اللہ تعالیٰکے نز دیک اِمامت کا منصب(عہدہ ٔ پیشوائی و سرداری ) بہت عزت وعظمت والا رتبہ ہے۔اس کا اندازہ قر آن کریم کے متعدد آیاتِ بینات کا بہ نظر غائر مطالعے سے ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے پیارے نبی حضرت ابرا ہیم علیہ السلام مشہور لقب ’’خلیل اللہ‘‘ کوآ زما ئشوں میں ڈالا، آپؑ تمام آز مائشوں میں کامیاب ہوئے تو اللہ تعا لیٰ نے ارشاد فر مایا: ترجمہ:میں تمہیں لو گوں کا پیشوا(امام) بنائوں گا،انہوں نے عرض کیا:(کیا) میری اولاد میںسے بھی؟ارشاد ہوا:ہاں! مگرمیرا وعدہ ظالموں کو نہیں(القرآن،سورہ البقرہ ۲، آیت۱۲۴)
یعنی یہ وعدہ آپ کی آل و اولاد میں صرف ان لو گوں سے ہے جو صالح،نیک ہوں۔ دنیا میں بے شمار علم والے ہیں جو مختلف علوم کے ماہر ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت قربِ الٰہی کی دولت سے فقط عالم باعمل کو نوزا۔ ارشاد خداوندی ہے: تر جمہ: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(سورہ فاطر۳۵،آیت۲۸)۔حدیث پاک میں رسول کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا اللہ سبحا نہُ تعالیٰ جس سے بھلائی کر نا چاہے اُسے دین کی سمجھ عطا کر تا ہے، آقا ئے مدینہ مصطفی ومجتبیٰ ﷺ نے تمام زندگی اما مت فر مائی۔ آپؐ اگر کہیں سفر پر جاتے تو مدینہ منورہ والوں کے لیے امام کا انتخاب خود فر ماتے کہ فلاں صحابی نماز پڑھائے۔ حضور ﷺ کے بعد صحابہ کرامؓ نے جو بھی خلیفہ منتخب کیا وہ تمام لوگوںسے بڑھ کر متقی اور پر ہیز گار وخدا دوست ہوتا ۔اس سے بعد میں آنے والے مسلمانوں پر واضح ہوا کہ امام کن اوصاف کا مالک ہویا یہ کہ امام کیسا ہونا چا ہیے۔ اسلام میں امامت کا درجہ بہت ہی اہم ہے ۔اللہ رب ا لعزت نے امام کی فضیلت بیان فر مائی کہ میں جس سے خوش ہو ااُسے لوگوں کا پیشوا(امام) بنایا۔ اسی طرح نبی ﷺ نے بھی امام کے فضائل ارشاد فر ما ئے ہیں ۔آپ ﷺ نے فر مایا: ’’ نماز میں جماعت کی امامت وہ شخص کرے جو نماز یوں سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کر نے والاہو‘‘ ایک حدیث پاک میںآیا ہے: اے مسلمانو! تم میں سے جو اچھے اور بہتر ہیں ان کو امام منتخب کرو کیونکہ وہ تمہارے رب کے نزدیک تمہارے نمائندے ہیں۔‘‘ اس حدیث پاک سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ امام رب کے نزدیک مقتدی کے نمائندے ہیں، اس سے بڑی امام الصلوٰۃ کی فضیلت وعظمت اور کیا ہو سکتی ہے؟حضرت علی کر م اللہ وجہہ روایت کر تے ہیں کہ’’ مسجد کے لوگوں میں محبوب اور افضل مقام کا حا مل امامِ مسجد ہے۔ امام مسجد کے بعد افضل مقام موذن کا ہے‘‘ قرآن واحا دیث میں علماء اور امام کے بہت فضائل واردہیں جودل بینا رکھنے والوں کے لیے منصب ا مامت کا تصورکرنے کے لئے کافی ہیں۔ امام غزالی رحمۃاللہ علیہ اپنی شہرہ ٔآفاق کتاب’’ احیاء العلوم‘‘ میں ارشاد فر ماتے ہیں کہ انبیاء کرام ؑکے بعد علمائے حق کا درجہ ہے۔ اس کے بعدائمہ مسا جد کا درجہ ہے، کیوں کہ یہ لوگ مخلوق میں افضل ترین ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہیں۔
