اُستاد کو سماج میں بہت سے ذی عزت نا موں سے پکارا جا تا ہے، جیسے معلم، مدرس، گرو، مو لوی صا حب، ما سٹر جی، پرو فیسر۔ اس سے سماج میں اُستاد کے کردار ، اُس کی ذمہ داریوںاور اس کی اہمیت کا اندازہ ہو تا ہے۔ہر شخص کو زندگی کے ہر موڑ پر کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے لئے ایک تجربہ کار رہبریا استاد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس طرح سماج میں اُستاد کی ذمہ داریاں وسیع المعنیٰ ہیں ۔ بچہ پیدا ہو تا ہے تو ماں اس کی جسمانی نشو و نما شروع کر تی ہے اور بچے کا اُستاد سب سے پہلے اس کی ماں ہوتی ہے ۔ بچہ ما دری زبان اپنی ماں، اپنے گھر اوراپنے ما حو ل سے سیکھتا ہے۔اس طر ح یہ سب اس کے لئے گویا استا دہی ہوئے ۔ جتنی اچھی تر بیت بچے کو گھر میں ملتی ہے ،اتنا ہی سماج میں اس کا رول اچھا بنتا ہے۔ لگ بھگ ہر مذہب اپنے پیروؤں کو استاد کا احترام کرنا سکھاتاہے ۔آج کے دور میں بچوں کو بہت ہی کم عمر میں مدرسوںیا سکولوں میں اُستاد کی رہنما ئی حا صل ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے سبھی والدین اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے سکو ل میں دا خلہ دلا نے کی کوشش کرتے ہیں، تا کہ اُن کی تر بیت ذہین اور تجربہ کار اسا تذہ کے ہا تھوں ہو سکے۔ ایسے بچے اور بچیاں جن کی تعلیم و تر بیت شروع سے ہی مثالی اسا تذہ کے ہا تھوں ہو ، وہ تعلیمی میدان اورکیر ئرسازی میںبلند یوں کو چھو سکتے ہیں۔علا مہ اقبال استاد کو ایک معمار کے سا تھ مشا بہت دیتے ہوئے فر ما تے ہیں ؎
شیخِ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روحِ انسانی
یعنی استاد ایک معمار کی طرح ہو تا ہے، فرق یہ ہے کہ معمار کا خام مواد اینٹ گارا ہو تے ہیں، استاد انسانی شخصیت کی تعمیر بچے کو ذہانت اوراخلاق وکردار سانچے میں ڈھال کر کرتاہے۔ استاد اچھا سیرت ساز ہو تو اس کے شاگرد بہترین شہری ،قابل انسان ، ذہین ڈا کٹر، ماہرانجنیئر،فرض شناس افسر،عالم اور اُستاد بن جا تے ہیں۔ایک اچھا وہی اُستادکہلائے گا جو ایمان، صبر، شفقت اورہمدردی کا مجسمہ ہو۔جب ایک اچھا اُستاد اپنی صلا حیتوں کا صحیح اور بھر پوراستعمال کر تا ہے تو وہ اپنا ایک الگ مقام متعین کر تا ہے ،وہ اپنے شاگروں کے لئے ایک نمو نۂ عمل یعنی رول ماڈل بنتاہے کہ طلباء وطالبات اس کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعیٔ بلیغ کر تے ہیں۔ ایک اچھے استاد کی ابتدائی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ اپنے نفس اور خوا ہشات پر قابو رکھے اور زیر تر بیت طلباء و طا لبات کواسی صفت سے لیس کر کے اس طرح آراستہ اور پیراستہ کرے کہ وہ سچ بولنا سیکھیں، اپنے والدین کی خدمت کر نا ، بزرگوں کا احترام کر نا اور بے سہا را لو گوںکی مدد کر نا اپنا فرض سمجھیں، ایمانداری، سچا ئی اور انصاف کو اپنا شعار بنا ئیں،اپنے ما حول کو صاف وپاک رکھنے کا شعور پائیں،لا زما ًایسے ہونہاراستاد سماج میں اپنا دیر پا نقش چھو ڑ تے ہیں اور اپنا منفرد مقام بنا تے ہیں۔
