حسیب درابو
انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر نے اپنے یکم جنوری کے شمارے میں سرکاری اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے جموں و کشمیرمیںنئی پیدائش کی شرح( TFR) (ایک عورت کے بچے پیدا کرنے والے برسوں میں پیدا ہونے والے بچوں کی اوسط تعداد) میں تیزی سے اور زبردست کمی کی اطلاع دی ہے۔ اگرچہ شرح پیدائش چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے گر رہی ہے، تاہم پچھلے 15 برسوں میںاس میں غیر معمولی تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔ 1990-91میں یہ 3.6سے کم ہو کر 2005-06میں 2.4اور 2015-16میں 1.7رہ گئی۔ اب، تازہ ترین تخمینہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ 2019-21 میںیہ شرح 1.4ہے۔
یہ طویل مدتی کمی قومی اور عالمی سطح پر بہت سے حصوں میں وسیع آبادیاتی رجحانات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ ہندوستان کی شرح پیدائش میں کافی کمی دیکھی گئی ہے، جو 1970کی دہائی تک فی عورت اوسطاً 6بچے تھے جو 2008میں 2.7اور 2021میں مزیدگرکر 2.4رہ گئی ہے۔ عالمی سطح پر اوسط شرح پیدائش 1960کی دہائی میں تقریباً 5سے گھٹ کر2021 میں تقریباً 2.4 رہ گئی ہے۔
جموں و کشمیر میں، مسئلہ رجحان کے بارے میں اتنا زیادہ اہم نہیں ہے، جو کہ فطری ہے اور زیادہ تر معاملات میں بہتر سماجی و اقتصادی اشاریوں کی عکاسی کرنا مطلوب ہے۔ یہ شرح پیدائش کی سطح کے بارے میں ہے۔ 1.4پر یہ نہ صرف مطلق شرائط میں کم ہے بلکہ یہ 1.8 کی تبدیلی کی شرح سے بھی کم ہے۔ متبادل پیدائش کی شرح آبادی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لئے ہر نسل کیلئے ضروری فی عورت بچوں کی اوسط تعداد کے مساوی ہے۔
اس سے عجلت میں، بلکہ تشویشناک طور پر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ ایک بحران ہے اور کشمیری نسل معدومیت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پوسٹس نے اس میں سازشی نظریات کو شامل کیا جس نے آبادیاتی تبدیلی کو ڈیموگرافک ٹرانسفارمیشن میں بدل دیا۔
2021 تک تمام ممالک اور خطوں میں سے نصف سے زیادہ (204میں سے 110) میںنئی پیدائش کی شرح فی عورت 2.1پیدائش کی سطح سے کم ہے۔ 2016میں ہندوستان کے تمام اضلاع میں سے تقریباً نصف میں پیدائش کی سطح کم تھی، صرف 15فیصد میں شرح پیدائش 3.0سے اوپر تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زوال پذیری اور کم زرخیزی یا کم پیدائش نہ تو منفرد ہے اور نہ ہی جموں و کشمیر تک محدود ہے۔
شواہد پر مبنی تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ آبادیاتی تبدیلی سماجی و اقتصادی ترقی کا ایک متوقع نتیجہ ہے۔ عالمی سطح پر بہت سے خطوں اور ہندوستان نے اسی طرح کی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ کیرالہ میں مثال کے طور پر 1.8کی پیدائش کی شرح ہے، جو متبادل کی سطح سے نیچے ہے لیکن انسانی ترقی کے اشارے میں بہتری کا باعث بنی ہے۔
