سرینگر//تحریک حریت نے آزادی پسند قائدین وکارکنان کی جیلوں میں مسلسل نظربندی کو انتقام گیری کی بدترین مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت انتقام گیری کے تمام ریکارڈ توڑ کر آزادی پسند قائدین کی خاصی تعداد کو جیلوں میں ٹھونس کر بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ تحریک حریت نے کہا تنظیم کے لیڈر امیرِ حمزہ شاہ گزشتہ 3برسوں سے مسلسل جیل میں بند ہیں۔ حکومت کی طرف سے اُن پر لگائے گئے تمام تر فرضی الزامات کے تحت جرم بے گناہی کی سزا کاٹنے کے باوجود اُن کی رہائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے اورکل امرگڑھ تھانے میں حبس بے جا میں ہیں۔ اُن کے اہل خانہ کو اُن کی رہائی میں ٹال مٹول کیا جارہا ہے۔ ادھر منظور احمد کلو بھی گزشتہ 2برسوں سے جیل میں بند ہیں۔ اس دوران گزشتہ ماہ اُن کے بزرگ اور عمر رسیدہ والد بھی دنیائے فانی سے رخصت کرگئے۔ اُن کو ان کی آخری رسومات میں بھی شرکت کی اجازت نہیں دی گئی، حالانکہ ان کا PSAکالعدم قرار دیا جاچکا تھا جبکہ محمد یوسف لون، میر حفیظ اللہ، رئیس احمد میر، محمد یوسف فلاحی، سلمان یوسف، عبدالغنی بٹ، عبدالسبحان وانی، شیخ محمد رمضان، شکیل احمد یتو، محمد امین آہنگر، مفتی عبدالاحد، فاروق احمد بٹ، محمد شعبان خان، عبدالحمید پرے، غلام حسن شاہ، نذیر احمد مانتو، حاکم الرحمان، عبدالرشید، بشیر احمد صالح، محمد اشرف ملک، غلام محمد تانترے، عبدالواحد میر، اعجاز احمد بہرو، آصف گل، فیاض احمد کمہار۔ وسیم احمد فراش، عبدالرشید، توصیف خان، ہلال احمد پال کو بھی گزشتہ کئی برسوں سے پابند سلاسل کیا گیا ہے، حالانکہ جن فرضی الزامات کے تحت ان قائدین وکارکنان کو گرفتار کیا گیا تھا اُن تمام کیسوں سے وہ عدالتوں سے بری قرار دئے گئے ہیں۔ اس کے بعد اُن قائدین وکارکنان کو جیلوں میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ بنیادی طور پر موجودہ حکومت نے تحریک حریت کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کئے جانے کے لیے گرفتاریوں کا سلسلہ دراز کیا ہوا ہے اور تحریک حریت کو کوئی political spaceنہیں دی جارہی ہے، اسی لیے ہمارے قائدین وکارکنان کو مختلف فرضی کیسوں میں پھنسا کر جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ تحریک حریت نے ان تمام سیاسی نظربندوں کی رہائی پر زور دیا۔ تحریک حریت نے غلام قادر بٹ کپواڑہ جو کہ سینٹرل جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے کو وادی سے باہر جیل منتقل کرنے کی بھی سخت مذمت کی۔