جہاں امام و موذن کے اتنے فضائل بیان کئے گئے ہیں، وہیں ان پر بہت ذمہ داریاں بھی عائد کی گئی ہیں ۔ ا س وجہ سے اما مت کا منصب بہت نازک ذمہ داریوں والا منصب تسلی کیا جاتاہے۔ یا د رکھئے قوم کی رہنمائی اور پیشوائی کوئی آسان کام نہیں ۔اس وقت قوم کے اندر جو کمیاںاور کج ادئیاں پائی جاتی ہیں، اس بارے میں اصلاحی قدم اٹھاتے ہوئے سب سے اول ائمہ کرام اور علما ئے عظام کو سوچنا پڑے گا اور اپنا محاسبہ کر ہوگا کہ ہمارے اندر لازماً کوئی کمی ہے جو قوم کے اندر یہ کمی در آئی ہے، ہم کہاں تک قوم کی اس تباہی کے ذمے دار ہیںجو ان کی اصلاح نہ کرسکتے۔ ائمہ اور علماء قوم کی غلطیاں گنا کر اپنے آپ کو ان سے بر ی الذمہ قرار نہیں دے سکتے ۔ سمجھنا چاہیے کہ قوم کی اخلاقی بے راہ روی میںائمہ کرام کی ذمہ داری ستر فیصد اور عوام کی تیس فیصد ہے، اور ذمہ داردونوں ٹھہرتے ہیں۔ جو جتنا بڑا عالم ہے یاامام مسجد ہے ،اُس کی ذمہ داری اتنی ہی زیادہ ہے۔ ا سلئے انہیں چاہیے کہ اپنے دائرہ اثر میں دین کی جو ضرورتیں ہیں، پہلے ان کو سمجھیں اور پھر تمام مسائل کا قرآنی حل پیش کرکے عوام کی رہبری کا حق اداکریں۔ اگر ان خطوط پر امامت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی تفویض کردہ امانت سمجھا جائے تو اللہ تعالیٰ کی ائمہ اور امت پر خاص الخاص رحمتیںنازل ہوتی رہیں گی۔ ان شا ء اللہ تعالیٰ۔
یہاں یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ مقتدی، متولی اور مسجد کمیٹی کے یکساں طور امام کی عزت واحترام کیاکریں۔ اسلام میںاما مِ مسجد کا بہت رتبہ اور عزت مسلّمہ حقیقت ہے مگر اس سلسلے میں ہم سے بہت ساری بھول چوک اور پہلو تہی ہوتی رہتی ہے ۔اس کے مقابلے میں دوسرے مذاہب کے پیرو کار اپنے دھارمک رہنماؤں اور پیشواؤں کی عزت ضرورت سے زیادہ کر تے ہیں ۔یورپا اورامریکہ جیسے آزاد معاشروں میں لوگ پادری کو یہ مقام دیتے ہیں کہ اگر کسی عیسائی سے کو ئی گناہ سر زد ہو جا ئے تو وہ پادری کو صاف صاف مطلع کر تا ہے کہ مجھ سے فلا ں گناہ سرزد ہو گیا ۔ پادری پا نی کا چھینٹا اس کے چہرہ پہ مارتاہے اور کہتا ہے جا تیرا گناہ معاف ہو گیا ۔ عیسائی خوش ہو جاتاہے کہ پادری نے اس کا گناہ معاف کر دیا۔ معاذ اللہ ثم معاذاللہ،اللہ ہمیں بچا ئے ایسی بد عقیدگی سے، مردا صرف یہ کہنا ہے کہ اور قومیں اپنے پیشواؤں کو کیا درجہ دیتی ہیں ۔ بہرصورت امامت اسلام کا با عزت عہدہ ہے ،لہٰذا عوام، مقتدی، مسجدکمیٹی پر لازم آتا ہے کہ اپنے امام اور موذن کا خاص خیال رکھیں۔ اگر امامِ مسجد سے بشریت کے تحت کوئی صغیرہ غلطی ہو جائے تو در گذر بھی کریں اور ضرورت محسوس ہو تو اکیلے میں اُسے اس بات کا اصلاح کی غرض سے احساس بھی دلا ئیں کہ یہ غلط یا نادُرست ہوا، لیکن اگر بالفرض کوئی سنگین غلطی ہو تو مسجد کمیٹی امام کی حیثیت، عزت نفس اور رُتبے کا خیال کرتے ہوئے اسے با عزت طورفارغ کر دیں نہ کہ اسے بدنام کر تے پھر یں۔ حضورؐ کی حدیث پاک ہے اللہ قیامت میں اس شخص کے حساب کو آسان فر ما ئے گا جو لو گوں کے عیب کو چھپا تا تھا۔ اللہ ستارالعیوب ہے، لوگوں کی عیب پوشی فر ماتا ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں بے ہودہ الزام تراشیاں،غیبتیں،اور چغل خوریاں جیسی برائیاں اب اس قدر عام ہیں کہ بہت سارے ناقص الاخلاق لوگ ان کے زیر اثر جانے انجانے امام مسجد،موذن بلکہ نمازیوں تک میں مین میخ نکال کر انہیں بد نام کر تے پھرتے رہتے ہیں۔ اس نوع کی فتنہ بازیاں لو گوں کو اسلام سے دور لے جانے والی ناجائز حرکات ہیں جن سے دامن بچانا ہمارے لئے از بس ضروری ہے۔ ان حوالوں سے آج جب خود ہمارا سلوک بعض جگہ اما موں کے ساتھ بہت ہی معیوب کن ہو توپھر غیروں کے ہاتھوں مسلما نوں کی ابتر حالت کا رونا رونے کا کیا جواز بنتا ہے؟ معاف کیجئے جس قوم کے لوگ اپنے ائمہ پر ظلم وجبر کی تیز آزمائی کریں یا ان کی بلا جوا زکردار کشیاں کریں ،وہ قوم کیسے فلاح پائے گی؟
نمازی ہوں یا مسجد کمیٹی کے ذمہ داران،ان کو چاہیے کہ امام کے مصلے پر صرف اسی شخص کو کھڑا کریں جو کردار کے اعتبارسے سب سے بہتر ہو، نیک ہو، زیادہ قرآن جاننے ولا ہو ، علم والاہو، بردبار ہو ، منصب ِامامت کی نزاکت کا پاس ولحاظ رکھنے والاہو ، نمازیوں کا مزاج شناس ہو، ایک بار اُسے امامت کے لئے مقررکیا تو دل کو تسلی دیں کہ ہم نے ایک اچھے پیشوا کو آگے کیا ، پھر اس کی تعظیم وتکریم ہی نہیں بلکہ فریضۂ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادائیگی میں اُسے شریعت کے مطابق آزادی دو ۔اس کے برعکس اگرہما را حال یہ ہو کہ امام کو ایک مزدور سے بھی کم اُجرت اور ایک چپراسی سے بھی کم تنخواہ دیں، وہ بھی تاخیر کے ساتھ تو یہ منصب امامت کے ساتھ زیادتی نہیں اور کیا ہے ؟ بے چارہ امام کو اسی قلیل تنخواہ میں بچوں کی پر ورش ،پڑھا ئی لکھا ئی ،علاج و معالجہ سب کچھ کر نا ہوتا ہے تو اس کے لئے مسائل کا انبار کھڑا ہونا قدرتی امر ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ امام مسجد و موذن بسااوقات حکومت اور فرقہ پرستوں کے بے رحمانہ رویوں کا شکار بھی بنتے رہتے ہیں۔ یہ حقیقت نظر اندازنہیں کی جا نی چاہیے کہ ہماری نجی وسماجی زندگی میں پیدائش سے لے کر لے کر دفن ہونے تک قدم قدم پر امام کی حاجت رہتی ہے ،لیکن ہم اس کا صلہ اُسے کیا دیتے ہیں، مجھے وہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ہم اور آپ ذرا ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچیں کہ جو شخص ہمیں امامت کی وساطت سے قر آن کی تعلیم دے ، علم دین سکھائے ، اچھے اور برے کا فرق بتائے ،اسے بدلے میںہم کیا دے رہے ہیں؟گزارش یہ ہے کہ جومسلمان واقعی دین ِاسلام سے محبت کر نے والااور اللہ کی عدالت سے خوف کھانے والا ہو، وہ یقیناً ائمہ مساجد کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھے گا اور انھیں معزز جانے گا۔ اس کے بر عکس جو عزت تو دور اُن کی پگڑیاں اُچھالیں وہ بہت بد قسمت اور خسارے میں رہنے والا شقی القلب ہی ہوسکتے ہیں ۔اللہ تما م مسلما نوں کو ائمہ وموذ نین کی عزت وتکریم کر نے کی توفیق بخشے اور ان حوالوں سے دلوں میں جو بے حسی وکجی ہماری صفوں میں موجود ہے اُسے دور کرے آمین ثم آمین۔
Mob.: 09279996221