ایک استاد میں علم حا صل کر نے اور زندگی کے نشیب و فراز سمجھنے کی صلاحیت ہونی چا ہیے۔اسے اپنی اور دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی تڑپ ہو نی چا ہیے۔ وہ کبھی بھی اپنے آپ کو افلا طون یا خرف آخر نہ سمجھے، علوم و معارف کی دنیا چونکہ ہر پل بدلتی ہے ،اس لئے جب بھی استادمیں کچھ نیا تازہ سیکھنے سمجھنے یا علم میں ترقی حاصل کر نے کی چا ہت مر جائے ہوجائے تو سمجھئے وہ رہبری کا مقام کھو گیا۔اسی لئے اسا تذہ کی لگا تار تربیت کیلئے او رینٹیشن اور ریفرشر کو رسز کا اہتمام کیا جا نا چاہیے،تاکہ وہ دو سرے اسا تذہ کے علم،تجربہ اور پڑھانے لکھانے کے نئے فن سے مستفید ہوں۔ ایک استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ پوری تیا ری کر کے کلاس میں جا ئے ، اپنا سبق اپنے طلباء و طا لبات کی با ہمی مشا ر کت سے پڑھا ئے، مو جو دہ تر بیتی آلات کا بخوبی استعمال کرے ،بچوں کے سوا لا ت کا جواب خوش اسلوبی کے ساتھ دے ،بلکہ سوال و جواب کی حو صلہ افز ا ئی کرے۔جب ایک استاداپنا مضمون پورے اطمینان کے ساتھ پڑھا کر کلاس سے با ہر آتاہے، تو اس کے چہرے پر اطمینان کی مسکراہٹ سکون ِ دل سے اُبھرنی چاہیے ۔کبھی کبھی یوں بھی ہو تا ہے کہ ایک استاد پوری تیا ری کر کے کلاس میں جا تا ہے لیکن پھر بھی کسی وجہ سے بچوں کو مطمئن نہیں کر پا تا یا ، بچوں کے کسی سوال کا صحیح جواب نہیں دے پا تا،ایسی صورت میں اسے شرمندہ نہیں ہو نا چا ہیے اور نہ ہی ٹال مٹول سے کام لینا چا ہیے بلکہ پوچھے گئے سوالات دوسرے دن پر اُٹھا رکھنے چا ہیے۔دیکھا گیا ہے کہ جو استاد خوش اسلوبی اور خندہ پیشانی سے بچوںکو اپنے لاڈلے بچے تصور کر کے ان کو پڑھا ئے لکھائے ،وہ دیر سویر طلباء اور طالبات میں ہر دل عزیز بن جا تا ہے۔
بد قسمتی سے ہما را سماج استاد کی قدر و منز لت اور اس کی اہمیت کو فراموش کر چکا ہے۔اس میں کسی کسی استاد کا خود اپنا بھی قصور ہے ۔ شومی ٔ قسمت کہ ایک عرصہ سے استادکو اقتصا دی اور سما جی سطح پر نظر انداز کیا جا رہا ہے، حیرا نی کی بات ہے کہ سماجی ، انتظا می، سیا سی اور تجا رتی حلقوں میںاُستاد کے ادب و احترام کا تصوردن بہ دن پامال ہوتا جارہاہے ۔ در اصل جب سے سماج میں مادہ پرستی کا بول بالا ہوا اور انسا نی اقدار معنویت کھورہی ہیں، بعض استاد بھی اسی رو میں بہہ گئے، ان کے دل سے اپنے پیشے کا تقدس زائل ہو ا،ان میں نہ خدا کا خوف رہا نہ حُسن کار کردگی کا ذوق۔ اس طرح آہستہ آہستہ وہ اپنے مقام سے نیچے لڑھکتاجا رہا ہے۔علا مہ اقبال بھی سماج کی نا عا قبت اندیشی اور اُستادکی غفلت پر اپنی مایوسی کا اظہار یوں کیا ہے ؎
