حمیرا فاروق۔ آونیرہ
زندگی کے سفر میں دلوں کی زمینوں کو پرکھنا لازمی ہے تب جاکے انسان اس سفر سے مستفید اور صحیح چیز کا انتخاب کر سکتا ہے ۔ سفر جتنا طویل ہو تو راستے میں اتنے ہی دوست مل جائیں گے اور روز مرہ کے واسطے سے ہر ایک کی حقیقت اور ظرف ظاہر ہوتا ہے ۔ یوں اگر دیکھا جائے تو انسان ضرورتوں کا مجموعہ ہے، اسکو زندگی میں وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی چیز کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ کبھی غم و پریشانی کی حالت میں دوستوں کے سہارے کی ضرورت تو کبھی کسی اور چیز کے لیے محتاج رہتا ہے۔ لیکن انسان کو ہمیشہ خالق سے لے کر اسکی مخلوق تک کا ہر احسان یاد رکھنا چاہیے۔ اگر غم میں کوئی اسکا غمگسار بن جاتا ہے تو جب اس بندے کی باری آئے تو اسوقت اسکو تن تنہا نہ چھوڑیں بلکہ ایک درمندانہ مندانہ دل کے ساتھ اس کے غم کامداوا کرےنہ کہ جانوروں کی طرح اپنے مطلب تک محدور رہے۔ ہر گھڑی باقی معاملات کو چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ انسانیت پر زور دینا ضروری ہے ۔
دنیا میں آج تک کوئی ہستی پیدا ہی نہیں ہوئی، جسکے دل کے سارے ارمان و تمنا پوری ہوئے ہو، ہر کسی کی کوئی نہ کوئی خواہش ادھوری رہتی ہے، جسکی بنا پر کچھ لوگوں کو عمر بھر اس چیز کے نہ ملنے پر حسرت رہتی ہے ۔ لیکن حقیقتاً انسان وہی ہے جو زندگی کو مختصر کرکے جی لیں، جو ملے تو اس پر شکر ادا کریں، نہ ملے تو صبر و تحمل سے کام لے کر اللہ تعالیٰ سےاُس سے بہتر کی امید رکھیں کیونکہ حق تعالیٰ کبھی کسی کو بھی ناامید نہیں کرتا ۔ کسی حادثے کے آنے پر زیست کو نہ روکے رکھیں بلکہ آگے بڑھنے کی کوشش کریں، چاہے دنیا اُسے کیا کچھ نہ کہے۔ کیونکہ دنیا نے تو پیغمبروں کو نہیں بخشا، اُن پہ پتھر برسائے گئے اور شب وستم ڈھائے گئے۔
انسان جب حقوق اللہ اور حقوق العباد کے فرائض صحیح طریقے سے انجام دے گا تو پھر دنیا کی پرواہ کرنا چھوڑ دینی چاہیے ۔دنیا کسی پہ پھول نہیں برساتی ،بس انسان معاملات میں صحیح ہونا چاہیے اور اللہ کا دوست بن کے رہنا چاہئے، کیونکہ اللہ ہی وہ واحد سہارا اور مخلص دوست ہے جو کبھی دغا نہیں کرتا ۔ اس سے دوستی ہوجائے تو زندگی کے سارے ارمان اگر پورے نہ بھی ہوں، تب بھی انسان سکون و اطمینان میں رہتا ہے،پھر ایسے معجزے انسان کی زندگی میں رونما ہونے لگتے ہیں جیسا کوئی خواب بے تعبیر بہت مدت بعد پورا ہوا ہوتا ہے ۔ انسان زندگی کے مصائب ،درد و غم سے عاری ہوکر اس ذات کی عشق میں اتنا گم ہوجاتا کہ اسکو ہر سفر میں ایک نیا اور انوکھا راستہ نکل آتا ہے ۔ ایک دن کی محبت اور دکھاوے کا اپنا پن اور خود کو محظوظ کرنے والے لوگوں سے پناہ مانگ کر تمام معاملات بَس اُسی ذاتِ پاک کے سپرد کرنے چاہیے۔ تب جاکے انسان ایک مضبوط چٹان کی طرح بن کر زندگی کے سارے جنگ لڑ سکتا ہے ۔ وہ اِس فانیٔ دنیا سے دور رہ کر حقیقت کا طالب بن کر حق کا مطلوب ہوجاتا ہے ۔ واقعی انسان جب حقیقت کو سمجھ پاتا ہےتو وہ راحت و اطمینان میں آجاتا ہےاوراُسکا کوئی سفر نامکمل نہیں رہتا ، اللہ تعالیٰ کی واحد ذات اسکےاُدھورے سفر کواپنے رحم و کرم سے مکمل کر دیتا ہے ۔
