اس وقت اُمت مسلمہ کے ا کابرین اور فکری رہنماؤں پر اولین فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کلمہ خوانوں کے تشخص ، ان کے اجتماعی مفادات اور سوا ارب مسلمانان ِ عالم کے حال اور مستقبل سے وابستہ مسائل پر غور وفکر کر کے ان اسباب و علل کا کھوج لگایں جو مسلم اُمہ کی ناگفتہ بہ مشکلات اور اس کے مصائب کے اسباب ومحرکات مہیا کر تے ہیں ۔ یہ اس بنا پر بھی ناگزیرہے تاکہ ملت اسلامیہ گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکل باہر آئے اور دور جدید کے حوالے سے ایسا ایمان افروزضابطہ کار تیار کیا جا سکے جس پر عمل درآمد کر کے مسلمانوں کی دینی، دنیوی ، اخلاقی ،روحانی ،علمی، معاشی ، سیاسی اور سماجی صورت حال کو سدھارا جاسکے۔ اس سلسلے میںہمیںاپنے عروج و زوال کی طویل تاریخ پر نگاہ رکھتے ہوئے موجودہ حالات کا معروضی تجزیہ کرنا ہوگا اور ماضی و حال کے اس جائزے کی روشنی میں مستقبل کی صورت گری کرنا ہوگی۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کس قوتِ محرکہ کے طفیل ہم عروج و کمال سے بہرہ مند ہوئے اور کن عوامل کے سبب شوکت و عظمت سے محروم ہو کر گوناگوں مسائل کے دلدل میں پھنس گئے ۔ ملت اسلامیہ کے وجود کو لاحق تمام عوارض کی دُرست وصحیح تشخیص کے بغیر مسیحائی کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی اور دُرست تشخص کے لیے اشدضروری ہے کہ ہم جذباتیت کی تندی و تیزی سے بالاتر ہوکر اور ہر نوع کی عصبیت وبے بصیرتی سے پاک ہوکر اپنے مرضِ کہن کی تہہ تک پہنچیں اور پھر اس کی موثر چارہ گری کا اہتمام کریں۔
آج جب ہم عالم اسلام پر نگاہ دڈالیں اور مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنی کارکردگی (عدم کارکرد گی کہنا مناسب ہوگا ) کا موازنہ مادی طور پر ترقی یافتہ اور خوشحال دنیا سے کرتے ہیں تو ایک حوصلہ شکن تصویر سامنے آجاتی ہے۔اس تصویر کا سب سے اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے ۔ انہیںبدترین قسم کی سفاکی اور بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ دو ر کیوں جائیں اپنے وطن کشمیر کی ہی بات کریں ، یہاں پر سات لاکھ نفری پر مشتمل فوج حق خود ارادیت کا جمہوری مطالبہ کرنے والے عوام کو نشانۂ ستم رہی ہے ۔ اس جدوجہد کی راہ میںاب تک ایک لاکھ کے قریب کشمیری مسلمانوں کا خون ناحق کیا جاچکا ہے ۔ نوجوانوں کی ایک پوری نسل ختم کر دی گئ ہے ۔بستیاں قبرستانوں میں تبدیل ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ شدو مد سے جاری ہے ۔ کشمیر حل کا سیاسی اختیار رکھنے والے نہ صرف اس قتل وغارت گری کو جائز ٹھہرا رہے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کاغذ ی گھوڑے قرار دے رہے ہیں ۔ ایسے میںظلم وتخریب اور حقوق ا لبشر کی پامالیوں کی سیاہ رات ہے کہ ڈھلنے کانام نہیں لے رہی ۔ افسوس کہ اکیسویں صدی کا چڑھتا سورج ہے کہ بے بسی میں ان انسانیت سوز مظالم کا یہ دلدوز ودلخراش منظر دیکھتا جارہا ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کے عوام قابض اسرائیل کے ہاتھوں اپنے گھروں اور وطن سے بے دخل کئے جارہے ہیں،ا نہیں مارا کاٹا جارہاہے ، انہیں جرم بے گناہی کی پاداش میں تہ تیغ کیا جارہاہے مگر اپنی بقاء کی جنگ لڑ نے والے فلسطینی بیت المقدس کی یہودی قبضے سے آزادی اوراپنی آزادریاست کے قیام کے برحق مطالبے کے لیے آواز بھی بلند کررہے ہیں اور قر با نیاں بھی بھی دئے جارہے ہیں اور بدلے میں انبیائے کرام ؑ کے اصل وارثوںکے کوچہ و بازار کو یہودی ظالم لہو سے رنگین کر تے جا رہے ہیں ۔ اس ذلیل و شرم ناک کام میںاسرائیل کو عالمی غنڈوں خاص کر امریکہ کا امداد وتعاون حاصل ہے ۔ بلاشبہ اسرائیل اپنی موروثی خصلت کے عین مطابق انسانی تاریخ کے شرمناک مظالم کا ارتکاب مسلسل کر تا جا رہا ہے ، وہ نہتے فلسطینیوں کی بستیوں پر بلا روک ٹوک آتش و آہن کی بارشوں اور غزہ کو محاصرے میں رکھ کر صاف صاف لفظوں میں یہودیوں کے خلاف ہٹلر کی رونگٹے کھڑی کر دینے والی داستان کا جواز پیش کر رہے ہیں ۔ ماضی ٔ قریب میں بوسنیا کے عوام پر ٹوٹنے والی قیامتوںکے زخم ابھی بھرنے کانام نہیں لے رہے ۔ افغانستان کی حالت ِزار پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے ۔ یہ ملک بھی عالمی طاقتوں کے باہمی رسہ کشی اور خون خواری کی بھینٹ چڑھایا گیا مگر غیور افغان قوم نے اپنی آزادی و خود مختاری کا تاریخ ساز معرکہ لڑنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔افغان ایک اَن تھک جنگ میں بیش قیمت قربانیوں کے بل پر سرخ رو ہوئے ضرور مگر روسی سامراج کے بعد امر یکی سامراج نے اس پر فوج کشی کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور باوجودیکہ طویل مدت گزر گئی ابھی تک یہ غریب ملک سیاسی استحکا م، امن وسکون اور ترقی و خوشحالی کی نوید جانفزا سے محروم ہے۔ عراق، مصر ، لیبیا، یمن، سوڈان کی داستان خونچکاں بھی یہی ہے ۔
ایک امید کی کرن اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ تھا مگر یہ جان بوجھ کر مسلم دنیا کے سلگتے مسائل کی اَن دیکھی ہی نہیں کررہا بلکہ اپنے دوہرے معیاراور امتیازی رویے سے عالمی ادارے کے ساتھ وابستہ کمزور ومظلوم قوموں کی توقعات اور امیدوں مجروح کر تاجارہا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مہذب دنیا خاموشی سے یہ سارا ماتمی منظر دیکھ رہی ہے ۔ یہ کتنی بڑی منافقت ہے کہ مشرقی تیمور کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد کو فوری طور پر عملی جامہ پہنا دیا جاتا ہے لیکن فلسطین اور کشمیر کے بارے میں اسی ادارے کی قراردادیں نصف صدی سے معرض التوا ء میں رکھی جاتی ہیں ۔اقوام متحدہ کی اس امتیازی روش سے عالمی ضمیر کے اندر بھی کوئی خلش پیدا نہیں ہو رہی ۔ صورتحال کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان مشترکہ مسائل اور مصائب کے باوجود امت مسلمہ پوری طرح ہم آواز ہے نہ ہم قدم۔ جب ہم دنیا کے موجودہ معاشی ، سیاسی ، سماجی ، ثقافتی اورتہذیبی منظر نامہ پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر پیچھے مڑ کر اپنے مسلمانانہ ماضی کو جھانکتے ہیں تو یہ حقیقت ازبر ہوتی ہے کہ ہمارے اپنے گناہ اورا پنے قصورہماری بربادی کے اسباب ومحرک ہیں ۔ ہمارے تصور زندگی اور اسلوبِ حیات میں غیر اسلامی آمیزشوں سے غیر معمولی تبدیلیاں آچکی ہیں کہ آج روئے زمین کا کو ئی بھی مسلم خطہ تہذیب، عقائےد ، نظریات ، اخلاق و اقدار کے حوالے سے قرآن و سنت سے ہم آہنگ نہیں ۔ مغربیت کے منہ زور یلغار نے سب کچھ تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔
باطل وطاغوت کے اس سیل ِرواں کے سامنے بند باندھنے کی کوئی مدافعانہ حکمت عملی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ہم علم ، عمل ، جدید تکنیکی مہارت ، وحدت ِ فکر اور ایمانی قوت سے آراستہ نہ ہوں اور اپنی خوش نما تہذیب و ثقافت کے تمام درخشندہ پہلوؤں کو دنیا کے سامنے ذہنی یکسوئی کے ساتھ نہیں لاتے۔ سیلابِ مغرب کومحض وعظ و تلقین یا سند اسلام سے تہی دامن حربوں کے ذریعے اس کو روکنا ممکن نہیں۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن و سنت کی زندگی بخش تعلیمات ،اسلام کی انصاف نواز پیغام پنی اخلاقی اقدار کو توکل علی اللہ اور خوداعتمادی کے ساتھ دنیا ،یں جینا مرنا سیکھیں۔ نیز ہمیں چاہیے کہ جن چیزوں سے اسلام کی شبیہ مسخ ہوتی ہے، ان سے خاص کر کنارہ کشی اختیار کریں ۔اس کے لیے ہمارے اہل علم و دانش اور انفار میشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو زبر دست محنت کرنا ہوگی۔ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ تہذیبوں کی کشمکش محض ایک مناظرہ نہیں ہوتی جس میں دلیل اور جوابی دلیل کی قوت ہی کو کافی سمجھ لیا جائے ۔تہذیبوں کا عروج و زوال ایک ہمہ گیر سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی سرگرمی سے عبارت عمل ہے جو برس ہا برس کے بعد تشکیل پاتا ہے ۔آج مغربی تہذیب کے پھیلاؤاور قوتِ تسخیر کا بنیادی سبب دراصل جدید علوم اور سائینس پر اس کی مضبوط گرفت ہے جس نے اسے سیاسی اور اقتصادی طور پر مستحکم بنا دیا ہے اور یہی وہ پہلو ہے جس سے پوری ملت اسلامیہ پر وہ دباؤ بنائے ہوئی ہے ۔ یہ امر واقع ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
سائینس ، ٹیکنالوجی ،عصر ی علوم و فنون اور ہنر ہائے دلپذیر پر عبور مسلمانوں کا کبھی خاصہ رہا ہے۔ اس کی و جہ یہ تھی کہ ان کا فکری ماخذ قرآن وسنت تھے اور ان کی تعلیمات میں کائنات کے سر بستہ رازوں کی تحقیق و جستجو کو بہت زیادہ اہمیت دی گئ ہے ۔اسلام کے عقائد ، نظریاتی اساس اور سائینسی ارتقاء کے درمیان کبھی تصادم و پیکار کی فضا پیدا نہیں ہوئی بلکہ جدید سائےنسی علوم پر دسترس اسلام کی متحرک اور روشن خیال فکر کا حصہ رہی ہے۔ ساتویں سے چودھویں صدی عیسوی تک ہم اسلام کے اس پہلو کو معراج کمال پر دیکھتے ہیں۔یہی وہ دور ہے جب کیمیا ، طبیعات،علم الہندسہ،فلکیات ،طب، فلسفہ اور تاریخ کے شعبوں میں جابر بن حیان،الکندی، الخوارزمی، الرازی، الغزالی اور ابن خلدون جیسے عالی قدر مفکرین ، سائےنس داں اور اہل حکمت و دانش دکھائی دیتے ہیں۔اسلام کی فکر انگیز تعلیمات سے آراستہ ان شخصیات نے اپنی تحقیقات اور افکار کے زریعے کائنات کے اسرار و رموزکے مطالعہ و تحقیق کا ذوق وشوق پیدا کیا۔فروغ علم کے اس زرین عہد میں علم و حکمت کا جو عظیم خزانہ سامنے آیا ،اس کی مثال یونان سمیت کسی خطہ ارضی کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔فکر تازہ کی اس لہر نے یورپ سمیت دنیا کے کئ خطوں کی نسل نو کو علم و فن کی نئ بلندیاں سر کرنے کا سلیقہ عطا کیا ۔