نوید الاسلام،سرینگر
زندگی ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر انسان محسوس تو کرتا ہے مگر پوری طرح سمجھ نہیں پاتا۔ ہم روز صبح آنکھ کھولتے ہیں، اپنے معمولات میں مصروف ہوجاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تمام لمحات، یہ تمام سانسیں، یہ تمام پل ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ دنیا کے بے شمار واقعات ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ زندگی کتنی ناپائیدار ہے، مگر پھر بھی انسان اپنی غفلت میں ڈوبا رہتا ہے۔
زندگی ریت کی خوشبو ہے، ہاتھ میں ٹھہرتی نہیں
موت سایہ ہے جو خاموشی سے ساتھ چلتی ہے
حالیہ نوگام اور بڈگام کے دل خراش واقعات اسی تلخ حقیقت کی گہری مثالیں ہیں۔ دونوں حادثات نے یہ ثابت کردیا کہ موت نہ جگہ دیکھتی ہے، نہ وقت، نہ عمر، نہ حالات۔ جو لمحہ ہے، وہی حقیقت ہے اور جو لمحہ گزر گیا، وہ کبھی واپس نہیں آتا۔
آج کی سانس ہے، بس یہ حقیقت سمجھ
کل کا ہر لمحہ سوال ہے، کوئی ضامن نہیں
نوگام اور بڈگام کے حادثات نے دوستوں، خاندانوں اور پورے معاشرے کو لرزا کر رکھ دیا۔ وہ لوگ جو صبح معمول کی طرح گھر سے نکلے، کسی کو اندازہ بھی نہ تھا کہ یہ ان کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔ چند لمحوں میں ہنستے بستے گھر اُجڑ گئے اور کئی دلوں کی دھڑکنیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئیں۔
کل جو ہنستے تھے، آج خاموش مٹی میں سو گئے
یہی زندگی ہےچند لمحوں میں بدل گئے
انسان کا سب سے بڑا دھوکہ یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو محفوظ سمجھتا ہے۔ اسے لگتا ہے ابھی بہت وقت ہے، ابھی ارادے باقی ہیں، خواب باقی ہیں۔ لیکن زندگی کسی کے منصوبے کے مطابق نہیں چلتی۔ آج نوگام اور بڈگام کے واقعات ہمارے سامنے ہیں، کل کوئی اور حادثہ ہمیں ہلا دے گا۔
حادثے وقت کے لکھے ہوئے فیصلے ہوتے ہیں
جو پل بھر میں انسان کی دنیا چھین لیتے ہیں
اگر انسان کو اپنی موت کا وقت معلوم ہوتا تو وہ زندگی کو کبھی اس طرح ضائع نہ کرتا۔ مگر یہی چھپا ہونا انسان کے لیے حکمت ہے،تاکہ ہر لمحہ قیمتی لگے اور ہر سانس امانت محسوس ہو۔
زندگی کی بے ثباتی پر غور کرنے سے انسان کے اندر بیداری پیدا ہوتی ہے۔ جب وہ سمجھتا ہے کہ ہر سانس عطا ہے، امانت ہے، تو وہ اپنی روش بدلتا ہے، تعلقات کی حفاظت کرتا ہے، اور اپنے اعمال کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
جو وقت ملا ہے اسے غنیمت جان
کل کس نے دیکھا ہےبس آج پہچان
یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ نہ خوشی دائم ہے، نہ غم۔ نہ طاقت رہتی ہے، نہ کمزوری۔ سب کچھ فنا ہونے والا ہے۔
وقت کم ہے مگر سفر بہت لمبا ہے
موت کہتی ہےآوازِ حق، دھوکا نہ کھا ہے
نوگام اور بڈگام کے حادثات نے کئی گھروں کے چراغ بجھا دیے،کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی، کسی کا دوست، سب چند لمحوں میں اپنی آخری منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
زندگی لمحوں کی ہے، دھوپ چھاؤں کی طرح
موت آتی ہے اچانک، تیز آندھی کی طرح
انسان زندگی کو لمبی سمجھتا ہے، مگر حقیقت میں یہ چند سانسوں کی مہلت ہے۔ جب آخری سانس رُک جاتی ہے تو دولت، عزت، خواہشیں، سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔
سانسوں کی دولت نہ سمندر، نہ خزانہ
اک پل میں سب کچھ کھو جائےیہی زمانہ
قبر میں انسان اکیلا اترتا ہے اور اس کے اعمال ہی اس کے ساتھ جاتے ہیں۔
نوگام اور بڈگام کے واقعات یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی زندگی کو سنجیدگی سے جینا چاہیے۔ نرمی، معافی، محبت، کردار کی صفائی ،یہ سب ہمارے اصل سرمایہ ہیں۔
جو پل گزر جائے، وہ ہاتھ نہیں آتا
جو لمحہ باقی ہے، وہ بھی شاید نہ رہے
انسان کو اپنے آپ سے یہ سوال روز پوچھنے چاہئیں:کیا میں نے آج کسی کا دل دکھایا؟کیا میں نے کسی کی مدد کی؟کیا میں نے اپنی زندگی میں بہتری پیدا کی؟کیا میں نے وقت کو ضائع کیا یا اس سے کچھ حاصل کیا؟دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ آج جو ہمارے ساتھ ہیں، کل نہیں ہوں گے۔ آج جو زندہ ہیں، کل مٹی میں سو رہے ہوں گے۔ نوگام اور بڈگام جیسے حادثات انسان کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں، مگر اگر پھر بھی دل نہ جاگے تو یہ انسان کی اپنی ہی محرومی ہے۔
زندگی سفر ہےاور اس سفر کی آخری منزل بہت قریب ہے۔ انسان کو ہر لمحے موت کی تیاری رکھنی چاہیے۔ یہ خوف نہیں، شعور ہے۔
موت آ جائے تو کہہ دیتی ہے خاموشی سے
زندگی تھی فقط اک پل سب کچھ تھا یونہی سے
آخر میں یہی حقیقت باقی رہتی ہے:آج کی سانس کل کی کوئی ضمانت نہیں۔لہٰذا زندگی ایسے جیو کہ اگر اگلا لمحہ نہ بھی ملے، تو پچھتاوا نہ رہے۔
رابطہ۔7006753616
[email protected]