عاقب شاہین
امید زندگی کا ایک لازمی عنصر ہے جو ہمارے خیالات، عقائد اور اعمال کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ انسانی لچک کی بنیاد ہے، جو ہمیں مشکلات اور چیلنجوں پر قابو پانے کی طاقت فراہم کرتی ہے۔ امید ہمیں مایوسی کے بادلوں سے نکال کر ایقان کا ہنر سکھاتا ہے، اور یہ امید مبشر ہے جو امن اور سکون کا پیغام لاتی ہے۔ امید کے بغیر زندگی مایوسی اور ناامیدی سے بھرا ہوا ایک نیرس سفر ہوگا۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو مادی کوششوں، مذہب، نسل اور جنس کی تمام سرحدوں کو عبور کرتا ہے۔
یہ ہمیں اپنے خوابوں اور خواہشات سمیت آگے بڑھانے کی ایک وجہ فراہم کرتا ہے۔ یہ سرنگ کے آخر میں روشنی ہے جو ہمیں تاریک ترین دور سے گزرتی رہتی ہے۔
انتہائی مشکل وقت میں بھی ہمیں آگے بڑھنے کی ترغیب اور ہمت افزئی اور یہ ہمارے اعمال کے پیچھے محرک ہوسکتا ہے۔ اس حصے میں، ہم کبوتر کے ابدی رجائیت کے استعارے کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کی کھوج کریں گے کہ امید ہمیں کیسے بلند کر سکتی ہے اور یہ ہماری امید کے پنکھ کیسے ہو سکتی ہے۔
امید ایک طاقتور قُوت ہے جو ہمیں اپنے مقاصد کی طرف لے جا سکتی ہے، یہاں تک کہ مشکلات کے باوجود امید کے اہم اجزاء میں سے مثبت سوچ ہے، جو زندگی میں اچھی چیزوں پر توجہ مرکوز کرنے اور امید کو حقیقت میں بدلنے کے طریقے تلاش کرنے کے بارے میں ہے۔ مثبت سوچ صرف خواہش مند سوچ یا ان چیلنجوں کو نظر انداز کرنے کے بارے میں نہیں ہے جن کا ہمیں سامنا ہے۔ یہ ایک مثبت ذہنیت کے ساتھ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور ہمت تلاش کرنے کے بارے میں ہے جو ہمیں ہر ایک میں مواقع دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
چیلنجوں کا سامنا کرتے وقت، امید ہماری سب سے بڑی اتحادی ہوسکتی ہے۔ یہ ہمیں طاقت، لچک اور ثابت قدم رہنے کا عزم دیتی ہے۔ امید یہ یقین ہے کہ حالات بہتر ہو سکتے ہیں اور مشکلات کے باوجود بھی یہ ایک طاقتور قُوت ہے جو رکاوٹوں کو دور کرنے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔ اس حصے میں ہم دریافت کریں گے کہ کس طرح امید چیلنجوں پر قابو پانے اور ایک روشن مستقبل کی تعمیر میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔
امید اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں ایک عظیم نعمت ہے کہ جسکو یہ حاصل ہوجائے، اسے بڑھ کر کوئی خوش نصیب نہیں ہوتا ۔ ایک ایسی نعمت کہ اگر کہیں ناپید ہوجائے تو انسان انسانیت بھول جاتا ہے اور جانوروں جیسا وطیرہ بنا کر زیست گزار لیتا ہے مزید براں یہ کہ امید نہ رکھنا باعث کفر ہے ۔
ارشاد ربانی ہیں :’’ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجا۔‘‘یہ خطاب عام ہے جہاں پر ہر عاصی کو انکے گناہوں کی بخشش اور قاتل کو معافی کا موقع فراہم کیا گیا ۔ اسکے بغیر بھی دنیا میں انسان نے خواہ کوئی بھی گناہ کیا ہوگا وہ یہ بات ذہن میں نہ رکھیں کہ شاید میں معافی کا حقدار نہیں ہوں، انسان نے چاہے پہاڑ کے برابر بھی گناہ کیے ہوں پھر بھی توبہ کی غرض سے اگر رب کے حضور پیش ہوجائے تو اسکی رحمتِ خاص کا بندہ مستحق ہوجاتا ہے ۔ برعکس اسکے کہ اگر انسان ناامیدی کی کشتی کا سوار رہا تو وہ اسکو وہاں ڈوبا دے گا، جہاں اسکا نام و نشان تک نظر نہیں آسکتا ۔ ناامیدی ایک تو زندگی کا سکون تباہ کردیتی ہے۔ دوسرا یہ کہ انسان ناشکرہ اور نا کام ہوجاتا ہے ۔ بندہ چاہے حالتِ خوشی میں ہو یا غم کی حالت میں اسکو سدا اچھی امیدوں کا منتظر رہنا چاہیے ۔ جو اللہ ان چیزوں کو عطا کرنے پر قادر ہے وہ غم بھی چھین لیتا ہے اور وہاں سے انسان کے راستے نکلتا ہے، جہاں اسکا گمان بھی نہیں ہوتا ۔اگر بندہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر ادا نہ کریں تو وہ نعمتیں ہم سے واقعی چھین لی جائیں گی اور ہم محروم سے محروم تر ہو جائیں گے ۔
اگر اللّٰه نے ہم سے وہ لیا ہے جسے ہم کھونے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے تو یقین رکھو کہ وہ بدلے میں ہمیں وہ دے گا، جسے پانے کا ہم گمان بھی نہیں کر سکتے، وہ تو اُن کو بھی خالی ہاتھ نہیں رہنے دیتا جو اُس سے مانگتے ہی نہیں ،پھر وہ ہمارے دُعا کے لیے اٹھائے گئے ہاتھوں کو کیسے خالی رہنے دے سکتا ہے۔اللہ سے مانگتے رہو جو چاہتے ہو ،یہاں تک کہ وہ ہماری دعا کا جواب دے اور خو بصورت دروازے کھول دے، وہ ایک دن کُن کہے گا، بس جلدی نہ کرو اور یہ نہ سوچو کہ یہ کیسے ہو گا، فکر کرنے میں اپنی توانائی ضائع نہ کرو۔ اپنے تقویٰ اور توکل کو مضبوط رکھو ،اللہ تعالی پر توکل مضبوط ہو تو کوئی کام ناممکن نہیں اور جب اللہ پاک کن کہہ دیتے ہیں تو کائنات کا ہر ذرہ آپ کے لیے وسیلہ بن جاتا ہے۔ الغرض یہ کہ اللہ پر امید کامیابی کی دلالت کرتی ہے ، اس لئے جہاں بھی رہیں، نیک امید کے ساتھ رہیں خو ش نصیبی کی زندگی عطا ہوگی ۔
[email protected]