ہمارے ملک میں اردوزبان، رینکنگ کے لحاظ سے اب ساتویں بڑی زبان ہے، اس سے پہلے یہ ملک کی چھٹی سب سے بڑی زبان تھی۔ بھارت میں اردو زبان وادب کا فروغ خواہ تھم سا گیا ہو مگر ’’اردو مافیا‘‘ کا فروغ بہت تیزی سے جاری وساری ہے۔ اردو اداروں کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے یہ طبقہ ہمہ وقت بے چین رہتا ہے۔ ان دنوں قومی کونسل برائے فروغ اردو کا ڈائرکٹر بننے کے لئے اردو کے پروفیسروں میں چوہادوڑ مچی ہوئی ہے۔ جو حضرات پہلے سے یونیورسٹیوں ، کالجوں میں اردو کے طلبہ کا مستقبل تباہ کرنے میں مصروف ہیں، اب وہ کونسل کا ڈائرکٹر بن کر اپنی ترقی اور اردو کی تنزلی کو یقینی بنانے کے لئے ، بے چین نظر آرہے ہیں۔ کئی حضرات، وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے دفتر، بی جے پی نیتاؤں کے آفس اور آر ایس ایس لیڈوںں کے گھروں کے چکر محض اس لئے کاٹ رہے ہیں کہ موجودہ ڈائرکٹر کی مدت کار ختم ہوچکی ہے، لہٰذا اب انہیں یہ ذمہ داری سونپ دی جائے اور اردو کی بربادی میں جو کمی رہ گئی ہے، اُسے مکمل کرنے ’’کا کار خیر‘‘ ان کے ہاتھوں انجام دلایاجائے۔ ملک کا یہ تنہا اُردوادارہ ہے جس کا بجٹ کروڑوں میں ہوتا ہے اور لوٹ کھسوٹ کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ پروفیسر حضرات جو پہلے ہی سے یونیورسٹیوں میں لاکھوں کی کمائی کررہے ہیں، اس ادارے کے ڈائرکٹر بن کر سال میں کروڑوں کی ہیرا پھیری کر سکتے ہیں۔این سی پی یو ایل میں، کمپیوٹر اوردیگر سازوسامان کی خرید میں گھوٹالہ پرانی روایت کا حصہ رہا ہے۔اس کی شکایت بار بار متعلقہ وزارت میں کئی گئی ہے مگر روک تھام کیلئے اب تک کوئی سنجیدہ قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ بدعنوانی کے سبب ہی یہاں کے ایک ڈائرکٹر کو جیل بھی جانا پڑ اتھا۔ یہ کورٹ کی مداخلت سے ہوا تھا مگر بے شرمی کی انتہا کے وہ جیل میں رہتے ہوئے بھی ڈائرکٹر رہے اور جیل سے باہر آنے کے بعد بھی اس عہدے پر براجمان رہے۔ انھیں یہ کرسی ، آخر کارکورٹ کے حکم پر چھوڑنی پڑی تھی مگر اس کے باجود ان کے بعد کے آنے والے ڈائرکٹر حضرات کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ اردو کے فروغ کے لئے مخصوص بجٹ کو اپنے فروغ پر دل کھول کر خرچ کیا گیا، دونوں ہاتھ سے عوامی پیسے کی لوٹ کھسوٹ ہوئی اور اردو کی قبر کھودنے کی کوشش میں کوئی کمی نہیں رکھی گئی۔ ایک ڈائرکٹر صاحب نے تو اپنی ایک ’’شاگردہ ‘‘ کو فائدہ پہنچا نے کیلئے ’’ٹی وی شو‘‘بنانے کا بھی اعلان کردیا تھا مگر بعد میں یہ پروجیکٹ کسی کو بھی نہیں دیا گیا کیونکہ اس کے لئے اپلائی کرنے والوں میں بڑے بڑے فلم میکرز شامل تھے۔ اب اگر تجربہ کار فلم سازوں کو چھوڑ کر ایک نو سکھیا لڑکی کو کام دیا جاتا تو سوال اٹھنے لازمی تھے، یہی سبب ہے کہ تقریباً ایک سو فلم سازوں کے انٹرویو کے بعد اس پروجیکٹ کو ہی منجمد کردیا گیا۔ اس قسم کی کئی مثالیں ماضی میں دیکھنے کو ملی ہیں اور اب بھی نظر آرہی ہیں۔
