شاید یہ بزبان حال بتارہاہے کہ اس جرم کے ملوثین کون لوگ ہیں۔ جموں میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ سنگین نوعیت کے جرائم میں تیزی کے ساتھ جواضافہ ہو رہا ہے،اس پر سماج کے تمام سنجید ہ فکر طبقوں اور اداروں کو ظلم اورسفاکیت کے خلاف بیدار ہو کر ہمہ گیر دفاعی کام کر نا چاہئے۔ یہ ایک ایسی بیداری ہو نی چاہیے کہ انتظامیہ کو ایسے دلدوزواقعات کے حوالے سے آئندہ کسی قسم کی کوتاہی بر تنے جرأت نہ ہو۔
ضمیرکی نگاہ سے دیکھئے توویرانے میں پڑی معصومہ آصفہ کی لاش ریاستی انتظامیہ کے منہ پر بڑا طمانچہ ہے۔یہ لاش ایک پکار ہے ، ایک صدا ئے احتجاج ہے ، ایک ایسے طوفان کا پیش خیمہ ہے جس میں مجرموںکے لئے پیغامِ ِاجل ہے۔ یاد رکھنا چاہیے یہ ایک آصفہ کی لاش نہیں تھی بلکہ انسانی حرمت کی لاش تھی جسے درندوں نے نوچا اور بھنبھوڑا تھا ۔ اس صورتحال پر کیا کیجئے ؟ ماتم کیجئے !سینہ کوبی کیجئے ! اس کے علاوہ ہمارے پاس اور بھی کوئی راستہ بھی نہیں بچاہے ۔ بایں ہمہ اپناتحفظ خود کیجئے ، انسانی بستیوں میں انسان نمابھیڑیے دندناتے پھر رہے ہیں ، جانیں تلف ہورہی ہیں ، عصمتیں لٹ رہی ہیںاور انتظامیہ مٹی کا مادھو بنی لب ِبام محوتماشہ ہے۔ حق یہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں اخلاقی اقدار کو دفن کیا جاتا ہو تواخلاقی پستی اور عقلی زبوں حالی اس معاشرے کا مقدر بن جاتی ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ریاست جموں کشمیر کاجموں ڈویژن آج کل ایسے ہی گھمبیرحالات سے گذررہاہے کہ جہاںاخلاقی اقدار کے جنازے اٹھ رہے ہیں اورانسانیت کی دھجیاں بکھیریں جارہی ہیں ۔ کھٹوعہ میں پیش آیاسانحہ عظیم نے جہاں انسانیت ، اخلاقیات، احترامِ زندگی سے جڑے تمام زریںابواب کے پرخچے اڑا دئے،وہیں یہ لاشوں، تباہیوں ، زخمیوں اور قیدیوں کا شمار کر نے والی انتظامیہ کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ بھی ہے۔