سید مصطفیٰ احمد ۔ بمنہ، سرینگر
اَنّا ایک ایسا مرض ہے جو بربادی کا بنیادی سبب ہے۔ دنیا میں لگ بھگ سارے لوگ اَنّا کے پجاری اور شکار ہیں ۔ کوئی اِکا دُکا آدمی ایسے ہیں جو اپنی اَنا سے اوپر اٹھ کر جیتے ہیں لیکن وہ بھی کبھی نہ کبھی اَنّا کا شکار ضرور ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھار اَنّا سے چھٹکارا پانے کی کوششوں میں ایک انسان اس میں اور زیادہ ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ غرض ایک انسان کبھی بھی اَنا کے جال سے باہر نہیں نکل پاتا ہے۔ وہ جتنا نکلنا چاہتا ہے اتناہی پھنستا چلا جاتا ہے لیکن اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان اَنّا کا پجاری کیوں ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ اَنّا ایک مرض ہونے کے علاوہ گناہ کبیرہ بھی ہے۔ تو انسان کیوں اس کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگتا ہے اور اپنی زندگی کو تباہی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ کچھ وجوہات کا ذکر آنے والی سطور میں کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کیا کیا نقصانات ہیں، ان کا بھی اختصار کے ساتھ ذکر کیا جارہا ہے۔
پہلی وجہ ہے مال و دولت
دولت کے نشے میں چور انسان کو لگتا ہے کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں، میں اپنی دولت سے کچھ بھی خرید سکتا ہوں۔ شاندار ملبوسات، اونچی عمارتیں اور لذیذ پکوان جیسی نعمتوں سے مالا مال ایک امیر آدمی اَنّا کی غربت کا شکار ہوجاتا ہے۔ گاڑیوں کی قطار اور صحت مند جسم اس انسان کو پستی کی ڈلوان کو دیکھنے کا موقع نہیں دیتے ہیں، جس کا اثر اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کی شکل میں نکل آتا ہے۔ پیسوں کی بھرمار انسان کو ہر چیز سے بیگانہ کرتی ہے مگر اَنّا کی ہوس اس کے ساتھ پل پل رہتی ہے۔
دوسری وجہ ہے نظریاتی برتری
اس قسم کی سوچ متضاد سوچ کو تسلیم کرنے سے روکتی ہے، جس کا سیدھا اثر اس شکل میں نکل کر آتا ہے کہ اَنّا پرست انسان کے نظریات سے اختلاف رکھنے والے اشخاص کو وہ انسانیت کے دائرے سے ہی باہر کرتا ہے اور مخصوص سوچ رکھنے والا یہ انسان اَنّا کا نرم شکار ہوجاتا ہے اور اس طرح نہ تھمنے والی اَنانیت کی ایک لمبی قطار شروع ہوجاتی ہے، جس میں نظریات اَنّا کی شکل میں جیت جاتے ہیں۔
تیسری وجہ ہے مذہبی تنگ نظریہ
اس نظریہ نے بھی اَنّا کے درخت کو کافی سینچا ہے۔ ایک انسان اپنے آپ کو بڑا دیندار تصور کرتا ہے، جس سے اس کی اَنّا میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اَنّا کا مریض بن جاتا ہے۔ اس حالت میں پھر دوسرے لوگوں کی سچی اور پختہ باتیں بھی حلق سے نیچے نہیں اترتی ہیں اور آہستہ آہستہ انسان بے لگام انانیت کی خوفناک وادیوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اپنے مذہب کو صحیح لیکن دوسروں کے مذہب کو غلط ٹھہرا کر ایک انسان بھی اپنی اَنّا کا پجاری بنا جاتا ہے۔ اس کی خام خیالی یہ ہے کہ اس کو لگتا ہے کہ میرے ہی افکار اور عقائد درست ہیں۔
چوتھی وجہ ہے جہالت
اَن پڑھ لوگوں کا تو کوئی گلہ ہی نہیں ہے، ان بچاروں کا جاہل ہونا تو قدرتی بات ہیں لیکن افسوس ان لوگوں کی عقل پر ہوتا ہے جو جان کر بھی انجان بن جاتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس علم و حکمت کی نعمتیں ہوں اور پھر بھی وہ اَنّا کی دوڑ میں سرپٹ دوڑ رہے ہوں، تو ان کے علم کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ پھر سے اساتذہ کی صحبت اختیار کر لیں۔
پانچویں وجہ ہے نظام تعلیم
