محمد عبدالحفیظ اسلامی
انسان جس لمحہ دنیا میں آتا ہے اسی وقت سے اس کی متعینہ عمر کے گھٹنے کا آغاز ہوجاتا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ حضرت انسان پیدا ہوتے ہی اپنی حقیقی منزل کی طرف بہت تیزی کے ساتھ، ہر پل ہر لحظہ آگے بڑھتے رہتا ہے۔ مگر انسانوں کی اکثریت اس بات کو پس پشت ڈال دیتی ہے کہ جو زندگی خداے تعالی نے عطا کی ہے، اسے کس کام میں صرف کی جائے ! اور اپنی قوت و صلاحیت کو کن چیزوں میں لگایا جائے اور گھلایا جاے۔
چنانچہ 2024 عیسوی سال کا سورج غروب ہونے کے بعد پھر ایک نئے سورج کے طلوع کے ساتھ ہماری زندگی کا ایک اور نیا سال 2025 عیسوی ان شاء اللہ شروع ہوا ہے، اس طرح ہم سب کی مدت حیات کے گزرے ایام کی اچھی و بری کارگزاری و کارستانی ہمیشہ کے لیےدرج رجسٹر ہوچکیں ہو نگی۔ مگر اس حقیقت کے باوجود افسوس کہ انسان تو یہ سمجھتا ہے کہ اس کی عمر میں اضافہ ہوا ہے، یقینا ًاس کی پیدائش سے لے کر اب تک کی گنتی کے حساب سے ٫ کسی کی عمر ایک دن کی بھی ہوسکتی ہے، کسی کی پانچ برس تو کسی کی پچیس اور اسی طرح ساٹھ سال اور اس سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ مگر احوال واقعی تو یہ ہیں کہ ان کی زندگی کے اتنے گھنٹے و دن ، مہینے اور برس خدا کی دی ہوئی عمر میں سے گھٹ گئے،کم ہوگئے۔
سال نو کے استقبال اور اس کا جشن زور و شور سے شروع ہوا ہے۔ منچلے و بے فکر لوگ اس کے لئے لاکھ جتن کررہے ہیں، یعنی ہر آدمی اپنی نفسانی خواہش و مالی خوشحالی اور جسمانی قوت و صلاحیت کے عین مطابق سال نو کو رنگین ویاد گار بنانے کے لئے بے تاب ہے۔ دوسری جانب مختلف تفریحی ادارہ، ہوٹلس اور میخانے بالخصوص مضافاتی علاقوں میں جشن سال نو کی اپنی بساط بھر کوشش سے تیار ہیں تاکہ ’’ ھل من مزید‘‘ کی بنیاد پر سامان عشرت مہیا کیا جاسکے۔ ہر سال اس موقع پر بہت سے لوگ بدمست ہوکر اپنی بے خودی کے عالم میں انسانی اخلاق و حیا کو شرمسار وداغدار کرنے والے اعمال سے اپنے دامن کو آلودہ کرنے والےہیں اور یہ بھی دیکھنے میں آیا اور گزشتہ برسوں اسی حوالے سے پڑھا گیا اور دو روز بعد بھی اخبارات اور ٹیلی ویژن میں شائد یہ خبریں پڑھنے کو ملیں گی کہ فلاں جگہ فلاں شخص نے حالت نشہ میں قتل کا ارتکاب کیا اور فلاں مقام پر کسی خاتون کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ بھی خبر آئے گی کہ فلاں شہر اور ملک میں اتنے لوگ نشہ کی حالت میں حادثہ کا شکار ہوکر نئے سال کی صبح کا دیدار بھی نہ کرسکے۔ یہ تھا جشن سال نو اور اس میں کئے جانے والے حرکات و سکنات واعمال قبیح کا مختصر خاکہ۔
اب ہم سال نو کے حقیقی پیغام کی طرف توجہ دیں تو معلوم ہوگا کہ انسان کی زندگی خواہ ہجری سال ہو یا عیسوی سال کا آغاز۔ یہ دراصل سارے انسانوں کے لئے یوم احتساب ہے۔ کسی شاعرنے بہت خوب کہا ہے کہ آدمی دنیا کی محبت میں عیش کوشی اور لذات نفسانی میں مگن زندگی گزار دیتا ہے اور اپنے انجام سے بے خبر پوری عمر یوں ہی ضائع کردیتا ہے۔
ہم اپنے عزم پر قائم رہے راہ محبت میں
نہ آغاز سفر سمجھے نہ انجام سفر جانا
ہر انسان کو اس کے آغاز سفر میں جبکہ وہ حالت بلوغ میں پہنچتے ہی اپنی اچھی بُری چیز میں تمیز کرنا شروع کردیتا ہے، اس کا مالک اور آقا اس کے سامنے یہ بات کھول کر رکھ دیتا ہے کہ اے بندے تو جس سفر پر چل پڑا ہے اس کی ایک منزل ہے، تیرا ہر قدم اور تیری منزل کی طرف بڑھنے کا عمل جسے زندگی یا مہلت حیات کہا جاتا ہے، اس کا اختتام ہوکر رہے گا، کسی بشر کو بھی اس سے ہرگز مفر نہیں!
