حافظ میر ابراہیم سلفی
رب العزت کی عظیم منت ہے کہ جس نے ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل فرمایا، یہ وہ نعمت عظمیٰ ہے جس کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔عالم ارواح میں ہی اللہ تعالی نے انبیاء کرام کی مقدس ارواح سے عہد لیا تھا کہ اگر آپکے دور نبوت و رسالت میں عبداللہ کے لخت جگر، آمنہ کے نور نظر تشریف لاتے ہیں تو آپکو اپنی امامت کا جلوہ نہیں منوانا بلکہ سیدنا محمدؐ کی امامت کی اقتداء کرنی ہوگی۔شب معراج میں بھی بیت المقدس میں نبی کریم ؐ نے سابقہ انبیاء و رسل کی امامت کرکے درس مبین دیا کہ آپؐ نہ صرف اگلوں کے بلکہ پچھلی امتوں کے بھی امام تھے۔عصر حاضر میں ملت اسلامیہ کا مستقبل راہ ہدایت سے جدا ہوگیا ہے جسکی بنیادی وجہ حیات مبارکہ کی عدم معرفت ہے۔سلف صالحین نے باقاعدگی سے سیرت پر کام کیا تاکہ قرآن کے مرادی معنی سے ہم محروم نہ ہوجائیں۔سیرت نبویہ پر ہر دور میں کام کیا گیا لیکن عصر حاضر میں سیرت کی تشہیر، نشر و اشاعت کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ انسانیت اخلاقی ،سماجی ،معاشی و معاشرتی طور زوال پزیر ہوچکی ہے۔آج انسانیت کردارِ مبارک کی محتاج ہے ،مادیت نے انسان کو فقط ایک معاشی آلہ بنا کر انسانیت و حیوانیت کی فرق کو کافی حد تک مٹادی ہے۔اللہ رب العزت نے بنی آدم کی رہبری کے لئے قرآن مقدس نازل فرمایا ،لیکن قرآن فہمی کے لئے دراست سیرت انتہائی اہم ہے۔قرآن کی الٰہی مراد سمجھنے کے لئے سیرت کا علم ہونا انتہائی لازم ہے۔امام احمد ؒ نے مسند کے اندر روایت نقل کی ہے کہ سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدہ عائشہ ؓکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے ام المومنین! مجھے نبی کریم ؐ کے اخلاق کے بارے بتایئے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریمؐ کے اخلاق تو قرآن ہی تھا۔کیا تم نے قرآن کریم میں نبیؐ کا یہ ارشاد نہیں پڑھا،’’ وانک لعلی خلق عظیم ‘(مسند احمد ،بتحقیق شعیب الارنوؤط)
کاتب کی نظر میں تعلیمی دانشگاہوں ،صباحی و مسائی درسگاہوں ،خطبات جمعہ ،کلیات اور جامعات میں معلمین و معلمات پر دینی فریضہ ہے کہ وہ حسب استطاعت طلباء و طالبات کو حیات مبارکہ کا درس دیں ۔جدید تعلیم کے نام پر جو فکری یلغار تیز رفتاری سے ملت کو اپنے لپیٹ میں لے رہی ہے ،اس کا تعاقب فقط نبی کریمؐ کی حیات مبارکہ کے روشن پہلوؤں کو اُجاگر کرکے ہی ہوگا۔
نبی کریمؐ سے محبت کرنا ،آپ کی مبارک ذات اور اعلی فرامین کی تعظیم و توقیر کرنا ،قدم قدم پر آپؐ کی اطاعت و اتباع کرنا ،نئی نئی بدعات سے بچنا تب ہی ممکن ہےجب ہم سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں گے۔عصر حاضر میں وہ جرائم نمودار ہوچکے ہیں جن کا تصور بھی صحابہ کو نہ تھا ۔گھریلو فساد ،رشتوں میں دوریاں ،باہمی تنازعات دراصل سیرت نبویہ سے دوری کا ہی نتیجہ ہے۔آسمانی و زمینی آفات سے نجات کے لئے نبوی حقوق کی پاسداری لازمی ہے۔دراست سیرت کا ایک اہم فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ پڑھنے والے کو ان نفوس قدسیہ کی پہچان ہوتی ہے جنہوں نے اپنے وجود کو شریعت کے تابع کیا،جنہوں نے نبی کریمؐ کی تربیت حاصل کی ،جو خیر امت ،خیر الناس اور جماعہ جیسے القابات کے مصداق ٹھہرے۔اہل البیت اور صحابہ کرام نے ہی تاجدار حرم کے فرامین کو عملی شکل دی جس سے ہمیں ایک واضح منہج ،واضح سبیل حاصل ہوتی ہے جسے رب العزت نے سبیل المؤمنین کہا، جو حق اور باطل کے درمیان میزان مقرر ہوئی۔