جب ایک انسان انتہائی گہرائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر چیز پر طائرانہ نظر ڈالتا ہےاور اُس پر غور فکر کرتا ہےتو اُس کے لئے پانی کے ایک قطرے میں سمندر نکل آتا ہے ۔ یہ چیز اسکی کھوئی ہوئی زندگی کا ایک ایک رُخ بدل دیتی ہے ۔ خاص طور سے جب انسان کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کرتا ہے تو اللہ کی قدرت کا پتہ چلتا ہے۔ واقعی کہ ہر ایک چیز میں دوسرا چیز مستور ہیں ۔
انسان زندگی میں جب بھی کسی کام کا مصمم ارادہ کرتا ہے توپھر اُس پہ ثابت قدم رہنا بھی لازم ہوتا ہے۔جب وہ ہمت و استقلال آگےبڑھتا ہےتو راستے میں اُسےجتنے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے، وہ ایک چٹان کی طرح تمام رُکاوٹوںکا مقابلہ کرنے کے لیے تیارہوتا ہے۔ اسوقت انسان نہ کبھی اپنے ماضی کو یاد کرکے غمزدہ ہوجاتا ہے اور نہ اُنہیںیاد کرکے وقت ضائع کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ یادوں میں کھو جانے اور بے جا وقت کو ضائع کرنے سے انسان ذہنی طور پر بھی بگڑ جاتا ہے،جس بُرے نتائج اسکے مستقبل پر ضرورپڑتے ہیں،نیز زندگی کی خوشیوں کا قتل بھی ہوجاتا ہے۔ دنیا میں انسان اگر کچھ کرنا چاہے ، دنیا میں اپنا نام زندہ رکھنا چاہتا ہےاور دنیا کو کچھ دنیا چاہتا ہے، تو اسے محض ایک شخص کی طرح نہیں بلکہ ایک شخصیت کی طرح زندگی کا سفرکرناسیکھ لینا چاہئے ۔ اُسے اپنے مقصد کے حصول کو دل میں رکھ کے پیچھے مڑکر نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ پیچھے مڑکر دیکھنے سے ارادے اور عزم میں کمزوری آتی ہے ۔مختصراً یہ کہ ایک انسان کو سارے خواب دُنیا میں پورے نہیں ہوتے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں نکالنا چاہئے،وہ اپنی کوششیں ترک کریں،بلکہ انسان کی جہاں تک حد ہو، اپنی کوشش جاری رکھنا چاہئےاور اس بات پر مکمل یقین رکھنا چاہئے کہ بہت کوششوں کے بعد بھی جو چیز اُسے حاصل نہیںہوئی ،اُس اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہوگی ،کیونکہ وہ سب کچھ جانتا ہے،جس سے انسان بے خبر ہے۔خیر!اللہ تعالی سے ہمیشہ پُر امید رہنا چاہئے اور اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنا چاہئے۔ کسی چیز کے چھوٹ جانے اتنا غم نہیں کرنا چاہئےکہ مستقبل اثر انداز ہوجائے ۔ یاد رہے ،حسین شٔے ہمیشہ باعث مسرت ہوتی ہے،اس لئے زندگی کے سفر کو حسین و جمیل بنا کر صراط مسقیم کی جانب گامزن ہو جانا چاہیے، تاکہ انسان کےابدی مقام کا سفر اُدھورا نہ رہ جائے ۔
[email protected]