کچھ سماجی اشاریوں پر ایک سرسری نظر یہ بتاتی ہے کہ جموں و کشمیر کی گرتی ہوئی زرخیزی یا پیدائش کی شرح کم از کم کچھ مثبت سماجی اشاریوں سے منسلک ہے۔ جموں و کشمیر کی خواتین کی خواندگی کی شرح 2001میں 55.1فیصد سے بڑھ کر 2011میں 68فیصد ہوگئی ہے۔ تعلیم یافتہ خواتین اکثر بچے پیدا کرنے میں تاخیر کرتی ہیں، کم بچے پیدا کرتی ہیں، اور خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے استعمال کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ خام پیدائش کی شرح 2005میں 18.9سے کم ہو کر 2019میں 14.9ہوگئی، جو صحت کی بہتر خدمات اور خاندانی منصوبہ بندی تک رسائی کی عکاسی کرتی ہے۔ بچوں کی اموات کی شرح بھی 2011میں 32سے کم ہو کر 2021میں 20رہ گئی ہے جس سے بڑے خاندانوں کی ضرورت کم ہو گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیری خواتین کی اوسطاً 26سال کی عمر میں شادی ہوتی ہے جو ہندوستان میں سب سے زیادہ ہے جبکہ قومی اوسط 22 سال ہے۔اس سے تولیدی امکانات نمایاں طور پر کم ہوتے ہیں۔ آبادیاتی تناسب کے مقامی ماہرین کم زرخیزی یا پیدائش کی وجہ تیزی سے شہری کاری، بے روزگاری اور خاندان کی کم آمدنی کو قرار دیتے ہیں۔ سماجی اشاریوں میں بہتری کے علاوہ اس اعداد و شمارکے بہت سارے وجوہات ہوسکتے ہیں۔(پوسٹ سکرپٹ دیکھیں)
اگرچہ تشخیص زوال کے پیچھے متعدد وجوہات کو ظاہر کرتا ہے، لیکن نسخے کے عنصر کو ترجیح ملنی چاہیے۔ توجہ باخبر مکالمے اور پالیسی تیاری کی طرف مرکوز ہونی چاہئے۔سب سے پہلے واضح طور پرگرتی ہوئی زرخیزی یا نئی پیدائش کی شرح کا مطلب مختصر یا درمیانی مدت کے لیے آبادی میں کمی نہیں بلکہ سست ترقی ہے۔ یہاں تک کہ 1.4کی شرح افزائش کے ساتھ جموں و کشمیر کی آبادی ،آبادی کی رفتار کی وجہ سے فوری طور پر سکڑ نہیں سکے گی۔ زوال ایک بتدریج عمل ہوگا۔ زرخیزی کی شرح میں ان رجحانات سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوامی پالیسی پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی اور حکومتی پالیسی کے نقطہ نظر سے اصل مسئلہ معدومیت نہیں بلکہ عمر بڑھنا ہے۔ آبادی میں کمی سے زیادہ چیلنج آبادی میں ساختی تبدیلی کا ہے۔
فی الحال نوجوانوں کی موجودہ آبادی افرادی قوت اور سماجی ترقی میں حصہ ڈالے گی۔ تاہم 2030تک جموں و کشمیر کی بزرگ آبادی کا تناسب 8سے 12فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔ 2035تک جب تقریباً 16.5فیصد آبادی 60سال سے اوپر ہو جائے گی، یہ صحت کی دیکھ بھال سے لے کر پیداواری صلاحیت میں کمی سے لے کر ریاست کے مالیاتی بحران تک کے کئی محاذوں پر ایک سنگین چیلنج پیدا کرے گی۔
نئی پیدائش کی کم شرح والے معاشرے بزرگوں کی دیکھ بھال کی خدمات کو فروغ دینے والی پالیسیوں، اور بالغوں کی افرادی قوت کی شرکت کے ذریعے اس طرح کے آبادیاتی چیلنجوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ عمر رسیدہ آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب کے ساتھ، بزرگوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے، جس سے عمر رسیدہ معاشروں کے لیے ایک نمونہ تشکیل دیا جائے۔
