مولانا طارق حمید شاہ
’’اردو زبان برصغیر کی وہ دلکش پہچان ہے جو صدیوں کی تہذیبی آمیزش اور مختلف قوموں و مذاہب کے میل جول سے وجود میں آئی۔ یہ نہ صرف ایک زبان ہے بلکہ ایک تہذیبی ورثہ، ایک عوامی رشتہ اور ایک ہمہ گیر شناخت ہے جو آج بھی کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہے۔‘‘اردو زبان کی تاریخ دراصل برصغیر کی تاریخ ہے۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد جب عربی، فارسی اور ترکی زبانیں یہاں کی مقامی بولیوں سے ملیں تو ایک نئے لسانی انقلاب نے جنم لیا۔ دہلی اور اس کے اطراف میں بولی جانے والی کھڑی بولی میں عربی و فارسی الفاظ داخل ہوئے اور ایک نئی زبان کی بنیاد پڑی جسے ابتدا میں ’’ہندوستانی‘‘ کہا گیا۔ یہی زبان آگے چل کر دو الگ راستوں پر گئی ، ایک طرف ہندی اور دوسری طرف اردو۔
اردو نے فارسی رسم الخط اور عربی و فارسی ذخیرہ الفاظ کو اپنایا، مگر اپنی بنیاد کھڑی بولی پر ہی رکھی۔ یوں یہ ایک ایسی زبان بنی جو نہ صرف سننے میں دلنشین ہے بلکہ پڑھنے اور لکھنے میں بھی آسان ہے۔ اردو کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے سب زبانوں کے الفاظ کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا۔ انگریزی کا School اردو میں ’’اسکول‘‘ اور ہندی کا پریم اردو میں ’’پَریم‘‘ بن گیا۔
اردو کے قواعد زیادہ تر ہند آریائی زبانوں سے ملتے ہیں مگر اس میں فارسی و ترکی کی لطافت اور عربی کی معنوی گہرائی بھی شامل ہے۔ اسی لیے اسے ڈاکٹر عبد الحق نے ’’مخلوط اور جمہوری زبان‘‘ کہا۔ اردو کی اضافت بھی منفرد ہے۔کہیں کا، کی، کے، کے ساتھ اور کہیں را، ری، رے، کے ذریعے۔ یہی لچک اسے ایک ہمہ گیر زبان بناتی ہے۔
اردو کا رسم الخط نہ صرف دیدہ زیب ہے بلکہ اپنی وسعت اور جامعیت کے اعتبار سے برصغیر کی تمام زبانوں میں ممتاز ہے۔ یہ رسم الخط ہر آواز کو پوری طرح ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عربی کے حروف، فارسی کی نزاکت اور ہندی کے صوتی امکانات سب اس میں سمٹ آتے ہیں۔
اردو کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ یہ صرف ایک زبان نہیں رہی بلکہ ایک تہذیبی رشتہ بن گئی۔ بازار ہو یا دربار، مسجد ہو یا مندر، صوفی کی خانقاہ ہو یا ادیب کی محفل، اردو نے سب کو قریب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ زبان کسی ایک قوم کی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی مشترکہ زبان بن گئی۔آج بھی اردو نہ صرف ادب، شاعری اور صحافت میں زندہ ہے بلکہ فلم، ریڈیو، ٹی وی اور جدید میڈیا میں بھی اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ غزل کے نغمے، ناول کی کہانیاں، ڈرامے کے مکالمے اور اخبارات کی شہ سرخیاں — سب میں اردو اپنی مٹھاس اور روانی کے ساتھ موجود ہے۔اردو کی لسانی انفرادیت اس کی ہمہ گیری، دلکشی اور جذب کرنے کی صلاحیت میں ہے۔ یہی زبان ہے جس نے سات سو برس سے مختلف قوموں کے دلوں کو جوڑا ہے۔ یہ زبان آج بھی برصغیر کی تہذیبی شناخت اور عوامی محبت کی زندہ علامت ہے۔