آج کل دنیا میں کم وبیش ہر کوئی انسان پریشان نظر آتا ہے۔کوئی معاشی حالات کی وجہ سے غمزدہ،تو کوئی بیماری کی وجہ سے افسردہ۔کوئی شادی کی فکر میں پریشان،تو کوئی روزگار نہ ملنے کی وجہ سے مایوس۔الغرض انسان نا امیدی کے بھنور میں اس طرح پھنسا ہوا ہے کہ اسے بظاہر آزادی کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔قدرتی طور پر سوال اٹھتا ہے کہ آخر انسان ان گھمبیر حالات میں کیوں پھنس جاتا ہے؟ماہرین نفسیات اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصل میں یہ منفی سوچ ہے جو اپنا اثر دکھا کر بالآخر انسان کو مایوسی کے دلدل میں پھنساتا ہے۔بعض اوقات انسان کی زندگی کا سفینہ طوفانوں کی ضد میں آکر ڈگمگانے لگتی ہے اور کبھی کبھار اس کی زندگی کا دِیا ہی بُجھ جاتا ہے اور وہ پوری طرح نا امیدی کے جال میں پھنس جاتا ہے۔اس بے چینی کی حالت سے انسان کو کون سی قوت چھٹکارا دلا سکتی ہے؟تاریخ کے اوراق پلٹنے کے بعد یہ جواب از خود عیاں ہو جاتا ہے کہ ’’امید‘‘ ہی وہ واحد سہارا ہے جو انسان کو مایوسی کی تمام زنجیروں سے آزادی دلاکر بالآخر اسے اطمینان والی زندگی عطا کر دیتی ہے گویا امید ہی زندگی ہے۔
زندگی عروج و زوال کا ایک مسلسل سفر ہے۔خوشی،غمی،کامیابی اور ناکامی زندگی کا حصہ ہیں۔جہاں زندگی خوش کُن لمحات دیتی ہیں وہیں آزمائشیں بھی لازمی ہیں۔انسان بہت جلد باز واقع ہوا ہے،جسے اپنی چاہت کے مطابق آناً فاناً نتیجہ ظاہر ہونا چاہئیے اور اگر اس کے خلافِ توقع کوئی صورتحال پیش آجائے تو آزمائش کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بجائے وہ تھوڑی سی کوشش کے بعد مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے،حالانکہ امید ہی وہ واحد لہر ہے جو اس کی منجدھار میں ڈوبی کشتی کو کنارا لگا سکتی ہےاورامید ہی وہ قیمتی سرمایہ ہے جوانسان کو آخری سانس تک زندگی کے تھکا دینے والے سفر میں پُر عزم رکھتا ہے۔امید ہی انسان کو وقار اور خوداری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیتی ہے جبکہ منفی خیالات اور ناامیدی انسان کو کسی بھی امتحان میں ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔ناامیدی مسئلہ کے ممکنہ حل کو بھی دھندلا دیتی ہے اور انسان کو انندھیرےکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا،جبکہ ذرا سی مثبت سوچ اور امید کا چراغ نامُساعِد حالات سے نکلنے کے لیے روشنی کا باعث بنتے ہیں۔وقت کی سب سے بڑی خوبصورتی یہی ہے کہ اس کا رنگ اٹل نہیں ہوتا۔اگر انسان کو مشکل کا سامنا ہے تو چند لمحہ بعد ہی آسانی کا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔حالات جس قدر بھی مشکل ہوں،آزمائش کی رات جتنی بھی لمبی اور سیاہ ہو ،ایک روشن صبح ہر شب کا مقدر ہے۔ ہرحال میں دنیاوی سہاروں کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید رکھنی چاہئے۔اسلام میں مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ مومن کبھی اپنے رب کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتا۔
قرآن میں اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:’’اور تم اللہ سے وہ امید رکھتے ہو جو امید وہ (کفار) نہیں رکھتے‘‘۔(النساء:104)
مثبت گمان/امید رکھنا ایک مسلمان کے ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔حدیثِ قدسی میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:’’میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے‘‘(بخاری)
