ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی آئین کی دو ترمیمات 77 اور 103حال ہی میں لاگو کی گئی ۔آئین ہند کی 77 ویں ترمیم کا تعلق نیچی ذاتوں اور نچلی فرقوں کیلئے اور 103 ویں ترمیم کا تعلق اقتصادی طور پر پسماندہ طبقوں کیلئے ریزرویشن کا قیام ہے یعنی قومی زندگی میں پیش رفت کیلئے اُن کیلئے نشستیں مخصوص رکھی جائیں گی چاہے وہ تعلیمی اداروں میں داخلے کا عمل ہو یا سرکاری اداروں میں نوکری اور پھر نوکری کے دوراں ترقی کا حصول ہو۔ ریزرویشن کہیں یا نشستوں کو مخصوص رکھنے کا عمل چاہے وہ ذات و فرقے کی بنیاد پہ پسماندہ ہوں یا اقتصادی طور پہ بد حال اگر چہ اُنہیں قومی زندگی کے دھارے میں لانے کیلئے ضروری ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ اِسے ووٹ بنک کی تشکیل کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔بھارت میں مخصوصاََ یہ مسلسل بحث کا موضوع بنا رہا ہے چونکہ یہاں ذات پات کا جو رواج ہے وہ شاید ہی کسی اور ملک میں ہو۔ ریزرویشن کے ضمن میں بھارت میں جہاںسیاسی احزاب کے درمیاں تکرار ایک معمول ہے وہی یہ باربار عدالتی بحث و مباحثے کا موضوع بھی بن جاتا ہے۔
بھارتی آئین کی دو ترمیمات 77اور 103کو ریاست میں لاگو کرنے کے اغراض و مقاصد کیا ہیں، یہ ہماری آج کی تجزیہ کاری کا ایک جز ہے البتہ ہماری بیشتر توجہ اِس بات پہ مرکوز رہے گی کہ ریاست میں گورنر راج کے ہوتے ہو ئے اِن ترمیمات کو لاگو کرنے کا عمل آئینی طور پہ جائز قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ دیکھا جائے تو بھارتی آئین کی مختلف دفعات و ترمیمات کو ریاست میں لاگو کرنے کی روایت دیرینہ ہے جس سے ریاست کے اپنے آئین کا تشخص بار بار مجروح ہواالبتہ بھارتی آئین کو ریاست میں لاگو کرنے کیلئے ایک منتخب ریاستی سرکار کی رضایت کو ایک امر ضروری مانا جاتا تھا۔ اِس روایت کو توڑ کے بھارتی آئین کی دو ترمیمات 77 اور 103کو ریاست میں گورنر ستیہ پال ملک کی رضایت سے لاگو کیا گیا ہے۔ کشمیر کی وکلا برادری اور سول سوسائیٹی کا ماننا ہے کہ آئینی دفعات اور ترمیمات کو لاگو کرنے کیلئے ایک منتخب ریاستی سرکار کی رضایت کا حصول ضروری ہے۔ ریاست کی وہ احزاب جن کا تعلق عرف عام میں مین اسٹریم سے ہے اُن کا بھی یہی ماننا ہے کہ ریاستی سرکار کی رضایت کے حصول کیلئے منتخب سرکار کا وجود ضروری ہے ۔
اِس موضوع کی تجزیہ کاری سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بھارتی آئین کی مختلف دفعات و ترمیمات کو لاگو کرنے کیلئے کیا آئینی طریقہ روا رکھا گیا ہے ۔اِس جانکاری کے بعد ہی اِس موضوع پہ بحث کی جا سکتی ہے آئین کی دو ترمیمات 77 اور 103کو ریاست میںلاگو کرنے گورنر کی رضایت کا حصول حق بجانب ہے یا یہ آئین طریقہ کار کی خلاف ورزی ہے؟ بھارتی آئینی دفعہ 370کی شق واحد (1) (d) میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ بھارتی صدر بھارتی آئین کی کسی بھی دفعہ کو ریاست جموں و کشمیر میں لاگو کر سکتا ہے بشرطیکہ اُس کو لاگو کرنے سے قبل ریاستی سرکار کی رضایت حاصل ہوئی ہے۔ بھارتی آئین کی دو ترمیمات 77 اور 103 کو ایک ایسے دور میں لاگو کیا گیا جبکہ ایک منتخب سرکار کے بجائے ریاست میں گورنر راج ہے۔ بھارتی آئینی دفعہ 370کی شق واحد (1) (d) صرف سٹیٹ گورنمنٹ یعنی ریاستی سرکار کے الفاظ ثبت ہیں ۔اگر چہ 370(1) (d)میں یہ مشخص نہیں ہے کہ آیا بھارتی آئینی دفعات و ترمیمات کو لاگو کرنے کی لئے جو ریاستی سرکار کی رضایت کی شرط رکھی گئی ہے اُس کا مدعا و مفہوم ایک منتخب سرکارہی ہے یا منتخب سرکار کی غیر موجودگی میںگورنر کی رضایت بھی قابل قبول ہو سکتی ہے؟ اِس ضمن میں کہا جا سکتا ہے کہ آئینی دفعات میںنہ صرف الفاظ معنی رکھتے ہیں بلکہ آئین کی روح بھی ایک امر مہم ہے۔اِس کے علاوہ آئینی روایات بھی معنی رکھتی ہیں۔آئینی روایات کی ایک تاریخ بنتی ہے جس میں یہ منعکس ہوتا ہے کہ کس موقعے پہ آئینی اقدامات کی کیا روش رہی اور اِسی کو مد نظر رکھ کے مستقبل میں آئینی اقدامات کی روش کا تعین کیا جاتا ہے۔ برطانوی آئین کسی تحریر کا حصہ نہیں بلکہ یہ روایات میں جکڑا ہوا ہے اور اُس کی روش کا تعین یہ نظر میں رکھ کے کیا جاتا ہے کب،کیوں اور کیسے ہوا؟
ریاست میں آئینی اقدامات کی تاریخی روش کو مد نظر رکھا جائے تو سوائے ایک موقعے کے 370(1) (d)کے تحت بھارتی آئینی دفعات اور ترمیمات کو ہمیشہ ایک منتخب سرکار کی رضایت سے لاگو کیا گیا۔ 370(1) (d) کے تحت جیسے پہلے بھی ذکر ہوا بھارتی آئینی دفعات اور ترمیمات کو ریاست جموں و کشمیر میں لاگو کرنے کیلئے صدر جمہوریہ ہند کا حکمنامہ ضروری ہے اور اِس حکمنامے کو تب تک صادر نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ پہلے سٹیٹ گورنمنٹ کی رضایت حاصل نہ کی جائے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سٹیٹ گورنمنٹ کی سفارش پر ہی صدر جمہوریہ ہند حکمنامہ صادر کرتے ہیں۔ 370(1) (d)کے تحت پہلا طویل صدارتی آرڑر14مئی 1954 کے روز صادر ہوا ۔ یہ صدارتی آرڑر ریاستی سرکار کی سفارش پہ صادر ہوا۔ ریاستی سرکار کی سفارش آئین ساز اسمبلی کی منظوری پہ استوار تھی ۔آئین ساز اسمبلی جو کہ 1951ء کے انتخابات کے بعد معرض وجود میں آئی نے ایک ڈرافٹ کمیٹی مقرر کی جس میں گردھاری لال ڈوگرہ،درگا پرشاد در،سعید میر قاسم،غلام رسول رینزو و ہربنس سنگھ آزاد شامل تھے۔ کمیٹی کی سفارش و آئین ساز اسمبلی کی منظوری کے بعد ریاستی حکومت نے سفارشات کو صدر جمہوریہ ہند کو رسمی حکمنامے کے لئے پیش کیاور14مئی 1954ء کو اِس ضمن میں صدارتی حکم بھارتی حکومت کے وزارت قانون نے S.R.O 1610 کے تحت جاری کیا۔
یہاں پہ ہم دیکھتے ہیں کہ بظاہر ایک منتخب ایوان نے ایک ڈرافٹ کمیٹی قائم کی جس نے آئین ہند کی مختلف دفعات و شقوں کا جائزہ لیا اور بحث و مباحثے کے بعد آئین ہند کی بعض دفعات کو ریاستی آئین کی عمل آوری کیلئے نا مناسب قرار دیا گیا جب کہ بعض دفعات کی کچھ شقوں کو یا تو حذف کیا گیا یا ترمیمات کے ساتھ لاگو کرنے کی سفارش کی گئی۔14مئی 1954ء کے اِس آرڑر میں 35 A بھی شامل ہے۔ڈرافٹ کمیٹی نے بھارتی آئین کی دفعہ35 کے بجائے 35 A کو ریاست جموں و کشمیر کیلئے مناسب مانا چونکہ دفعہ35 میں کوئی بھی بھارتی باشندہ بھارت میں کہیں بھی سکونت پذیر ہو سکتا ہے بھلے ہی اُس کی پیدائش کسی بھی ریاست میں ہوئی ہے اور اُسے حق معاش بھی بھارت میں کہیں بھی حاصل ہو سکتا ہے ۔ ڈرافٹ کمیٹی نے بھارتی آئین کی دفعہ35 کے بجائے 35 Aلاگو کرنے کی سفارش کی جو کہ دفعہ35 کی ترمیمی شکل نہیں بلکہ یہ ایک الگ آئینی دفعہ ہے۔ 35 A کو لاگو کر وانے کی سفارش ریاست کے اپنی اقامتی قوانین کو مد نظر رکھ کے کی گئی۔اِس ضمن میں 1927ء و 1932ء میں ڈوگرہ مہاراجوں کے دور میں قوانین کا تعین ہوا ہے اور اِنہی قوانین کو ریاستی آئین میں جگہ مل گئی ہے ۔اِن قوانین کے تحت صرف ریاستی باشندوں کو ریاست میں اقامت کا حق،غیر منقولہ جائداد اور معاش کے حق کا حصول ہے۔
اِن حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بھارتی آئین کی دفعہ 35 کو 35 A کے ایک نئے آئینی عنواں کے ساتھ بھارتی آئین میں شامل کیا گیا ۔ آج کے موضوع میں 35 A پہ بحث کو اِس ضمن میں شامل کیا گیا تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ ریاستی آئین کے خصوصی مدوں کو تحفظ بخشنے کیلئے ریاست میں ایک منتخب سرکار کی رضایت ایک امر مہم ہے اِس سے پہلے کہ بھارتی آئین کی کسی بھی دفعہ یا ترمیم کو ریاست میں لاگو کیا جائے۔ یہ جمہوریت کی روح کی بقا کیلئے ضروری ہے کہ ریاستی سرکار کی سفارش یا رضایت کے پس منظر میں ایک وسیع بحث ہو تاکہ ریاستی تحفظات کی پاسبانی کو ممکن بنایا جا سکے۔یہ گورنر راج میں ممکن نہیں۔
14مئی 1954ء کے صدارتی آرڑر کے بعد تقریباََ ہر سال بھارتی آئین کی کسی نہ کسی دفعہ کو کسی نہ کسی آئینی ترمیم کو ریاست میں لاگو کیا گیا لیکن کسی بھی آئینی دفعہ اور ترمیم کو لاگو کرنے کیلئے ریاست میں ایک منتخب سرکار کی سفارش و رضایت کا خیال رکھا گیا بجز 1986 ء کی آئینی ترمیم کو لاگو کرنے کی ایک مثال کے جبکہ ریاست میں گورنر راج تھا اور جگموہن گورنر تھے۔ 1986 ء میں بھارتی آئین کی دفعہ 249کو ریاست میں لاگو کرنے کا موضوع پیش آیا ۔ دفعہ 249 کا تعلق آئین کے سٹیٹ لسٹ سے ہے اور اِس کے تحت بھارتی پارلیمنٹ سٹیٹ لسٹ میں امور سے متعلق آئین سازی کر سکتی ہے۔ سابقہ گورنر جگموہن کے بعد ستیہ پال ملک دوسرے گورنر ہیں جن کے دور گورنری میں بھارتی آئین کی دو ترمیمات کو ریاست جموں و کشمیر میں لاگو کیا گیا۔ دیکھا جائے نہ ہی جگموہن کے دور گورنری میں نہ ہی موجودہ گورنر ستیہ پال ملک کے دور گورنری میں ایسی کوئی ایمرجنسی ایسی کوئی مجبوری تھی جس کو مد نظر رکھ کے فوری آئینی اقدام کو جائز مانا جا سکتا ثانیاََ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گورنر کو صدر جمہوریہ ہند نامزد کرتا ہے اور اپنے ہی نامزد کردہ گورنر سے آئینی دفعات یا ترمیمات کی سفارشات یا رضایت کا حصول ایک ایسا عمل ہے جو یقینناََ جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔
بھارتی آئینی دفعات اور ترمیمات ریاست میں لاگو کرنے کے کئی اور پہلو ہیں۔ جہاں ایک منتخب ریاستی سرکار کی سفارش و رضایت کی بات سامنے آتی ہے وہی ریاست میں مزاحمتی تحریک کا تنقیدی پہلو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے ۔مزاحمتی تحریک کا ماننا ہے ریاست میں انتخابی عمل ہمیشہ ہی مشکوک رہا ہے لہذا ایسی ریاستی حکومتوں کی سفارشات اور رضایت کوئی معنی نہیں رکھتی جن کا وجود ہی مشکوک ہو۔ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم کے مصداق ریاست میں انتخابی عمل نہ صرف مزاحمتی تحریک کی نظر میں مشکوک ہے بلکہ بھارت میں بھاجپا حکومت کے زعماء کا بھی یہی ماننا ہے کہ ماضی میں ریاست جموں و کشمیر میں انتخابی عمل مشکوک رہا ہے۔پارلیمانی بحث و مباحثے کے دوراں بھارتی وزیر اقتصاد ارون جیٹلی نے کئی بار یہ دوہرایاکہ کانگریس سرکار کے تحت انتخابات میں دھاندلیاں ہوئیں ۔ایک یا دو مہینے پہلے راجیہ سبھا میں بحث کے دوراں حزب مخالف کے رہبر غلام نبی آزاد کو حدف تنقید بناتے ہوئے ارون جیٹلی نے ریاست جموں و کشمیر میں انتخابی عمل کے بارے میں وہی کچھ کہا جس کو ماضی میں کئی بار دہراتے رہے ہیں۔ ارون جیٹلی کے علاوہ وزیر اعظم نریندرا مودی کے آفس میں وزیر مملکت جتیندرا سنگھ جن کا تعلق اتفاقاََ جموں سے ہے پلوامہ خود کش حملے کے بعد یہ کہتے سنے گئے کہ جموں و کشمیر میں علاقائی پارٹیوں کے رہبر جعلی انتخابی عمل سے اقتدار میں آئے ہیں۔ ایسے متضاد حلقوں سے جن کے نظریات ایک دوسرے کی ضد ہیں جہاں ایک طرف کشمیر کی مزاحمتی حلقے ہیں اور دوسر طرف بھاجپا کے حلقے کا اِس ضمن میں اتفاق کہ جموں و کشمیر میں انتخابی عمل مشکوک رہا ہے یہی ثابت کرتا ہے کہ مشکوک انتخابی عمل سے منتخب شدہ حکومتوں کی سفارشات و رضایت سے لاگو شدہ بھارتی آئینی دفعات اور ترمیمات کو جمہوریت کی روح کے منافی ماننا ہو گا۔
جہاں تک بھارتی آئین کی دو ترمیمات 77 اور 103کا تعلق ہے آئینی پہلو کے علاوہ اُنکا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ریاست میں کئی سیاسی حلقوں کا ماننا ہے کہ اپنے دور گورنری کے ابتدائی دنوں سے ہی گورنر ستیہ پال ملک بھاجپا کے سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے زمیں ہموار کر رہے ہیں اور جس طرح سے بھاجپا کے حلقوں نے جن میں مرکزی وزیر مملکت جتیندرا سنگھ پیش پیش نظر آئے اِن ترمیمات کا استقبال کیا ہے اُس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ اِن ترمیمات کا استعمال بھاجپا کے ووٹ بنک کو مستحکم کرنے کیلئے کیا جائیگا۔ اِس سے پہلے بھی جموں و کشمیر کی ورکنگ باونڈری سے ملحق اضلاع کے رہنے والوں کیلئے 3فیصدی ریزرویشن رکھی گئی ۔اِس ریزرویشن سے کٹھوعہ،سانبہ اور جموں کے اضلاع میں رہنے والے ریاستی باشندے مستفید ہونگے۔یہ ریزرویشن پہلے خط متارکہ سے ملحق اضلاع کے رہنے والوںکیلئے مخصوص تھی لیکن اب اُس کا حلقہ بڑھایا گیا ہے۔
ریرویشن کے نام پہ جو اقدامات عجلت میں لئے گئے اُن کے اثرات ریاست کی اکثریت مطلق پہ مستقبل میں کیا ہونگے اِس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا،جہاں تک آئینی اقدامات کا تعلق ہے کہا جا سکتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر روز بہ روز سال بہ سال آئین ہند کے اختیاراتی دائرے کے شکنجے میں پھنستے ہوئے اپنی آئینی اہمیت ،افادیت و سالمیت سے محروم ہوتی جا رہی ہے اور یہ کوئی خوش آئند بات نہیں۔۔
Feedback on:[email protected]