اگر تعلیمی نظام ایک انسان کی اندرونی زندگی میں انقلاب لانے میں ناکام ہو تو اس کا سیدھا اثر اس شکل میں نکل کر سامنے آئے گا کہ ایک انسان اَنّا کی خاردار جھاڑیوں میں پھنستا چلا جاتا ہے، جن سے دامن چھڑانا بہت مشکل ہے۔ علم کا مقصد ہے کہ انسان اپنے اندر پائے جانے والی گند سے دور رہے۔ ان خواہشات کو صحیح راستہ دکھائے جو اس کی اَنّا کو جلا بخشتے ہیں۔ ان خیالات کو مثبت رنگ دے جو اس کو ہر آن گرانے میں لگے ہیں، لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔ہمارے نظامِ تعلیم میں جو آگے بڑھنے کی دوڑ کا جنون سوار ہوگیا ہے، اس نے ہر بچے کو اَنّا کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ ہر بچہ چاہتا ہے کہ میں دوسروں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاؤں اور سب میرے اوپر تعریفوں کے پھول نچھاور کریں۔ یہ ہے اَنّا کی سب سے منحوس شکل۔ جب بچے ہی اَنا کے مریض بننے لگیں گے تو اس قوم یا ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔
اب ہم بات کرتے ہیں کہ اَنّا کے نقصانات کیا کیا ہیں۔ اس کا پہلا نقصان ہے کہ انسان انسانیت کے پائیدان سے نیچے اُتر کر جانوروں میں شمار کیا جانے لگتا ہے۔ جو انسان صرف” میں” کا عادی ہوجاتا ہے، اسے پھر اس کے سوا اور کچھ نہیں دِکھتا ہے۔ اس کے سارے حرکات و سکنات اسی میدان کے اردگرد گھومتے ہیں اور آخرکار یہی اَنّا والا ’’میں‘‘ اس کو تباہی کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔ دوسرا نقصان ہے، کھرے اور کھوٹے کی تمیز کا ختم ہونا۔ اَنّا کا مریض کبھی بھی مختلف چیزوں کے درمیان انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ جب بھی وہ اصل سچ کو سنے گا تو اس کی جھوٹی ‘’’میں‘‘ اس کو سچ کو تسلیم کرنے سے روکتی ہے۔ اس طرح یہ انسان اپنی بنائی ہوئی جھوٹی دنیا میں رہ کر خود کے لئے اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی باعث تکلیف بن جاتا ہے۔ اس کی موجودگی دوسرے انسانوں کے لئے کبھی بھی خوشی کا پیغام نہیں دیتی ہے۔ اس کے منہ سے صرف اپنی ہی تعریفیں نکلتی ہیں ۔ اس کے سامنے باقی سب انسان نما جانور ہوتے ہیں ، صرف وہ ہی عقل سے لبریز اور علم کے موتیوں کا دکاندار ہوتا ہے۔ تیسرا نقصان ہے حقیقی علم سے دوری۔ جو انسان اَنّا کا خوگر ہوگیا ،وہ کبھی بھی حقیقی علم سے روشناس نہیں ہوسکتا ہے۔ اس انسان کو صرف اپنا ہی علم مکمل اور غلطیوں سے پاک دکھائی دے گا۔ لیکن اس کا یہی نظریہ اس کی سب سے بڑی خامی ہے۔ اگر اس نے اپنے علم کا محاسبہ کیا ہوتا تو ضرور وہ اپنے علم کو کبھی بھی مکمل کھاتےمیں نہیں ڈالتا۔ لیکن اس کی شیطان جیسی اکڑ اس کو دوسروں کے علم کو نیچا دکھانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور وہ رُسوائی کا شکار ہوتا ہے۔ چوتھا نقصان ہے ،خدا کی ناراضگی۔ اللہ اَنّا پرست لوگوں سے نفرت کرتا ہے۔ اللہ کے نزدیک وہ لوگ اعلیٰ منصبوں پر فائز ہیں جو اَکڑ سے کوسوں دور مگر نرمی اور شائستگی کا مکمل پیکر ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہیں خدا کے نور سے دیکھتی ہیں۔ ان کا جینا اور مرنا اللہ کے مطابق ہی ہوتا ہے تو ان میں اکڑ اور ’’میں ‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔
ایک انسان کو چاہیے کہ وہ اَنّا پرست بننے کے بجائے انسان پرست اور خدا پرست بننے کی کوششیں کرے۔ اس فانی زندگی کا کوئی بھی بھروسہ نہیں ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہر کوئی اَنّا پرستی کو ترک کر کے عاجزی، انکساری اور ہمدردی کو اپنا شیوہ بنائے۔ دنیا کے نصف سے زیادہ الجھے معاملات کا حل نکل سکتا ہے اگر لوگ اَنّا کے مرض کو کسی ماہر حکیم کو دکھائیں۔ اس کے علاوہ اس ماحول میں اٹھنا بیٹھنا چاہیے جہاں پر عاجزی اور انسان پرستی کے دروس دیئے جائیں۔ مزید برآں تعلیمی اداروں سے لے کر مذہبی مقامات پر بھی اَنّا پرستی سے دور رہنے کی بھرپور کوششیں کی جانی چاہئے۔ سب سے ضروری قدم جو اس ضمن میں اُٹھایا جاسکتا ہے ،وہ ہے کہ انسان اپنے اندر سے جینا شروع کرے۔ اس سے جینا آسان ہوگا اور اَنّا کا سنگین مرض ختم ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
رابطہ۔9103916455
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)