مایوسی میں گھرے ہوئے انسان کو جب امید کی قوت ملتی ہے تو یہ ایک نئے انسان میں تبدیل ہو جاتا ہے اور یہ وہ کچھ کر گزرتا ہے جس کی قبل ازیں کوئی امید نہ تھی۔یہ امید جب اللہ رب العزت کی ذاتِ گرامی سے وابستہ ہو تو یہ ایک ناقابلِ تسخیر قوت بن جاتی ہے، جسے دنیا کی کوئی طاقت زیر نہیں کرتی۔ایک سٹیج پر یہ امید یقین اور ایمان کی کیفیت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔تقوٰی شعار انسان جس کی زندگی امید سے پُر ہو،وہ بے نیاز اور امید سے عاری انسان کے برابر نہیں ہوسکتا۔قرآنِ پاک نے انہیں چھانٹ چھانٹ کر الگ کر رکھا ہے:’’کیا وہ شخص جو عاجزی کرنے والا ہے شب کے اوقات میں اپنے رب کے آگے سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کی حالت میں،آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہے(اور دوسرا جو ان صفات سے عاری ہے کیا یہ دونوں یکساں ہوجائیں گے) ان سے پوچھئے کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہیں،نصیحت تو عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔‘‘(الزمر:9)
جو لوگ اللہ رب العزت سے رشتہ امید قائم کرتے ہیں وہ کبھی اللہ سے مایوس نہیں ہوتے،چاہے حالات کا جبر اور ماحول کا گھٹن کتنا ہی بڑھ جائے۔قرآن میں ارشاد ہے:
’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں‘‘(یوسف:87)
تکلیفیں،آزمائشیں،مشکلات اور پریشانیاں یہ سب زندگی کا حصہ ہیں۔ان کو زندگی کا حصہ سمجھتے ہوئے ان سے فرار کا راستہ اختیار کر لینا عقلمندی نہیں ہے بلکہ ان کو حق کے راستے کی سنتیں سمجھ کر خندہ پیشانی سے برداشت کئے جانے میں ہی نجات پوشیدہ ہے۔اپنے منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہوئے’’العُسر‘‘ کے ساتھ ہی ’’یُسر‘‘ کا قرآنی وعدہ ذہن میں رکھنے سے آپ ’’جنت کا سفر‘‘ بڑی آسانی سے طے کر سکتے ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے،بلکہ بدلتے رہتے ہیں۔آپ حال پر فوکس کرکے مستقبل میں نہ جانچیں بلکہ اسے اللہ پر چھوڑیں۔حال میں خوش رہنے کی کوشش کیجیے تاکہ آپ کا مستقبل بھی تابناک بن جائے۔اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ آپ حال پر کس قدر مطمئن ہیں،وہ آپ کا مستقبل بہتر سے بہترین بنانے میں پوری کی پوری قدرت رکھتا ہے۔لہٰذا اگر امید باندھنی ہو تو اسی سے باندھیں،جس کے حکم سے ایک بنجر زمین بھی زرخیز ہو جاتی ہے۔وہ صحرا میں بھی نخلستان اُگا سکتا ہے۔اس لئے یہ امید رکھیں کہ ہر اندھیرےکے بعد اُجالا ضرور ہوگا۔
آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے بے جا خواہشات سے اپنی زندگیوں کو آراستہ کر رکھا ہے اور ہماری امیدیں دنیا سے شروع ہوکر دنیا پر ہی ختم ہو جاتی ہیں۔جن سے ہم نے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں وہ خود ہی’’متاع الغرور‘‘ کی تفسیریں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آبگینہ دل کو بار بار ٹھیس لگتی ہے۔کاش ہم ایک بار یقین اور خلوص سے اس در پے اپنی جبینِ نیاز خم کردیتے جہاں سے کوئی خالی ہاتھوں واپس نہیں لوٹتا۔اس منزل پر پہنچ کر انسان کو’’امید‘‘ کی ایسی لازوال نعمت ملتی ہے کہ جو شکست خوردگی کی ذلت سے ہمکنار نہیں ہونے دیتی۔اب بھی وقت نہیں گزرا،آج بھی دربارِ الٰہی سے یہی اعلان سامعہ نواز ہوتا ہے:
’’اے میرے بندو،جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے،اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو،یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفورٌ رحیم ہے۔‘‘(الزمر:53)
لہٰذا اگر آپ کسی بھی پریشانی یا مشکل میں مبتلا ہیں تو توکل،صبر اور دعا سے کام لیجئے۔ صبر اور دعا دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی ناامیدی کے اثرات کو زائل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔اس لیے موجودہ حالات کو مستقبل کا ضامن بالکل نہ سمجھیے۔کیونکہ تاریکی ہمیشہ روشنی میں بدل جاتی ہے۔اس لیے وقتی پریشانی سے نہ گھبرائیے۔جس نے زندگی جیسی نعمت عطا کی ہے،وہ زندگی میں راستے بھی بنا دیتا ہے۔آپ کو اُس رب سے واسطہ ہے جو محض ایک ’’کُن‘‘سے تقدیر بدل دینے پر قادر ہے۔لہٰذا زندگی کے ہر معاملے میں بہتری کا گمان رکھیں اور امید کا دامن کبھی نہ چھوڑیں’’کل کا دن آج سے بہتر ہو گا‘‘۔اِنشاء الله۔
mail:[email protected]
�����