بزرگوں کی دیکھ بھال اور خصوصی صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کی مانگ میں اضافہ، جو فی الوقت کشمیر میں نابود ہے،کیلئے منصوبہ بندی کی جانی چاہئے۔ عمر رسیدہ آبادی والی ریاستیں بزرگ شہریوں کی دیکھ ریکھ پر بہت زیادہ خرچ کرتی ہیں اورایسے منظر نامے کے لئے جموںوکشمیر کو تیار ہونا چاہئے۔ پالیسی کی موافقتیں جو بزرگوں کےلئے موزوں صحت کی دیکھ بھال کے نظام ہیں، اس طرح کی طویل مدتی نگہداشت کی ریاستی انشورنس سکیمیں، یا بزرگوں کی دیکھ بھال کیلئے راحت کاری کاڈھانچہ، کمیونٹی پر مبنی صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ایک معاشرے کے طور پر عمر کے موافق پروجیکٹوں کے حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ بوڑھے شہریوں کیلئے جامع عوامی مقامات اور ٹرانسپورٹیشن بنانے پر توجہ دی جائے۔ افرادی قوت کو درپیش چیلنجز کیلئے جامع پالیسیاں بنانے کی بھی ضرورت ہے جن میں پنشن اصلاحات، ہنر کی بحالی کے پروگرام اور افرادی قوت کی منصوبہ بندی شامل ہیں۔ ان اچھی طرح سے قائم شدہ ماڈلز کو کشمیر کو آبادیاتی تبدیلیوں کےلئے تیار کرنا چاہئے۔
معدومیت کا بیانیہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شرح پیدائش میں کمی کوئی وجودی بحران نہیں بلکہ ایک سماجی و اقتصادی چیلنج ہے۔ توجہ باخبر مکالمے اور پالیسی تیاری کی طرف مرکوز ہونی چاہئے۔ آبادی کی حرکیات بتدریج تیار ہوتی ہیں، جس سے پالیسی ایڈجسٹمنٹ کے لئے کافی وقت ملتا ہے۔ عقلی، ڈیٹا پر مبنی نقطہ نظر کو متوازن گفتگو کو یقینی بنانا چاہئے اور جموں و کشمیر کے آبادیاتی مستقبل اور مستقبل کے آبادیاتی حقائق کیلئےتیاری پر ایک تعمیری گفتگو کو فروغ دینا چاہئے۔
پوسٹ سکرپٹ
15 برسوںکے دوران زرخیزی میں 100 بیسس پوائنٹس کی ڈرامائی کمی عالمی رجحانات کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے، جس میں 60برسوں میں 200 بیسس پوائنٹ گرا اور 50برسوں میں 330بیسس پوائنٹ گرا ہے۔ یہ جزوی طور پر 2019میں ریاست کی تنظیم نو سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ 2019سے پہلے اور 2019کے بعد کے اعداد و شمار مکمل طور پر موازنہ نہیں ہیں۔
زیادہ دیہی اور کم شہری ہونے کی وجہ سے لداخ میں نئی پیدائش کی شرح( TFR )زیادہ تھی۔ جب اسے جموں و کشمیر کے مجموعی اعداد و شمار میں شامل کیا گیا تو اس نے 2019سے پہلے کے TFR یعنی نئ پیدائش کی شرح کو بلند کیا۔ 2019کے بعد لداخ کا اخراج صرف ان اضلاع کی نسبتاً کم زرخیزی کی عکاسی کرتا ہے جو اب جموں و کشمیر بنتے ہیں جس کے نتیجے میں زوال بہت زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔ لہٰذا، اعداد و شمارکی احتیاط کے ساتھ تشریح کی جانی چاہئے۔
اختتامیہ
زرخیزی یا نئی پیدائش کی شرح کے ان رجحانات کو اس افسانے کو ختم کرنا چاہئے جس نے ہندوستان میں مسلمانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ان پر لگائے گئے سب سے بڑے الزامات میں بہت زیادہ بچے پیدا کرنا ہے۔ یہ اگرچہ 2019-21میں مسلمانوں کے لیے TFR ہندوؤں میں 1.94کے مقابلے 2.36تھا۔ مسلم اکثریتی خطہ میں زرخیزی یا نئی پیدائش کی شرح سب سے کم ہونے کی وجہ سے اسلام کے ساتھ جعلی تعلق کی نفی ہو جاتی ہے۔ یہ کم ہے کیونکہ سماجی اشارے خصوصاً خواتین کے حوالے سے بہترہوئے ہیں۔ یہ اس کے بالکل برعکس ہے جو باقی ملک کے مسلمانوں کے بارے میں حقیقت ہے۔
(مضمون نگار گریٹر کشمیر کے کنٹریبیوٹنگ ایڈیٹرہیں)