انسانوں کو توڑنے اور جوڑنے کے عمل میں مذہب کے بعد سب سے اہم کردار زبان کا ہوتا ہے۔زبانیں مذہب کے نہیں بلکہ سماج روابط کے بطن سے جنم پاتی ہیںاور اس سماج میں رہنے والے انسان غیر شعوری طور پر خون جگر سے ان کی پرورش کرتے ہیں ۔ہندوستان میں مختلف زبانوں اور متعدد تہذیبوں کا سنگم پایاجاتا ہے ۔ان تمام زبانوں میں بغیر اُردو کوئی زبان ایسی نہیںجو پورے ملک میں عوامی رابطے کی زبان کہلانے کی حق دار ہو۔ اس لئے اُردو کا کوئی اپنا کوئی خاص کلچر نہیں بلکہ مختلف کلچر اس میں جذب ہیں ۔اُردو زبان پورے ہندوستان کے اندربیرون ملک اپنے ملے جلے کلچر کی ترجمانی کرتی ہے ؎
مرزاداغ دہلوی ؔنے کیا خوب کہا تھا
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ساری دنیا میں دھوم ہماری زبان کی ہے
مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد کے ساتھ ہی اس رابطے کی شریں و رسیلی زبان نے جنم لیا ہے ۔ گو کہ ان کی زبانیں مختلف تھیں مثلاََ عربی ،تُرکی، فارسی وغیرہ مگر فاتح کے لئے یہ ضروری بنتا ہے کہ وہ مفتوح کی زبان بھی جان لے ۔بس ان فاتحین کی زبانوں اور مفتوح اقوام کی زبانوں اور بو لیوں کے گٹھ جوڑ سے ایک نئی زبان وجود میں آئی جسے ’’اُردو ‘‘ نام دیا گیا ۔دور جدید میں بولی جانی والی اردو زبان مختلف مراحل طے کر کے عام لوگوں کی زبان بن گئی ہے ۔
انگریز آ ئے تو ان ظالموں نے ہندوستانیوں کو اپنانے کے لئے ان کی زبان انگر یزی سیکھنا لازمی قرار دیا۔اس سلسلے میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج نامی ایک ادارہ قائم کیا گیاجس میں انگریز ملازمین کے لئے اردو زبان سیکھنے سکھانے کا بندوبست کیا گیا۔ اس طرح یہ زبان عوام کی زبان بن گئی اور فاتحین آسانی سے عوام کے ساتھ رابط کر سکے ۔یہ سلسلہ جاری رہا جب تک ہندوستان آزاد ہوا ۔انگریزوں نے اس دوران اپنی زبان کو عوام تک پہنچانے کا بہت سارا کام کر لیا تھا۔جو لوگ انگریزی زبان کے متلاشی اور شیدائی بن بیٹھے ،انہوں نے دوسرے لوگوں کو یہ بیرونی زبان سیکھنے پر آمادہ کیا۔خیر کوئی زبان سیکھنے میں قباحت نہیں ہے ،البتہ اگر کسی قوم یا سماج کی زبان کو دبایا جائے ،یا اسے ختم ہی کیا جائے تو یہ قوم کے لئے سب بڑا المیہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ ا س سے اس قوم کی شناخت بھی مٹ کر رہ جاتی ہے ۔
اردو زبان کے فروغ وترویج کے لئے بے شمار لوگ سامنے آئے اور اس زبان کی دیکھ ریکھ اور پرداخت کے لئے بہت ساری مفید کوششیں کیں ۔ بہرحال آفاقی اصول یہ ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ۔ وقت آیا اورہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انگریز خوش ہو گئے ،وہ خود نکل بھاگے مگر یہاں ایسے مسائل کا دلدل عوام کے لئے ورثے کے طور چھوڑ گئے جو اُسی تعصب اورنفرت سے پلتے اور جلّا پاتے ہیں جو انگریزوں کے پیداکئے ہوئے ہیں ۔آزادی کے فوراََ بعد جنونی بلوائیوںنے مختلف قسم کے حربے استعمال کئے ،کبھی ہندومسلم فسادات کروائے ، کبھی لسانی تنازعات کو ہوادی ، کبھی مذہب اور ملت کے نام پر دھبے لگانے کی کوشش کی۔ اردو زبان کے نام پر بھی فسادات برپا کروا گئے ۔کچھ لوگ اسے ہند ستانی کہنے لگے،کچھ غیروں کی زبان پکارنے لگے۔غرض زبانوں کے فسادات میں نہ جانے کتنا تشدد ڈھایا گیا۔