عصری علوم سے لیث تعلیم یافتہ طبقہ دین الٰہی سے اعراض کئے ہوئے ہے ،نوجوان ملت منافرت کی فضا سے تنگ آکر دہریت کے راستے پر گامزن ہیں، اسباب پر نظر ڈالی جائے تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ دین کے نام پر سب کچھ کہا گیا ،سب کچھ کیا گیا بس شارح کی سیرت بیان نہ کی گئی ۔آپ کے تربیت یافتہ ساتھیوں کی زندگی بیان نہ کی گئی۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ سطحی علم حاصل کرنے والوں نے دین الٰہی کو چند مخصوص فقہی مسائل میں قید کردیا جس سے نفرتوں کو ذاتی مفادات کے لئے پروان پڑھایا گیا۔ سیرت طیبہ چند فقہی مسائل کا نام نہیں بلکہ اس وحی کی نمائندگی کا نام ہے جو منزل من اللہ ہے۔سیرت طیبہ کے مقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ معاشرے کو جرائم سے پاک کرکے پرسکون بنایا جائے ،فحاشی کو مٹا کر باحیا بنایا جائے ،حق والوں کو حق دیا جائے ،مظالم کا خاتمہ کرکے عدل و انصاف رائج کیا جائے ،عقائد،عبادات،معاملات،تجارت ،سیاست کو نبوی مزاج سے مزّین کیا جائے۔دعوتی میدان میں سرگرم افراد جب تک منہج نبوی کے مطابق دعوت نہیں دیں گے تب تک کامیابی ملنا فقط لاحاصل خواب ہے۔
ملت کی بیٹیاں،قوم کے جوان تھکے ہارے ذہنی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں ، منشیات کی شرح بڑھ رہی ہے ،مسلم معاشرے کو فحاشی و عریانی کے دلدل میں پھینکنے کا کام ہمارے ہی بچوں کو استعمال کرکے ہورہا ہے ،لواطت کی بیماری ،جسم فروشی ،حرام تعلقات کی گندگی ،بد نگاہی ،خیانت اپنے عروج پر ہے۔ہر کوئی فرعونیت کے راستے پر چل کر بزبان حال خدا بننے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے ۔ اس زمینی عدم توازن کو کنارے پر لانے کا کام سیرت نبویہ کی ترویج ہی کرسکتی ہے۔ سیدنا عمرؓ کا فرمان ہے کہ ،’’ہم وہ قوم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری عزت، دین اسلام میں رکھی ہے اگر ہم نے اپنی عزت، دین اسلام کے علاوہ کسی اور جگہ سے تلاش کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ ہمیں ذلیل کردے گا۔‘‘(تفسیر ابن کثیر) فرمان ربانی ہے کہ ’’تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کے لئے استغفار کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں۔‘‘
آج بھی اس مظلوم ،بکھرے ہوئے سماج کو نبوی کردار سے لیث دردمندوں ،غمخواروں اور اہل دل کی ضرورت ہے۔سید البشر نے نباتات و جمادات، حیوانات کے حقوق بھی بیان فرمائے ، کمزور طبقوں کی آپ نے نمائندگی فرمائی ،خواتین کے مدفون حقوق کو آپ نے زندہ کردیا۔سیرت نبویہ کا علم ہوتا تو ہم جدید افکار سے متاثر نہیں ہوتے ۔
حسن و جمال میں رسول عربیؐ لاثانی اور بے مثال تھے۔آج اداکاروں اور فنکاروں کی شکل و صورت میں تقلید کرنے والے ،کاش اپنے اسوہ حسنہ کے حسن و جمال کا تذکرہ سنتے۔محدثین کرام نے بعض کتب شمائل پر ہی لکھیں تاکہ نبی کریمؐ کی خوبصورتی کا ایک ادنیٰ خاکہ محفوظ رہ سکے۔اسی طرح محدثین اور اہل سیر نے معجزات نبوی کو اپنی زخیم کتب میں جمع کیا تاکہ خاتم نبوت کو دلائل و براہین سے پیش کیا جاسکے۔بس پڑھنے اور پڑھانے کی دیر ہے۔
خلاصہ کلام!عصر حاضر میں دین و ایمان کی حفاظت کے لئے ، عصری افکار کا تعاقب کرنے کے لئے ، الحاد و دہریت سے بچنے کے لئے ،اسلام پر اٹھنے والے سوالات کے جواب دینے کے لئے سیرت نبویہؐ کا مطالعہ نسخہ کیمیا کی حیثیت رکھتا ہے۔اسلام کی حقانیت جاننے کے لئے ،نظام نبوی سمجھنے کے لئے ،جدید غزوہ فکری کے شکوک و شبہات کے قلع قمع کے لئے نبویؐ زندگی کے شب و روز میں غوطہ زن ہونے کی ضرورت ہے۔ توحید الٰہی کی معرفت کا ادراک کرنا ہو،عبادات میں پختگی کی طلب ہو ،ایمان کے مٹھاس کا ذائقہ چکھنا ہو ،گفتار و کردار کی پاکیزگی کی چاہت ہو تو سیرت نبویہؐ کے دروس کو عام کیا جائے۔
(رابطہ۔ 8899197674)
[email protected]