چلئے دو منٹ کیلئے اس لفاظیت کا ذائقہ بھی چکھتے ہیں کہ ہماے نوجوان ’’جذبات‘‘میں آکر اور ’’خوب و ناخوب ‘‘کی تمیز کئے بغیر بندوق کے ’’ہیرو ازم ‘‘ (Heroism)میں آکر اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔اگر ایسا بھی تسلیم کریں،حالانکہ جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا کہ یہ محض بہتان ہے ،پھر بھی کیا ایک آدھ مثال ایسی دی جاسکتی ہے کہ کسی ملی ٹنٹ نے آزادی پسند قیادت پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ ان کے بہکاوے میں آکر اس منزل کے راہی بن گئے یا ان کے والدین نے دبی زبان میں بھی اس قسم کی شکایت کی ۔بلکہ جیسا کہ اخباری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی جدائی پر جہاں فطری طور غم زدہ ہوتے ہیں ،وہیں خود کو خو ش قسمت بھی سمجھتے ہیں۔خود بھارت کے متعدد صحافی کئی معروف کمانڈروں کے والدین سے اس طرح کے سوالات پوچھتے آئے ہیںلیکن ہر بار ان کو یہی جواب ملتا ہے کہ ’’ہمارے بچوں نے اپنی مرضی سے یہ راستہ اختیار کیا ہے اور ہمیں انکے اس انتخاب پر کوئی پچھتاوا نہیں‘‘۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ عوام بالخصوص جاں بحق ہوئے ملی ٹنٹوں کے لواحقین جنازہ اٹھانے کے دوران مزاحمتی قیادت خصوصاً سید علی گیلانی کے ٹیلی فونک خطاب سننے کیلئے بے قرار رہتے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ مقامات ِ تصادم کی طرف نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد محصور ملی ٹنٹوں کو محاصرے سے چھڑا نے کیلئے رُخ کرتی ہے اور اپنی جانوںکی پرواہ نہ کرتے ہوئے فورسز سے بھڑ جاتی ہے ،حالانکہ خوب جانتے ہیں کہ وہاں ان کو ’’دودھ اور ٹافیاں ‘‘ملنے والی نہیں ہیں،ملی ٹنٹوں کے حمایتی (Over Ground Worker) کی لیبل لگا کر انہیں گولیوں ،پیلٹ اور ٹیر گیس سے ’’سبق سکھانے ‘‘کا پورا انتظام کیا گیا ہوتا ہے ۔
قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب ظلم حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو مظلوم سے خوف جاتا رہتا ہے اور اس میں قوتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے ۔بند گلیوں سے وہ عزم اورحوصلہ پاتاہے اور امید کے چراغ لئے آگے بڑھتا ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ظلم ہی مزاحمت کی آبیاری کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کریک ڈائونوں ،تصادموں اور پکڑ دھکڑ اور بے پناہ جانی و مالی نقصانات کے باوجود سینٹمنٹ کے بارے میں عوام کے اخلاص اور تقدس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے حالانکہ اس جذبے کو ختم کرنے کیلئے نت نئی ٹیکنیک کا استعمال بھی ہوا ہے اور پرانی ترکیبوں میں نیا پن (Improvisation)بھی آیا ہے۔
پوچھا جاسکتا ہے کہ آخر مزاحمتی قیادت کے پاس ایسا کیا ہے جس سے وہ نوجوانوںکو بارود کاایندھن بننے سے روک سکتی ہے اور ان کی توانائیاں ’’تعمیری ‘‘کاموں میں لگا سکتی ہے ۔جو لوگ خود عتاب کے شکار ہیں اور ’’قانون ِ بے قانون‘‘والی حکمرانی کے پسندیدہ ٹارگٹ ہیں ،ان سے اس طرح کی فرمائشیں کرنا چہ معنی دارد! سسٹم کا یہ آتشیں لہجہ اور قوت ِ قاہرہ کا پندار ہی تو ہے جس نے نوجوانوں کو اس انتہا تک پہنچایا ،ورنہ امن ، خوشحالی ،آسود گی اور سلیقے سے جینے اور مستعار زندگی کی بہاروں سے لطف اندوز ہونے کی تمنا کس کو نہیں۔