میر شوکت پونچھی
کہانیاں عموماً’’ایک تھا بادشاہ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں، لیکن یہ کہانی’’ایک تھا اَنا‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ بادشاہ کے پاس تخت تھا، تاج تھا، محل تھا، اَنا کے پاس نہ تخت، نہ تاج، نہ ہی محل ،صرف ایک سفید گاندھی ٹوپی، ایک ضدی بھوک ہڑتال اور ایک کرسی کے برابر اَنا۔ اس اَنا کا سہارا تھا ایک بوسیدہ لاٹھی، جو یوں زمین پر ٹک ٹک کرتی تھی جیسے پورے نظام کو جگانے آئی ہو اور نظام تھا کہ برسوں کی نیند کا اسیر۔
رام لیلا میدان اس دن کسی کربلا کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کہیں جھنڈے تھے، کہیں نعرے، کہیں’’وندے ماترم‘‘ کی دھن پر دیوانے شور مچا رہے تھے۔ ہوا میں انقلاب کی گرد اُڑ رہی تھی، لیکن اس گرد میں ہی بھنی ہوئے مونگ پھلی کی خوشبو بھی گھلی ہوئی تھی، جیسے عوامی تحریک اور چھابڑی والے کی کمائی کا رشتہ صدیوں پرانا ہو۔ اَنا ہزارے کے چہرے پر جھریوں کا ایک پورا صحیفہ کھلا ہوا تھا، جس کی ہر لکیر ہندوستانی سیاست کی تلخ داستان سناتی تھی۔ سامنے عوام کا ایک سمندر تھا، لیکن یہ سمندر بھی کمال کا تھا،کچھ موجوں کی طرح بے قابو، کچھ چھوٹی مچھلیوں کی طرح صرف تماشا دیکھنے آئی ہوئی اور کچھ کنارے پر کھڑے بیوپاری جن کے لیے انقلاب محض پکوڑے اور جلیبیوں کی فروخت کا دوسرا نام تھا ایک بچہ اَنا کے چہرے والے غبارے کو کھینچتے ہوئے ماں سے بولا:’’امّاں! یہ بابا جی ہیں یا سپر ہیرو؟‘‘ماں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا:’’بیٹا! یہ وہ ہیرو ہیں جو بھوکا رہ کر سب کو کھلانا چاہتے ہیں۔‘‘مگر وہ غبارہ شام تک سکڑ گیا اور بچہ اگلے دن اسپائیڈر مین کی ضد کرنے لگا۔
پارلیمنٹ کی دیواروں کے اندر سیاست دانوں کی آنکھوں میں وہی خوف تھا جو چور کی آنکھوں میں چراغ دیکھ کر جاگتا ہے۔ ایک وزیر نے سرگوشی کی:’’اگر یہ بابا کامیاب ہوا تو ہماری کرسیاں ہل جائیں گی۔‘‘دوسرے نے جھٹ سے کہا:’’ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ عوام کا حافظہ اخبار کی سیاہی کی طرح ہے،صبح چھپتا ہے، شام کو مدھم ہو جاتا ہے۔‘‘
تیسرے نے مسکراہٹ کے ساتھ دانت نکالے اور کہا:’’بس ایک کاغذ لہرا دینا، ایک ’بِل‘ پاس کر دینا، یہ شور تھم جائے گا۔‘‘
عوام بھی عجب مزاج کی نکلی۔ صبح کو وہ نعرے لگاتے :’’کرپشن مٹاؤ، دیش بچاؤ!‘‘ اور شام کو دفتر میں اپنے کاغذ نکلوانے کے لیے کلرک کی جیب میں نوٹ ٹھونس دیتے۔ ایک کسان نے فخر سے کہا:’’انا جی ٹھیک کہتے ہیں، رشوت ختم ہونی چاہیے۔‘‘اس کا بیٹا ہنس پڑا:’’ابّا! مگر کل بجلی کے کنکشن کے لیے آپ نے لائن مین کو پانچ سو دیے تھے!‘‘
کسان نے گردن اکڑائی اور فلسفیانہ انداز میں جواب دیا:’’بیٹا! وہ رشوت نہیں تھی، تحریک کو ’فنڈ‘ تھا۔‘‘