مقصد ہو اگر تر بیتِ لعل ِبد خشاں
بے سود ہے بھٹکے ہو ئے خور شید کا پر تو
دنیا ہے روایات کے پر تو میں گر فتار
کیا مدرسہ، کیا مدرسہ وا لوں کی تگ دو
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی اما مت
وہ کہنہ دماغ اپنے زما نے کے ہیں پیرو
بہر حال ایک اچھا اور مثا لی استاد بننے کارتبہ حاصل کر نا اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہمیں دکھا ئی دیتا ہے ۔ اُسے یہ مرتبہ پانے کے لئے تن من دھن سے محنت و مشقت کر ناپڑ تی ہے، بسااوقات اُسے ذاتی ، گھریلو اور سما جی مسا ئل کو با لا ئے طا ق رکھ کر بچوں کی تعلیم وتر بیت کو پہلی ترجیح دے کر ان کی بھلائی کے لئے کمر کسنا پڑ تی ہے۔ اس بات کا احسا کر کے کوئی بھی تر قی یافتہ اور ذمہ دار سماج اسا تذہ کے جا ئز مسا ئل کو ترجیحی بنیا دوں پر حل کر کے ان کی قربانیوں کا ثمرہ دینے میں بخل نہیں کرتا۔ یاد رکھئے پڑھنے اور پڑھانے کے عمل کے دو ران استاد کو اپنی ذاتی فکریں نہیں ستانی چاہیے ،اسے اُس کے مسائل کی یاد نہیں رہنی چاہیے تاکہ وہ ذہنی یکسوئی اور سکون ِ قلب کے ساتھ بچوں اور بچیوں کے تئیں اپنے فرائض ادا کرسکے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ اربابِ اقتدار نو خیز کلیوں پر رحم کھاکر اساتذہ کے ترمام معقول مانگیں پوری کر یں ، نہ کہ اس کے اُ لٹ یہ ہو کہ استاد مجبوراً اسکول چھوڑ کر سڑکوں پر آئے اور پولیس کے ڈنڈے کھائے ۔یہ مقام اُستادی کو توہین و تذلیل ہے ۔ ساتھ ہی ہمارے معز زاساتذہ کرام کو بھی یاد رکھناچاہیے کہ اکیسویں صدی نت نئی دریا فتوں اور ایجا دات کی جانب دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے، ہر طرف ترقی کا دور دورہ ہے، ہر طرف علم اور ٹیکنالوجی کی روشنی ہی رو شنی نظر آ رہی ہے، لیکن ان قمقموں کے پیچھے اندھیرا اور تا ریکی بھی ہے کہ انسا نی اخلاق اور اقدار غائب ہو رہے ہیں،شرم و حیا ء کا فقدان ہورہا ہے،عیش و عشرت کا سا مان بڑھ رہا ہے لیکن سکونِ قلب کسی کو میسر نہیں اور انسا ن سفر زندگانی کی جہت کھو گیا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی ایک بھی استاد اخلاقی سرمایہ کے لحاظ سے قلاش ہو ، اس پر بھی نفس کا بھاری بھرکم ہاتھی سوار ہو ، اس کو بھی جرائم کے دلدل میں پھنسنے کے سبب جیل اور عدالت کے چکر کا ٹنے پڑیں تو انصاف سے بتائیں کیا پیشہ ٔ استادی پر بھٹہ نہیں لگے گا اور کیا ایک گندی مچھلی سارے تالاب وک گندا کر کے نہیں چھوڑے گی ؟اس لئے سنجیدہ فکر اور صالح مزاج اساتذہ کواس منفی صو رتِ حال کو نوبت ہی نہیں آنے دینی چا ہیے،انہیں ا پنے مقدس پیشے اور عزت ووقار کا خود مل جل کر محافظ بننا چاہیے ۔ یہ ہوا تب ہمارا حال منور اور مستقبل روشن ہوگا۔
Mail ID: [email protected]