عناد و انتقام کے بطن سے پھوٹی یہ زیادتیاں سسٹم کی ’’عنایتیں‘‘ہی تو ہیں اور یاد رکھئے ،اس کا ازالہ سرینگر میں نہیں ،دلّی میں ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس ’’گنگا جمنی تہذیب ‘‘کے دیس میں انسانیت ،جمہوریت اور شرافت کا آئین ہی اس قدر بدل جاتا ہے جب کشمیر اور کشمیری سے ارباب حل و عقد کی نظریں ٹکراتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ تعزیت کے بیانات دینے اور تعزیت پرسی کرنے اور ہلاکتوں کے گراف پر دکھ اور ناراضگی کے اظہار کرنے کے علاوہ حریت کے پاس کچھ نہیں۔اب تک ان تیس برسوں میں کئی طرح کی کو تاہیاں سرزد ہونے کے با وصف مزاحمتی قیادت کے بارے میں ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ وہ اس سیاسی پلیٹ فارم کے ذریعے کشمیری عوام کے اس سنٹیمنٹ کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیتی آئی ہے جس کی گونج ہر چارسو سنائی دیتی ہے اور جس کیلئے عوام اتنی بیش بہا قربانیاں دیتے آئے ہیں۔سنٹیمنٹ کی نشو نما کرنے اور حفاظت کرنے اور منزل مقصود کو اوجھل نہ ہونے دینے کے حوالے سے اس کے رول کو صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔علاو ہ ازیں ریاست کی ڈیموگرافی اور بچی کھچی اٹانومی اور تہذیبی و تمدنی شناخت کو ختم کرنے کے سلسلہ میں کی گئی سازشوں اور معاندانہ عزائم کو ناکام بنانے کیلئے اس قیادت کی مخلصانہ کوششیں سب پر عیاںہیں۔چاہئے شرائن بورڈکے حق میں جنگلاتی زمین الاٹ کرنے کا معاملہ ہو،یا شرنارتھیوں کو سٹیٹ سبجیکٹ دینے کا معاملہ ہو ،یا پنڈتوں کیلئے الگ قصبہ جات بنانے کا پلان ہو،یا 35-Aکو ختم کرنے کا منصوبہ ہو ،یا اس طرح کے دوسرے معاملات ،جن سے یہاں کی مسلم شناخت اور ریاست کا خصوصی کردار متاثر ہونے کا اندیشہ ہو ،اس قیادت نے فرنٹ فُٹ پر آکر ان تمام معاملوں میں اپنا کردار نبھایا۔اس لحاظ سے یہ وہ پہلی دیوار ہے جو سنٹیمنٹ کے ساتھ ساتھ ہمارے انفرادی تشخص کے تحفظ کیلئے حساس ثابت ہوئی ہے ۔ورنہ بھارت نواز مقامی سیاسی ٹولہ جس بے شرمی کے ساتھ اور اقتدار کیلئے ریاست کو بیچ کھا ئے جارہا تھا، یہ ریاست کب کی بھارت کے ’’قومی دھارے ‘‘میں اپنا وجود ختم کرچکی ہوتی اور ہریانہ و پنجاب کی طرح بھارت کی ایک اور ریاست ہوتی اور ساتھ ہی ا سکی متنازعہ حیثیت بھی ختم ہوچکی ہوتی ۔اٹانومی اور سیلف رول کے نعرے محض عوام کو گمراہ کرنے کیلئے گھڑے گئے ورنہ دنیا جانتی ہے کہ ان ہی لوگوں نے ریاست کا دوپٹہ چھینا اور ان کے ہاتھوں عوام کی آرزئوں اور تمنائوں پر شب خون ماراگیا۔
یہ قیادت تکرار کے ساتھ ا س مطالبہ کو دہراتی آئی ہے کہ دعویٰٔ جمہوریت کی لاج رکھ کر ان کو پر امن طریقے سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے تاکہ عوام بالخصوص نوجوان اس پلیٹ فارم سے جڑتے ہوئے محسوس کریں کہ ان کے جذبات کی ترجمانی ہورہی ہے لیکن یہاں2010سے مقامی سرکاروں اور سیاسی گماشتوں کے تعاون و اشتراک سے مختلف نقطہ نظر کی حامل سوچ پر جس قسم کی بندشیں عائد کی گئیںاور جس طرح کی زیادتیوں اور عتاب کا انہیں شکار بنایا گیا،اس سے یہ بات کھل کر سامنے اائی کہ سسٹم حریت کو کسی بھی طور برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔مودی حکومت کے بر سر اقتدار آنے ،خصوصاً 2016کی عوامی تحریک برپا ہونے کے بعد اس رویے میں مزید شدت اور جارحیت آئی ۔