آبِ حیات وہ روایتی پانی ہےجس کی نسبت کہا گیا ہے کہ اس کا ایک قطرہ پینے کے بعد انسان امر ہو جاتا ہے۔ (یہ پانی چشمۂ ظلمات میں بتایا گیا ہے، کہتے ہیں کہ حضرت الیاسؑ اور حضرت خضر ؑنے یہ پانی پی کر عمر ابد حاصل کی، لیکن سکندر اس کی تلاش میں بحر ظلمات تک گیا تو بے نیل مرام واپس آیا)۔اس حقیقت کے باوجود کہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ،حضرت انسان ہمیشہ سے ابدی زندگی کی تلاش میں رہا ہے۔ ہمیشہ جوان اور حیات رہنے کی تمنا میں انسان ایسے کسی چشمے کی کھوج میں رہا ہے کہ جس کا پانی پی کر حیات ابدی حاصل ہوسکے۔ بے شمار قصے کہانیوں اور داستانوں میں اس چشمہ آب حیات کا ذکر ملتا ہے۔ اس موضوع پر کچھ فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں اور کئی ناول بھی لکھے جاچکے ہیں۔ انڈیانا جونز سیریز کی ایک فلم انڈیانا جونز اینڈ دی لاسٹ کروسیڈIndiana Jones And The Last Crusade بھی ہے جس میں وہ ہولی گریل Holy Grail یعنی اس گلاس یا پیالے کی تلاش میں نکلتا ہے جو عیسائی روایات کے مطابق وہ گلاس یا پیالہ ہے جس میں حضرت عیسٰیؑ نے اپنے فرضی طور مصلوب ہونے سے والی رات رات کے کھانے کے بعد مشروب پیا تھا۔ واضح رہے اسلامی عقیدے کے مطابق حضرت عیسٰیؑ بغیر صلیب چڑھے آسمان پر اللہ کے اذن سے اٹھائے گئے۔آب حیات کا تصور حضرت خضرؑ کے حوالے سے معروف ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم کو شوق ہوا کہ وہ آبِ حیات کا چشمہ تلاش کرے اور اس کا پانی پیے۔ وہ اسے تلاش کرتا کرتا اس تک پہنچ گیا تو اس نے چشمے کے کنارے پر ایک پرندہ پایا جس کے بال و پر جھڑ چکے تھے، کھال لٹکی ہوئی تھی، چونچ گھس چکی تھی، لنگڑا لنگڑا کر چل رہا تھا۔ سکندر نے پوچھا : اے طائر لاہوتی! تو آب حیات کے چشمے کا پانی پی کر نچنت کیوں نہیں ہو جاتا؟ کیوں اتنی تکلیف میں پڑا ہوا ہے؟‘‘ طائر لاہوتی نے جواب دیا :اسی چشمے کا پانی پی کر تو اس حال کو پہنچا ہوں۔ اب علم ہوا کہ آبِ حیات ابدی زندگی تو دیتا ہے مگر جوانی نہیں۔ اب بڑھاپے نے میرا یہ حال کر دیا ہے کہ چلنے پھرنے سے لاچار ہوں مگر موت نہیں آتی کہ کچھ راحت پاؤں۔‘‘ سکندر نے پانی پینے سے انکار کر دیا اور واپس پلٹ آیا اور بتیس سال کی بھری جوانی میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
انسان نے تقریباً ساری دنیا کھنگال ڈالی ہے، بے شمار خفیہ گرد سرد اور مختلف نمکیات سے پُر چشمے بھی مل گئے ہیں لیکن ’’جوانی کا چشمہ‘‘ اور آب حیات نہیں مل سکا۔ علم و تحقیق کے مطابق بڑھاپے یا عمر میں اضافہ کا سلسلہ پیدائش کے دن ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ بچہ کا بڑا ہو کر بالغ ہونا، پھر بڑھاپے میں قدم رکھنا جس کے بعد اضافہ عمر کے سبب انسان کی کارکردگی گھٹنے لگتی ہے جو بالآخر موت پر ختم ہو جاتی ہے۔
سائنس جسم میں آنے والی تبدیلیوں اور موت کے بارے میں معلومات بعض ضرور فراہم کرتی ہے لیکن دو سوالوں کے جواب دینے سے فی الحال قاصر ہے (جس کی تگ و دو میں وہ برابر مصروف ہے)، پہلا سوال یہ کہ کیا اضافہ عمر اور موت کا کوئی مقصد ہوتا ہے؟ اور اگر ہے تو وہ مقصد کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ طویل عمری یا طویل شباب کی تلاش میں انسان صدیوں سے سرگرداں ہے۔ آب حیات، چشمہ شباب ، امرت وغیرہ وغیرہ جیسے تصورات اس کے ثبوت ہیں۔ سکندر اعظم سے بھی پہلے کے لوگ یقینا اس کی آرزو اور تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔ سکندر اور خضر کی حکایت صدیوں سے مشہور چلی آ رہی ہے۔ چشمہ شباب کے تلاش اور اس کا پانی پینے کا مقصد صرف یہی تھا کہ انسان ہمیشہ جوان اور توانا و صحت مند رہے اور لمبی عمر پائے۔ تلاش کا یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔یہاں مشرق کے قدیم تجربات کا ذکر بھی مناسب ہوگا جن کے مطابق یوگا، تائی چی اور چی کانگ جیسی نہایت کارآمد ورزشیں عمر بڑھاتی ہیں۔ ان ورزشوں کی بنیاد ان نظریوں پر ہے کہ صحت دراصل جسمانی ، جذباتی ، ذہنی اور روحانی توازن کے نتیجے میں حاصل ہو سکتی ہے۔ ان میں ورزشوں کے علاوہ جسم کو حالت آرام میں لانے کے طریقوں کے علاوہ سانس لینے کی ورزشیں، غذا اور مراقبہ بھی شامل ہے۔اب اہل مغرب نے سائنس کی چھڑی ہلائی ہے۔ ان کو آبِ حیات مل گیا ہے۔ انسانی جسم میں خلیہ آہستہ آہستہ بوڑھے ہونے لگتے ہیں۔ ایک خاص حد تک تقسیم در تقسیم ہونے کے بعد ان کی بس ہو جاتی ہے اور وہ بڑھنا بند ہو جاتے ہیں۔ کروموسوم کے سروں پر موجودہ ٹیلومر عمر بڑھنے کے ساتھ چھوٹے ہوتے جاتے ہیں۔اب برطانوی سائنسدانوں نے تجربات کیے ہیں جن کے نتیجے میں وہ ان بوڑھے خلیوں کو دوبارہ نوجوان بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان خلیوں کے ٹیلومر دوبارہ لمبے ہو گئے ہیں یعنی بڈھوں کو اب یہ کیمیائی آب حیات دیا جائے گا تو وہ ایک بار پھر جوان ہونے لگیں گے۔ جھریاں جاتی رہیں گے۔ بڑھاپے کی بیماریوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ بڑھاپے کے ساتھ آنے والی دل کی بیماریاں اور فالج نہیں ہوں گے۔ دعویٰ یہ کیا جارہاہے کہ بیس سال کے اندر اندر یورپ میں سو سال تک جینا عام بات ہو گی۔ یہ میں نہیں کہہ رہا سائنسدان کہہ رہے ہیں۔ کیلیفورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات بھارتی نژاد ڈاکٹر شرد پاتلجاپور کے مطابق اوسط زندگی میں اضافہ جو علاج اور بیماری کی روک تھام کے شعبوں میں ترقی کی وجہ سے ہو رہا ہے، اس دنیا اور دنیا میں رہنے والوں کی زیست کو بدل دے گا۔ اس کے ساتھ گہری سماجی اور سیاسی تبدیلیاں آئیں گی جن میں بوڑھوں کی تعداد میں ایک بہت بڑا اضافہ بھی شامل ہے۔ ایک نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ ریٹائرمنٹ یا پنشن کی عمر بڑھا کر 85 سال کر دی جائے۔ دوسرا اولڈ ایج ہوم (جن کو ہالینڈ میں گیسٹ ہاؤس کہتے ہیں) کی تعداد بڑھا دی جائے۔ یہ سب کچھ 2018 کے بعد شروع ہونے کی توقع ہے جب انسانی زندگی اتنی تیزی سے بڑھنی شروع ہوگی کہ ساٹھ ستر برس میں بیمار پڑنے والوں کو مذاق کا نشانہ بنایا جائے گا۔ ڈاکٹر تلجاپورکر کی تحقیق کے مطابق یہ عمل جس میں تیزی جاری رہے گی 2040 تک کا ہو سکتا ہے۔ اس دوران اوسط زندگی میں 20 سے 25 سال کا اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں اوسط زندگی 80 سے 100 سال تک پہنچ جائے گی۔
بہر کیف بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے اور قرآن مجید کہتا ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اصل چیز زندگی کی اُمنگ اور طبیعت کی جولانی ہے جس کے بغیر لمبی زندگی ایک عذاب بن جاتی ہے۔ ہماری تو یہی کوشش ہونی چاہئے کہ دنیا میں ایسے نیک اعمال سرانجام دے جائیں کہ پھر اللہ کے وعدے کے مطابق ایک پرلطف حیات دائمی( بہشتی زندگی ) ہمارا مقدر بن جائے۔