کئی شدت پسند اردو کو مسلمانوں کی زبان گردان کر اس کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑگئے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بہ حیثیت مجموعی دیکھا جائے تو ہندی اور اردو دونوں زبانیں ایک ہی دریاکی دو دھاریں ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ اردو کی ترویج اور نشر و اشاعت میں مسلمان علما و ادبا ء کے ساتھ ساتھ غیر معمولی اور اہم غیر مسلم ادبی وعلمی شخصیات کا بھی ایک اہم رول رہا ہے اور اب بھی ہے۔دور جدید میں بھی کئی نامور غیرمسلم حضرات اردو زبان کو سنبھالنے اور سنوارنے میں پیش پیش ہیں، ان کی اُردو زبان کو پھلنے پھولنے میں بڑارول ہے ۔ غرض اردو زبان صرف مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کی بھی چہیتی زبان ہے۔ ویسے بھی زبان اور علم کسی کی نجی میراث نہیں ہوتی۔ اُردو میں وہ سرمایہ موجود ہے جو بے مثال ہے اور اس زبان سے نہ معلوم کتنے بے شمار علما ء اور دانشوروں نے استفادہ کیا۔اردو زبان کی ترقی اور عروج کے لئے موجود ہ دور میں بہت کچھ کام ہو رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کو ہندوستان میںدوسری بڑی زبان قرار دیا گیا ہے۔مختلف ینورسٹیوں اور کالجوں میں اس زبان کی درس و تدریس جاری و ساری ہے ۔کئی یونیورسٹیاں صرف اُردو زبان کو ترقی و ترویج اور نشر و اشاعت ہی کے لئے مخصوص ہیں ،جن سے ہزاروں طلبہ و طلات مُستفید ہو رہے ہیں۔
جموں و کشمیر کی ریاست اُردو زبان اس ریاست کی سرکاری زبان قرار دی گئی ہے ۔اس لحاظ سے یہ زبان عام و خاص کی زبان ہونے کافخر رکھتی ہے ۔ایک طرف سے ارباب ِاقتدار اس سرکاری زبان کو ترقی دینے اور پھیلانے کے دعوے رکھتے ہیں ، دوسری طرف عملی طور اس کی راہ میں مشکلات اور رکاوٹوں کی دیواریں حائل کی جا رہی ہیں۔زبان خواہ کوئی بھی ہو وہ پوری بنی نوع انسان کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہے لیکن جب زبان کو بعض مخصوص مذہبی فرقوں سے منسلک کرنے کا غیر عقلی راستہ اختیار کیا جا ئے توانسانوں کے درمیان اختلافات پھوٹتے ہیں ۔حروف چاہیے کسی بھی زبان کے ہوں، بے جان ہوتے ہیں ، جن کی روح وہ خیالات ہوتے ہیں ،جن کا اظہار مختلف علمی پیرائیوں میں کیا جاتا ہے ۔خیالات کے اچھے یا برے ہونے سے کوئی زبان اچھی یا بُری نہیں ہوتی ہے ،جس زبان میں ہم ایک دوسرے کو کوس بھی لیتے ہیں اُسی زبان میں دُعائیں بھی دے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کے صد سالہ تہذیبی اثاثہ کے علاوہ اردو زبان میں مسلمانوں کے مذہبی لٹریچر کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔اس لحاظ سے مسلمانوں کو اس زبان سے جذباتی تعلق اور لگاؤ ہے ،حتیٰ کہ اردو زبان میں اسلام کے خلاف بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا بھی جاتا ہے۔
ملک ہند کی جنگ آزادی میں اردو زبان کے علاوہ ملک کی کوئی بھی زبان مقابلے میں سر اُٹھاکر ٹھہر نہ سکی، حُب الوطنی کے جذبات کا جس طرح اور جس قدر اظہار اردو میں کیا گیا اور کیا جا رہا ہے، اس کے مقابلے میں دوسری زبانوں کا رول نہ ہونے کے برابر ہے۔غدر کے ما بعد پہلی بار جس چیز نے ہندوستانی سماج میں فرقہ پرستی کا زہر گھول دیا ،وہ مروجہ زبان اردو کو ختم کر دینے کا رُجحان تھا ۔ہندوستان میں جہاں فرقہ وارانہ فسادات ہر منزل پر اپنے نئے رُخ سامنے لاتے رہے ،مختلف بہانوں سے اُسے بڑھاوا دیا جاتا رہاہے ۔