اسٹیبلشمنٹ کی یہ ’’کرامتیں‘‘ہی تو ہیں کہ جیل کے اندر ہی قیدی پر تیس تیس بار پی ایس اے لگتا ہے اور سپریم کورٹ آڈر کہ قیدیوں کو مقامی تھانوں کے نزدیک جیلوں میں رکھا جائے ،کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مختلف سوچ رکھنے والے قائدین اور کارکنوں(جن میں خواتین بھی شامل ہیں)کوجیلوں میں بند رکھا جاتا ہے ۔حد یہ ہے کہ25،25سال کا طویل عرصہ جیلوں میں گزارنے کے باوجود سیاسی قیدیوں کو چھوڑا نہیں جاتا اور یہاں جو قائدین ’’آزاد ‘‘ہیں ،ان کو گھروں یا پولیس تھانوں میں نظر بند رکھا جاتا ہے ۔اس ساری تکلیف دہ بلکہ اعصاب شکن صورتحال کو سامنے رکھئے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مزاحمتی قیادت جس طرح اپنے موقف پر قائم ہے اور سنٹیمنٹ کے تئیں جس اخلاص اور استقامت کا مظاہرہ کررہی ہے ،وہ غنیمت ہونے کے ساتھ ساتھ قابل ستائش بھی ہے ۔ کم از کم پاکیزہ لہو اور عظیم قربانیوں پر کسی دوسرے شیخ محمد عبداللہ کی قصر سلطانی تعمیرنہیںہو پارہی ہے اور اقتدار کے سنگھا سن پر بیٹھنے کیلئے جذباتی بلیک میلنگ نہیں ہورہی ہے ۔بلکہ اس کے برعکس مخلص قیادت یہاں اپنا سب کچھ اسی متاعِ عزیز پر نچھاور کررہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کی غالب اکثریت ،حریت کی بعض کمزوریوں کے باوصف ان پر اعتماد کرتی ہے اور ان ہی کو سنٹیمنٹ کا حقیقی نمائندہ مانتی ہے ۔یہاں اس امر کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ جہاں تک دلّی کے مراعات یافتہ طبقے کا تعلق ہے ،ان کا پورا سیاسی کیرئر اور جھوٹی شان و شوکت دلّی کی عطا کردہ بیساکھیوں کی مرہون ِ احسان ہے ۔جب بھی یہ ہٹ گئیں ،وہ خود کو یتیم پائیں گے اور اپنے گھر میں بھی وہ شاید خود کو اجنبی پائیں گے۔
رہا عوام کا یہ مزاج کہ رائے شماری کے عقیدے کے ساتھ اپنے اور اپنے بچو ں کا مستقبل سسٹم کے ساتھ جڑ ے رکھنے میں دن رات ایک کرتے ہیں ،تو اس میں کیا برائی ہے ۔برائی تو یہ ہے کہ جب آپ اپنی سوچ ،اپنی صلاحیت ، اپنا قلم ،اپنا ضمیر ،اپنی زبان اور اپنا حلقہ اثر سسٹم کو قانونی ،سیاسی اور اخلاقی جواز بخشنے کیلئے استعمال کریں۔کشمیرایک متنازعہ خطہ ہے اور جب تک اس کا تصفیہ عوامی خواہشات کے مطابق ہوجائے ،غالب طاقت کیلئے لازم ہے کہ وہ عوامی ضروریات کی تمام سہولتیں میسر رکھے ۔لیکن جب وہ چناوی عمل کو رائے شماری کے نعم البدل کے طور پر دنیا کو بیچ دے تو معاملے کی نوعیت بدل جاتی ہے ۔اور یہاں ہی ہم دھوکہ کھا جاتے ہیںاور ہم آپ اپنے ہاتھوں سنٹیمنٹ کی آبروریزی کرتے ہیں۔اصل سوال یہ پوچھا جانا چاہئے کہ لاکھوں کی تعداد میں ملی ٹنٹوںکے جنازہ جلوسوں میں شرکت کرنا اور قطار در قطار ووٹ ڈالنا کیا معنی رکھتا ہے ۔یہ دو انتہا ہیں اور کسی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوسکتے۔ایک کی حرمت دوسرے کو بے توقیر بنا دیتی ہے ۔کل جس سسٹم کے خلاف لاکھوں عوام استصواب کے نعرے کے ساتھ گولیوں کی پرواہ کئے بغیر سڑکوںپر آئے ،آج اسی سسٹم کے ہاتھ چومنے کیلئے بھی گھروں سے دیوانہ وارنکل پڑے! یہ متضاد رویہ ،یہ منافقت ،چاہے اس کے جواز میں ہم کیا کچھ نہ کہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اسی کے ڈسے ہوئے ہیں اور اسی چیز سے ہمارے لہو کی توہین بھی ہوتی ہے یا کرائی جاتی ہے ۔
(باقی اگلے شمارے میں )
بشکریہ ہفت روزہ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر