مرتب:سلیم سالکؔ
صفحات:320 ،قیمت:450 ،سنہ اشاعت:2017
ناشر :ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس ،دہلی
فکشن، تنقید و تجزیہ سے متعلق شائع ہونے والی کتابوں کے پیش نظر معاصر عہد کواگر ’’فکشن تنقید یا تجزیئے‘‘ کا دور کہا جائے تو شاید بے جانہ ہوگا۔زیر تبصرہ کتاب’’اردو افسانہ ۔مزاج ومنہاج‘‘کے مرتب جناب سلیم سالک ؔہیں۔ کتاب کاا نتساب جموں اینڈ کشمیر فکشن رائٹرس گلڈ کے نام ہے۔ کتاب بنیادی طور پر اُن مذاکروں کا مجموعہ ہے جو اردو افسانہ و افسانہ نگاروں پر تحریرکئے گئے ہیں۔اگر یہ تحریریں مختلف ادوار میں سامنے آئی ہیں لیکن اس کے باوجود ان مضامین میں معنوی ربط اس طور پر موجود ہے کہ یہ سبھی مضامین افسانے سے متعلق ہیں۔ کتاب تیرہ ابواب پر مشتمل ہے۔پہلا باب’’اردو افسانے میں روایت اور تجربے‘‘ پر مشتمل ہے، جس میں مرتب نے ابتدائی دور کے افسانوں کی صورت حال کو موضوع بحث بناتے ہوئے اسی کے تناظر میں افسانہ نگاروں کا تجزیہ کیا ہے۔
’’اردو افسانہ ۔کل آج اور کل‘‘ میں انھوں نے ڈاکٹر محمد حسن ،ڈاکٹر وزیر آغا،جوگندر پال،سہیل عظیم ،آبادی رتن سنگھ ،شکیلہ اختر ،کلام حیدری ،رشید امجد، بلراج کومل ،کوثر چاند پوری ،ہر چرن چاولہ اور اکرم جاوید غیرہ کی افسانوں بصیرت کو نشان زد کرنے کی کوشش کی ہیں۔افسانے کے حوالے سے اس باب میں اردو افسانے کی تشکیل سے تعمیر تک،اظہا ر اور اسلوب کے تجربے اور فن افسانہ نگاری پر مدلل بحث کی گئی ہے اور منٹو،بیدی،حیات اللہ انصاری،کرشن چندر،قرۃ العین حیدر،عصمت چغتائی،رام لال ،رتن سنگھ جیسے اردو کے قد آور افسانہ نگاروںکی کچھ منتخب کہانیوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
’’اردو افسانہ ۔۔منظر وپس منظر‘‘ایک سوا ل سے شروع ہونے والا باب ہے۔سوال اس طرح کا ہے کہ’’اصغر ندیم:احمد ندیم قاسمی صاحب آپ سے ایک سوال کی اجازت چاہوں گاکہ ترقی پسند تریک نے بلاشبہ افسانے میں سماجی تضادات اور انسانی الجھنوں کی مختلف جہتوں کو حقیقت پسندی سے پیش کیا،اس کے باوجود ترقی پسند افسانہ نگاروں پر بے شمار اعتراضات ہوئے ۔ان کی نوعیت کیا تھی اور اس میں کتنی حقیقت تھی؟‘‘(ص۔110)۔میں نہیں سمجھ سکا کہ موجودہ فکری منظرنامے میں اس سوال کا جواز کیا ہے؟لیکن ایک خاص وقت میں یہ بحث معنی رکھتی تھی۔یہ باب اردو افسانہ نگاری کے فکر وفن کو مثبت پیرائے میں نشان زد کرتا ہے۔’’اردو افسانہ ۔۔خلط مبحث‘‘میں انھوں نے انتظار حسین کے فکری سروکار کو موضوع بناتے ہوئے’’realism اورsymbolism جیسے تناظرات کی روشنی میں اس کا تجزیہ کیا ہے۔یہ باب اپنے تنقیدی سیاق میں ایک حد تک کامیاب ہے اور سنجیدہ مطالعے کا نقش پیش کرتا ہے۔