بد قسمتی سے اردو زبان لسانی فسادات کا شکار ہوتی رہی ہے اور ہو بھی رہی ہے، حالانکہ اُردو نے ہر کسی مذہب ،فرقے اور طبقے کی تر جمانی کھلے دل سے کی مگر پھر بھی چند شر پسند لوگ اردو زبان سے بے زار ومتنفرہیں۔اس میں شک نہیں کہ اردو زبان کی ترویج و اشاعت کی ہزاروں کوششیں کی جا رہی ہیں مگر ان کاوشوں کو اردو دشمن بار آور نہیں ہونے دیتے ہیں۔ہمارے ریاستی آئین کی رُو سے اُردو زبان یہاں کی سرکاری زبان ہے ۔ اس کے باوجود ریاست میں عملی طور اردو زبان لسانی نقشے سے مٹائی جارہی ہے۔ سرکاری اداروں میں اگر چلن ہے تو بس انگریزی کا ہی ہے۔محکمہ مال کو دیکھ لیجئے،پٹواریوں کے بغیر کوئی بھی سرکاری اہل کار چاہے وہ آفیسر ہویا کہ کلرک ، اُردو زبان کا استعمال کرنا باعث ہتک سمجھتاہے۔دوسری بات یہ ہے کہ محکمہ مال میں بھرتی کرتے وقت اردو زبان کو اگر لازمی قرار دیا گیا ہوتاتو اُردو سے خدا واسطے بے رُخی نہیں برت لی جاتی ۔پولیس ڈپارٹمنٹ میںپولیس منشیوں کے بغیر کوئی بھی سرکاری اہل کار اردو میں لکھنا گوارا نہیں کرتا۔عدالتوں میں اگر چہ عرائض نویس اردو میں لکھا کرتے تھے ،انہوں نے اب اُردو میں لکھنا ترک کیا ہواہے اور اگر کوئی کوئی لکھتا بھی ہے تو وہ تحریر عام تعلیم یافتہ پڑ ھ بھی نہیں سکتے۔غرض ایسی بیسوں مثالیں دی جا سکتی ہیں جن سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اُردوزبان کے ساتھ بیر رکھنے والے غیر شعوری اور شعوری طور پر اس زبان کے تئیں اپنی بیزاری اور بے رُخی کا مظاہرہ اُس ریاست میں کرتے جارہے ہیںجہاں یہ سرکاری زبان ہونے کا درجہ رکھتی ہے ۔
تعلیمی اداروں میں خاص کر پرائیو ٹ تعلیمی اداروں میں تمام مضامین پڑئے جاتے ہیں مگر اردو کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جات ی بلکہ یہ تک سناجاتاہے کہ کئی پرائیو ٹ تعلیمی اداروں میں اردو پڑھانے والے بعض اساتذہ میٹرک کے بچوں کو یہ کہتے ہیں کہ بچو! آ پ کو اردو کا امتحان پاس کرنا ہے پھر اس مضمون کو کیا کرنا ہے؟جب اردو پڑھانے والے اساتذہ کی ہی ایسی گھٹیا سوچ ہو تو پھر دوسرے اردو دشمن لوگوں سے کیا گلہ؟ کئی تعلیمی اداروں میں اسکول احاطے کے اندر داخل ہوتے ہی نوشتۂ دیوار طلبہ و طالبات کو بتاتے ہیں۔
''It is mandatory for all the students and for the teaching staff to talk in english only ''
اس کا مطلب ہے کہ ادارے کے اندر جو بھی بچہ داخل ہو گا، اُ س کے لئے انگریزی زبان میں بولنا لازمی ہے۔اردو یا اپنی مادری زبان میں بولنے پر پابندی عائد کی جاتی ہے ۔ جب حالات ایسے ناموافق ہوں تو کیا اسے اردو زبان کیا خاک پھبے گی؟ان تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اردو زبان کے بارے میں عدم تحفظ کا احساس ضرور ہو جاتا ہے مگر گزارش یہ ہے کہ اپنی جڑوں سے پیوست رہنے کے لئے خدارا زبان اردو کو پامال کرنے کے در پے مت رہئے اور اسے ترقی اور بڑھاوا دیجئے تاکہ ہمارا جو علمی سرمایہ ہمارے پاس صدیوں سے ا س زبان میں موجود ہے ،وہ محفوظ و قائم رہے۔ آخر پر راقم اُردو دان طبقہ سے گزارش ہے کہ اپنی لسانی شناخت اور اپنے علمی سرمایہ کو ناموافق حالات اور تعصب کی آندھیوں میں ہر طرح سے محفوظ و ما مون رکھنے کی ہر ممکن کوشش کیجئے ،دوسری زبانیں بھی سیکھئے، ان کو بھی آگے لیے جایئے تاکہ اردو کے علمی خز ینے اور سرمایے خود اپنے ہی ہاتھوں ضائع نہ ہو جائے۔
فون نمبر:9469447331