اَنا بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔ کارکنوں کے نعرے ایسے گونج رہے تھے جیسے رام لیلا میں راون کا پتلہ جلایا جا رہا ہو۔ خود اَنا دن بھر پانی کے چند گھونٹ پر گزارا کرتے اور ان کے بہادر ساتھی وقفے وقفے سے سموسے اور جلیبیاں کھانے نکل جاتے۔ ایک رپورٹر نے پوچھا:’’بابا جی! بھوک لگتی نہیں؟‘‘اَنا نے مونا لیزا جیسی پراسرار مسکراہٹ سے کہا:’’بھوک لگتی ہے، مگر انقلاب کی آگ زیادہ تیز ہے۔‘‘
میڈیا کا ہجوم اس تحریک کو یوں دکھا رہا تھا جیسے بالی وڈ کی کوئی بلاک بسٹر ریلیز ہوئی ہو۔ ہر چینل کے اسکرین پر’’بھارت جاگ گیا‘‘ کے بینر جگمگا رہے تھے۔ اینکر اتنے جوش میں تھے کہ گویا یہ آزادی کی دوسری جنگ ہے۔ ایک رپورٹر نے لائیو کہا:’’یہ ہے نیا سورج!‘‘پیچھے سے ایک دکاندار نے پکوڑوں کی ٹوکری سنبھالتے ہوئے طنزاً کہا:’’ہاں بھائی! سورج نکلے یا نہ نکلے، شام تک پکوڑے ختم ہو جائیں گے۔‘‘
چائے والوں کی چاندی ہو گئی تھی۔ ہر تھرماس انقلاب کی گرمی سے اُبل رہا تھا۔ کوئی ’’چائے پیو انقلاب لاؤ‘‘ کے نعرے لگا رہا تھا، تو کوئی’’جلیبی انقلاب‘‘ کے پیکٹ بانٹ رہا تھا۔ ایک لڑکا ٹھیلے پر لکھا ہوا نعرہ پڑھ رہا تھا: ’’بدعنوانی مٹاؤ!‘‘، اور ہنس کر بولا: ’’یہ نعرہ تو بالکل اس جلیبی کی طرح ہے، جتنا کھاؤ اتنا اُلجھتا جائے۔‘‘آخر وہی ہوا جس میں حکومت ماہر تھی۔ ایک کاغذ پر کچھ الفاظ لکھے، اس کا نام’’لوک پال بل‘‘ رکھااور عوام کے سامنے لہرا دیا۔ بھیڑ نے تالیاں بجائیں، میڈیا نے بریکنگ نیوز چلائی، اور اَنا نے اعلان کیا:’’بھائیو، مقصد پورا ہوا۔ بھوک ہڑتال ختم۔‘‘جیسے ہی پلیٹ میں پہلا نوالہ گرا، انقلاب کی بھاپ آسمان میں تحلیل ہو گئی۔اس کے بعد اَنا ایسے غائب ہوئے جیسے شام کی دھوپ کے ساتھ سایہ غائب ہو جاتا ہے۔ پہلے دن صفحہ اول، دوسرے دن صفحہ پانچ، پھر ہفتے بھر بعد صرف مختصر خبر۔ عوام بھی روزمرہ کے ہنگاموں میں لوٹ آئی۔ کسی نے کہا:
’’کرپشن ختم نہیں ہوتا بھائی۔‘‘دوسرا بولا:’’چلو میچ دیکھو، یہ تحریک اب پرانی ہو گئی۔‘‘
کچھ کارکنوں نے کوشش کی کہ تحریک زندہ رہے، مگر عوام کے پاس اب نئے موضوعات تھے: کرکٹ کے میچ، فلمی گانے، اور روزگار کی تلاش۔ میڈیا کو بھی نئے اسکینڈل مل گئے تھے۔ اَنا کی گاندھی ٹوپی کسی پرانی طاق پر رکھ دی گئی اور تحریک کی جلیبی صرف میٹھے خوابوں کی طرح رہ گئی۔یوں اَنا ہزارے ہندوستانی سیاست کا وہ بُلبلہ ثابت ہوئے جو عوام کے جوش سے پھولا، میڈیا کے شور سے بڑا ہوا، حکومت کے’’بل‘‘ سے پھٹ گیا اور آخر میں صرف تاریخ کے پانی پر چند جھاگ چھوڑ گیا۔ کرپشن وہیں رہا، سیاست وہیں رہی اور عوام کی جیب پر وہی پرانی مار۔ فرق صرف اتنا آیا کہ رام لیلا میدان میں جلیبی بیچنے والے نے اگلے دن اپنی دکان کا نام بدل کر رکھ دیا: ’’انقلاب جلیبی کارنر‘‘یوں اَنا کی تحریک کا انجام بھی ویسا ہی ہوا جیسا ہندوستان میں اکثر سچائیوں کا ہوتا ہے،پہلے وہ نعرہ بنتی ہیں، پھر تماشا اور آخر میں صرف ایک قصہ۔ فرق بس اتنا رہا کہ رام لیلا کے پکوڑے والے نے اگلے دن اپنی دکان کے بورڈ پر لکھ دیا:’’کرپشن ہو یا انقلاب، بھوکے کا پیٹ آخرکار پکوڑے سے ہی بھرتا ہے۔‘‘