گزرے ہوئے سال کا اختتام اور نئے سال کے آغاز پر ہر انسان کو اپنا احتساب کرنا ہوگا کہ وہ گذشتہ عمر کے لمحات کس حال میں گزارے، اگر گناہ و جرائم کے ارتکاب میں گزارے ہوں تو اسے چھوڑ دے باقی آنے والی نامعلوم مہلت عمل کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی بے راہ روی اور خدا سے بغاوت کی روش ترک کردے اور اپنی عمر کا حساب لگائے کہ اس نے کب پیدا ہوا تھا اور آج کتنے برس کا ہوچکا ہے، پھر اس کے بعد سمجھ لے کہ اس کی زندگی کتنی کچھ ختم ہو چکی اور آگے کی حیات اسی قدر کم ہوگئی۔ پروردگار عالم اپنے بندوں کو اسی جانب متوجہ فرما رہا ہے کہ’’اے انسان! تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہاہے اور اس سے ملنے والا ہے۔‘‘ (ترجمانی انشقاق:6)یعنی ہر انسان کو یہ بتلا یا گیا ہے کہ دیکھو تمہاری سعی و جہد، تگ و دو اور محنت و مشقت، دوڑ دھوپ اور تمہارے سب مشاغل حیات جو تم دنیا میں انجام دے رہے ہو یاد رکھنا (اس کا حساب دینے کے لئے) تم اپنے رب کی طرف جارہے ہو، اس طرح آگہ کیا جارہا ہے کہ جو کچھ زندگی میں عمل کیا جارہا ہے یہ صرف دنیا کی حد تک نہیں ہے بلکہ ایک ایک لمحہ مہلت کے اچھے و برے اعمال کا حساب لیا جانے والا ہے۔
اس طرح سال نو کا حقیقی پیغام صرف یہی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ ہم نے پچھلے ایام میں کیا کچھ کمایا اور خرچ کیا اور کہاں کہاں بجا طور پر صرف کیا یا بیجا طریقہ سے خرچ کیا، ٹھیک اسی طرح اللہ تعالیٰ کی جملہ نعمتوں کو یاد کریں اور اس کا شکر ادا کریں، دنیا میں جو کچھ من اللہ عطا کیا گیا ہے اسے یوں ہی ضائع کردیا تو یہ سراسر اللہ کی ناشکری ہوگی، اللہ تعالیٰ ناشکرے اور جھوٹی شان بگھارنے والے شخص کو پسند نہیں فرماتے۔اس لئے برادران وطن، بالخصوص برادران ملت کے لوگوں اور خاص طور پر مسلم لڑکے اور لڑکیوں کو چاہئے کہ خدارا اس سال نو کی بیجا تقاریب سے اپنے کو دور رکھیں۔ اےنوجوانو! خوب یاد رکھو! تمہاری جوانیاں اور اسکی خوبصورت بہاریں اللہ کی عطا کردہ ایک امانت ہے، اس میں ہرگز خیانت نہ کرو، بے پردگی، بے حیائی ایمان کے لئے زہر قاتل ہے، اس سے بچو۔ شراب کباب، حقہ، رقص و سرور کی محفلیں، بے حیائی و عریانیت کے تمام مراکز سے بالکل اجتناب کرنا چاہیے، یہ تو اہل ایمان لڑکے لڑکیوں کے لئے ہلاکت کے سامان ہیں۔
والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی اچھی طرح حفاظت کریں، انہیں بچپن ہی سے اسلامی و اخلاقی عادات کا پابند بنائیں۔جشن سال نو کے حسین نام سے جتنے بھی ایونٹ کیے جاتے ہیں، اس میں خیر کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا ، لہٰذا والدین بھی خود اس سے پرہیز کریں اور اپنے نوجوانوں کو بھی اس سے دور رہنے کی تلقین کریں۔
رابطہ۔ 9849099228
[email protected]