افسوس کہ تاریخی عوامل کے تحت علم و حکمت کا یہ ترقی یافتہ کارواں تاریخ کے ریگ زاروں میں کہیں کھو گیااور مسلمان سلطنت علم کی فرمانروائی کھوتے ہی ہمہ پہلو زوال کی نذر ہو گئے۔سلطنت ِعلم کی فرمانروائی وامامت سے معزولی ہمارے ہمہ گیر زوال کا پیش خیمہ بن گئی ۔ان سارے عوامل نے یکجا ہوکر مسلمان خطوں کی تہذیبی معنویت، سیاسی ساکھ اورمعاشی خوش حالی کو پسماندگی کی تاریکیوں میں دھکیل دیا جس کے سبب عالم اسلام کے کم و بیش سارے علمی مراکز سامراجیت کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے ۔آج جب انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلے اسلامی ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کے بیس فیصد کے لگ بھگ ہے لیکن اس آبادی کا تقریباًچالیس فیصد حصہ ناخواندہ ہے۔ سائےنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سارے اسلامی ممالک کی مجموعی افرادی قوت صرف ۸۰ لاکھ کے لگ بھگ ہے جو اس شعبے میںمصروف کار عالمی آبادی کا صرف چار فیصد ہے۔تحقیق اور ترقی معنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے میدان میں مسلم ممالک کا حصہ عالمی افرادی قوت کے ایک فیصد سے بھی کم ہے ۔ ساری اسلامی دنیا میں یونیورسٹیوں کی تعداد تقریباً ۳۵۰ ہے جن میں مجموعی طور پر سالانہ صرف ایک ہزار پی ایچ ڈی اسکالر فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں یونیورسٹی کی سطح پر سائےنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی تعداد صرف ۲۰؍ فیصد ہے اور یہ وہ ممالک ہیں جن کی افرادی قوت سوا اَرب انسانوں کے لگ بھگ ہے، جن کی آزاد مملکتیں تقریباً تین کروڑ مربع کلو میٹر پر محیط ہیں، جو تیل کے مجموعی ذخائر کے تین چوتھا ئی حصے کے مالک ہیں ،جن کے پاس لا محدود معدنی دولت ہے، جو بے پناہ زرعی استعداد کے حامل ہیں اور جہاں کے لوگ جفا کش ، ہمت شعار اور بے مثال ذہنی صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔
بہر صورت کیا یہ ہمارے لئے ایک لمحۂ فکریہ نہیںکہ ان تمام مسلم اقوام و ممالک کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار صرف بارہ ہزار بلین ڈالر ہیں؟رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کہیں چھوٹے ممالک فرانس، جرمنی ، اور جاپان کی مجموعی قومی پیداوار با لترتیب ۱۵ہزار بلین، ۲۴ ہزار بلین اور ۵۵ ہزار بلین امریکی ڈالر ہیں ۔ یعنی مجموعی طور پر صرف ان تین ممالک کی مجموعی پیداوار ۹۴ ہزار بلین ڈالر بنتی ہیں ۔ دنیا کی مجموعی بر آمدت میں مسلم ممالک کا حصہ ساڑھے سات فیصد اور مجموعی عالمی معیشت میں ہمارا حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ مسلم ممالک پر تقریباً سات سو بلین ڈالر کا قرضہ ہے ۔ زمینی حقائق کا ایک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ذہین اور اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک نوجوان حالات کار کی ناموزونیت اور محدود امکانات کے باعث ترک وطن کر جاتے ہیں ۔ پاکستان ، مصر ، ایران، شام، بنگلہ دیش، ترکی ، الجزائےر ، لیبانان اور اردن وغیرہ اسی سنگین مسئلے سے دوچار ہیں ۔ اس لحاظ سے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم علم و حکمت کے تمام شعبوں بالخصوص سائےنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ و ارتقاء کے لیے ہنگامی کوششیں کریں اور اس مقصد کے لیے پورا عالم اسلام ایک بھر پور تحریک کا آغاز کرے ۔اپنے مسائل کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئےہمیں اس پہلو کا پوری شرح و بسط کے ساتھ تجزیہ کر نا ہوگا کہ امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و اتفاق اور اخوت و یگانیت کی وہ مثالی فضا کیوں قائم نہیں ہے جو توحید و رسالت پر ایمان رکھنے کا منطقی تقاضا ہے؟ موجودہ مسلم بلاک کی مایوس کن صورت حال کے تعلق سے یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ کیا ہمارا سرمایہ ،ہماری توانائیاں اور ہماری صلاحیتیں پوری طرح اُمت مسلمہ کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کے کام آرہی ہیں؟صورت حال کی سنگینی اور کو تاہ نصیبی اس وقت دو چند ہو جاتی ہے کہ جب یہ تلخ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ بعض مسلم ممالک آپس میں دست وگریبان ہیں اور بعضوں کے درمیان کشیدگی اور تنازعات کی آتشیں فضا موجود ہے۔ بہر کیف مادی ،سیاسی اور اقتصادی طور پر شکستہ حال قومیں پھر سے فتح مند ہوسکتی ہیں اور اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہیں لیکن اس کے لئے ذہنی ، فکری اور روحانی اعتبار سے شکست کھا جانے والی اقوام کو خدا اعتمادی اور خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہو نا شرط اول ہے۔اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل کی سنگینی ، مصائب کے ہجوم اور مشکلات کی کثرت کے باوجود فرزندانِ اسلام کا مستقبل روزن اور تابناک ہو سکتا ہے اگر من حیث المجموع اُمہ ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو ‘‘ کی قرآنی شرط پر پورا پورا اُترتی ہو ۔ ہمارے دل توحید کی دولت سے مالا مال ہوں ، ہماری روح حب رسول ﷺ کی لذتوں سے سرشار ہوں ، ہم دنیا کو بہتر ین انداز میں اپنا کنٹر ی بیوشن دیں ، ہم امن کے پیامبر اور سلامتی کے سفیر ہوں ، اپنے عقائد ومفکورے کی حفاظت کے لیے نقد جاں تک پیش کرنے کا ہنر جانتے ہوں ، ہم لامحدود قدرتی وسائل سے شادکام ہوں ، انتہائی ذہین،ہمت، شعاراور جفا کش وبااخلاق افرادی قوت کے حامل ہوں،علم و فن سے محبت ہماری فطرت میں شامل ہو تو دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کو نشاتہ ثانیہ کی شاہراہ پر ایڈونس مارچ کر نے سے روک نہیں اور اسلام کا جمال اوجلال پھر ایک بار دنیا کو مشک بار کر یا ۔ پھر ان شاء اللہ مسلم اُمہ کے خلاف چومکھی لڑائیاں ، خون خواریاں ، کردار کشیاں،ناسازگار موسموں کا غلبہ قصہ پارینہ ہوگااور ہمارے بال و پر ایک بار پھر اسی قوت پرواز سے آشنا ہوں گے جس نے صحراے عرب کے حدی خوانوںکو دنیا کا رہنما بنا دیا تھا اور کعبے کو معجزاتی طوربت خانوں سے اپنی محافظت کر نے والے ملیں گے ؎
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ ٔ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ ٔ توحید سے
رابطہ :گوفہ بل۔ کنزر، ٹنگمرگ ۔کشمیر