اسی طرح ’’اردو افسانے کی صورت حال‘‘ میںبلراج مین را،مہدی جعفر ،دیوانند ،ابرار رحمانی اور محمد کاظم جیسے فکشن نگاروں نے معاصر افسانہ نگاری کا تجزیہ بڑی بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہیں۔انھوں نے افسانے کے روایتی اسلوب اور ساخت کو بڑی حد تک منہدم کیا ہے۔بقول محمد کاظم:’’نئی نسل کو اگر کچھ کرنا ہے ادب کے میدان میں تو بلراج مین را صاحب اوردیو نیدراسر صاحب جیسے ادیب موجود ہیں۔ان سے ہمیںاستفادہ کرنا چاہے۔(ص۔۔164 )
کتاب میں شامل دوسرے ابواب کے عنوانات اس طر ح ہیں:ا’’ردو افسانے میں انحراف کی ٹیڑھی لکیر،نیا اردو افسانہ اور علامت،اردو افسانہ ۔۔1960 کے بعد،1970 کے بعد نیا افسانہ،اردو کہانی کا زوال،عصری افسانہ ۔۔۔تنقیدی تناظر میں،اردو افسانہ ۔۔بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ،اردو افسانے کے چند مسائل ‘‘۔اشاعتی نقطہ نظر سے ،ان عنوانات کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس مفید تر کتاب میں کن کن موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے اور افسانہ نگاروں کے لئے یہ موضوعات کس قدر اہم ہیں۔کتاب کے ایک باب ’’اردو افسانہ ۔۔1960 کے بعد‘‘ میںاُس دور میں لکھئے گئے افسانوں کے اثرات کا جائزہ اختصار اور جامعیت کی ایک بہترین مثال ہے۔اسی طرح ’’1970 کے بعد نیا افسانہ‘‘
میں جدیدیت کے اثرات اور اس کے نتائج زیر بحث آئے ہیں۔یہی وہ عہد ہے جب انگریزی زبان وادب سے بالواسطہ اور براہ راست بھی اخذ و استفادے کی راہیں ہموار ہوئیں اور اردو افسانہ بیش بہا ادبی سر مایے سے مالا مال ہواانسانی زندگی مختلف مسائل سے عبارت ہے۔اس میں پیار،محبت، نفرت،رشتے،اور بنتے بگڑتے ماحول کی کرشمہ سازیاں،رشوت ،لوٹ کھسوٹ ،دھوکا دھڑی ،ہوس وغیرہ ان گنت موضوعات کو انھوں نے اپنی تحریر کا جامہ پہنایا کر اردو افسانے میں اضافہ کیا ۔ان تمام موضوعات کو’’ اردو افسانہ ۔۔بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ‘‘میں بڑی فنکارنہ مہارت سے پیش کیا گیا ہیں۔
مواد ،عنوانات و ہیت کے اعتبار سے اس مبسوط اور جامع کتاب پر مرتب مستحق مبارکباد ہیں۔اس سلسلہ کی تکمیل کے بعد اردو فکشن کے طلبہ ،ریسرچ اسکا لرس اور اساتذہ آسودگی محسوس کرینگے کیونکہ انہیں وہ گنج گرانما یہ حاصل ہو جائے گا جو ہمارے کاروان تحقیق کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرتا رہے گا اور بنیادی مآخذ کے طور پر کام آتا رہے گا۔کتابت و طباعت شاندار ،کاغذ معیاری نیز ٹائٹل دیدہ زیب و معنی خیز ہے۔امید ہے اہل ذوق اس کاوش کی خاطر خواہ پذیر ائی کریں گے۔
رابطہ؛رعناواری سرنگر، موبائل نمبر؛9697330636