آج خلافت ِاسلامیہ دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے، بھارت سے مسلمانوں کی بادشاہت کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے اورملک کی سیاست کچھ اس انداز کی ہوگئی ہے، جس میں مسلمان سیاسی اور معاشی طور بے اثر ہوچکے ہیں۔ ایسے میں طالع آزمامسلمانوں کے لئے چند اردو ادارے، وقف بورڈ اور حج کمیٹیوں کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہے۔ کوششوں، سفارشوں اور نیتاؤں کی چاپلوسیوں کے بعد اگر ان میں سے کوئی ادارہ مل جاتا ہے تو انہیں اپنی بادشاہت کا احساس ہوتا ہے ،زمین پر پاؤں نہیں پڑتے اورقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،کا ڈائرکٹر بننا تو گویا شہنشاہ بننے جیسا ہے۔ اس کا بجٹ دیگر اداروں کے مقابلے زیادہ ہے اور خردبرد کے راستے بھی کم نہیں ہیں۔ ڈائرکٹر بنتے ہی لوگ اپنے رشتہ داروں، چمچوں اورحاشیہ نشینوں کو نہ صرف جاب دیتے ہیں بلکہ مختلف کمیٹیوں میں بھی بھر دیتے ہیں، خواہ وہ اس کے لئے کتنے ہی نالائق کیوں نہ ہوں۔ حمیداللہ بٹ کے بعد این سی پی یو ایل کے جتنے بھی ڈائرکٹرآئے، وہ دہلی یونیورسٹی یا جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اردو ڈپارٹمنٹ سے تھے اور اس وقت بھی جو لوگ ڈائرکٹر بننے کے لئے کوشاں ہیں، ان میں بیشترانہیںاداروں سے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ جو لوگ پہلے ہی سے روزگار سے لگے ہوئے ہیں، انہیں’ ’دوہرا روزگار‘‘ کیوں دیا جاتا ہے؟ آج لاکھوں کی تعداد میں لوگ اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بے روزگار ہیں، انہیں کیوں نہیں ڈائرکٹر بنایا جاتا؟ اس سوال کا جواب بھی سادہ ہے کہ اردو اداروں پر ’’اردو مافیا‘ ‘ کا قبضہ ہے اور حکومت بھی اسی طبقے کی جانب توجہ دیتی ہے۔ حالانکہ جب کسی یونیورسٹی یا کالج کا کوئی اُستاد،غیرحاضر ہوتا ہے تو طلبہ کا نقصان ہوتا ہے اور اس کی بھرپائی کہیں سے نہیں ہوسکتی۔دوسری طرف دو، دو اداروں میں اپنی دخل اندازی کر نے والے لوگ دو نوں ہاتھوں سے لڈو اُڑاتے ہیں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے مگر وہ ان دونوں میں سے کسی بھی ادارے کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتے۔ اس اہم مسئلے کی جانب کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔
اردو اداروں پر قابض ’’اردو مافیا‘‘کس طرح سے ان اداروں میں اردو کے نام پرتباہی مچاتا ہے اور اہل اردو کے حق کو مارتا ہے، اس کا اندازہ مجھے گزشتہ دنوں تب ہوا،جب میرے ایک پروجیکٹ کو فروغ اردوزبان کے لئے مخصوص ایک ادارے نے مسترد کردیا اور پھر میں نے آر ٹی آئی کے تحت اس بارے میں کچھ معلومات نکالیں۔ میرے پروجیکٹ کا موضوع تھا ’’اردو شاعری میں ہندوفکر وثقافت‘‘۔ کسی بھی اردو والے کے لئے یہ دلچسپ موضوع ہوسکتا ہے، مگر اسے گرانٹ کے لئے منظور نہیں کیا گیا۔ میرا پروجیکٹ، جن اکسپرٹ صاحب کو دیا گیا، ان کا نام آر ٹی آئی سے ملی معلومات کے مطابق ایک آیورویدک ویونانی کالج میں لکچرر ہیںاور اُردو کے نہیں میڈیکل کے اکسپرٹ ہیں۔ان صاحب کے بارے میں آرٹی آئی میں جو معلومات فراہم کی گئی ، اس کے مطابق آنجناب نے اپنی پوری زندگی میں اردولٹریچر پر محض8؍عدد آرٹیکل لکھے ہیں۔ این سی پی یو ایل کا معیار یہ ہے کہ اگر شمس الرحمٰن فاروقی اور گوپی چند نارنگ جیسے اہل اردو کی کتابیں بھی یہاں پہنچیں توانہیں’’ غوروفکر‘‘ کے لئے غیر متعلقہ لوگوں کے پاس ہی بھیجا جائے گا۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہاں اردو کے فروغ کے نام پر کیا کام ہورہا ہے۔ اردو زبان کا فروغ کیوں تھم سا گیا ہے ؟ اس قسم کے سوالوں پر غور کرتے ہوئے، ہم اردو اداروں کے بارے میں بھول ہی جاتے ہیں، جہاں ایسے لوگوں کا قبضہ ہے جن کے اپنے بچے بھی اردو لکھنے، پڑھنے سے نابلد ہیں۔یہ اردو کے نام پر کمائی کرنے والے خود اپنے بچوں کو اردو لکھنا پڑھنا نہیں سکھاتے۔گزشتہ دنوں این سی پی یو ایل نے اردو کے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں وغیرہ کو انعامات دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔حالانکہ یہ ادارہ وہی کام ٹھیک سے نہیں کرپارہا ہے جو اس کے ذمہ ہے۔ ویسے انعام دینے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ سب جانتے ہیں۔ آج تک شاید ہی کسی اردو ادارے نے کسی مستحق کو ایوارڈ دیاہو۔یہاں بڑے پیمانے پر’’ میچ فکسنگ‘‘ کا کھیل چلتا ہے۔ کرکٹر ہوتے تو پکڑے جاتے مگر یہ تو زبان کے نام پر ہیراپھیری کرنے والے گھاگ لوگ ہیں جن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔کچھ ایوارڈس عہدیداران کے قریبی لوگوں کو جاتے ہیں اور کچھ فیصلہ کرنے والی کمیٹی کے لوگ اپنے چہیتوں کو دلاتے ہیں۔؟ کاش جو پیسہ ایوارڈ کے نام پر لٹائے جانے کا پروگرام ہے، اسے اُردوخواندگی سنٹر کھولنے پر خرچ کیا جاتا یا جو اسکول اُردو پڑھانا چاہتے ہیں، انھیں اردو کے ٹیچر فراہم کرنے پر صرف کیا جاتا۔’’اردو مافیا‘‘ صرف این سی پی یو ایل تک محدود نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں ’’کمائی ‘‘کے امکانات ہیں، وہاں وہاں پہنچا ہوا ہے۔ ملک بھر کی اردو اکیڈمیوں کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں کی حالت بھی کچھ ایسی ہے۔ اردو کے وہ بہت سے باصلاحیت لوگ جو ٹیچر بننے کی چاہت میں عمریں گنوا چکے ہیں، یا پرچون دکانیں کھولے کر اپنی محبت ِاردو پر پچھتا رہے ہیں، جب کہ اردو شعبوں میں تقرر انہیں لوگوں کا ہوتا ہے جن کے چاچے، مامے پہلے سے یہاں موجود ہوتے ہیں۔گزشہ دنوں دلی کے پروفیسر صاحب مہاراشٹر کی ایک یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں تقرر کیلئے انٹرویو لینے گئے اور اپنے بھانجے کو ہی لکچرر بنا کر چلے آئے۔ سوال یہ ہے کہ جو ادارے اردو کے نام پر چل رہے ہیں، جب وہاں، باصلاحیت لوگوں کو نوکریاں نہیں ملیں گی، ایوارڈ فنکشن بھی فکسڈ ہوں،حقدار مصنفوں، شاعروں، قلمکاروں کو گرانٹ دینے کے بجائے حاشیہ نشینوں،بھانڈوں اور اردو کی چمیلی جانوں پر ’’ فروغ اردو‘‘ کے لئے مختص رقوم خرچ کی جائیں گی تو زبان کیا خاک ترقی کرے ؟ ۔