نئے سال کے موقعہ پر جس طرح کنٹرول لائن کے کئی راہداری مقامات پر بھارت اور پاکستانی افواج کے درمیان مٹھائیوں کا تبادلہ کیاگیا ،وہ انتہائی حوصلہ افزاء تھا اور اس سے یہ امید بندھ گئی ہے کہ آنے والے دنوں میں دو نوں ممالک کے تعلقات میں مزید گرم جوشی دیکھنے کو ملے گی ۔دراصل اب گزشتہ تقریباً ایک سال سے سرحدوں پر سکون لوٹ آیا ہے ۔گزشتہ سال جنگ بندی معاہدہ پر عمل درآمد کے اعادہ کے بعد سرحدوں پر آتشی گولہ باری کا سلسلہ بند ہوچکا ہے اور جبھی سے دونوں جانب سے مسلسل خیر سگالی جذبات کے تحت نہ صرف غلطی سے سرحد عبور کرنے والے افراد کو مسلسل واپس بھیجا جارہا ہے بلکہ خوشی کے مواقع پر مٹھائیوں کا تبادلہ بھی ہورہا ہے ۔عید ہو یا دیوالی یا کوئی اور تہوار ،ہر دفعہ دونوں جانب سے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں جو اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ سرحدوں پر حالات کافی حد تک بہتر ہوچکے ہیں۔
دراصل سرحدی جنگ بندی ایک ایسی نعمت ہے جس نے نہ صرف دونوں جانب کی افواج کو پیر پسارنے کا موقعہ فراہم کیا ہے بلکہ دونوں جانب کی سرحدی آبادی بھی چین و سکون کے ساتھ گزار رہی ہے ۔سرحدی علاقوں میں زندگی دوبارہ لوٹ آئی ہے اور آج کل نہ صرف سرحد سے متصل علاقوں میں معمول کی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال ہوچکی ہیں بلکہ اب تو جموں صوبہ کے کٹھوعہ ضلع میں ہندوپاک بین الاقوامی سرحد پر باڑ بندی کے اندر بھی کھیتی باڑی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور دو دہائیوں بعد وہ اراضی دوبارہ سے آباد ہوگئی ہے جو دو ملکوں کی مخاصمت کی وجہ سے بنجر ہوچکی تھی ۔آج کل کٹھوعہ کے سرحدی علاقوں کے مناظر دیدنی ہیں جہاں کسان اپنے کھیتوں میں ہل جوت رہے ہیںا ور فصلوںکی بوائی میں بھی مصروف ہیں۔گزشتہ برس تک ایسی کسی سرگرمی کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا کیونکہ سرحدی کشیدگی سب معاملات پر حاوی ہوچکی تھی اور ہر وقت گولے برستے رہتے تھے ۔
سرحدی علاقوں میں سکون کی فضاء گوکہ اب ایک برس سے قائم ہے تاہم یہ دائمی ثابت ہونی چاہئے اور اس کیلئے دونوں جانب سے اعتماد سازی کی فضاء بحال قائم کرنا شرط ِ اول ہے ۔فی الوقت دراندازی مسلسل تشویش کی ایک وجہ بنی ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود بھی جس انداز میں معاملات آگے بڑھ رہے ہیں ،وہ اطمینان بخش ہے اور اگر یہی رفتار رہی تو آنے والے وقت میں مزید بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے ۔نئے سال کی آمد پر امید کی جانی چاہئے کہ اب نئی سوچ بھی پیدا ہوگی اور مخاصمت کی طویل تاریخ کو پیچھے چھوڑ کر دونوں جانب سے گرم جوشی کا مظاہرہ ہوگا تاکہ برصغیر ہندوپاک میں رہنے والی ڈیڑھ ارب انسانی آبادی کو ترقی و خوشحالی کے وہ تمام ثمرات نصیب ہوسکیں جو فی الوقت ان دو ممالک کے کشیدگی کے یر غمال بنے ہوئے ہیں۔
تشدد ،کشیدگی اور مخاصمت کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔وقت نے ثابت کردیا ہے کہ آگ و آہن اور توف و تفنگ سے بربادی ہی ہوئی ہے اور کسی کا بھلا نہیں ہوا جبکہ اس کے برعکس معاملہ فہمی اور مفاہمت سے معاملات کو سلجھانے میں مدد ملی ہے ۔بھارت اور پاکستان چونکہ دو پڑوسی ممالک ہیں ،لہٰذا یہ بھی دائمی دشمنی کے ماحول میں نہیں رہ سکتے ہیں اور اگر رہیں گے بھی تو یہ دونوں کیلئے فائدہ کے بجائے نقصان دہ بھی ثابت ہوگی ۔دنیا سمٹ رہی ہے ۔دوریاں مٹ رہی ہیں،دیواریں گر رہی ہیں،سرحدوں کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے ۔ایسے میں بھارت اور پاکستان کیلئے لازم ہے کہ وہ دوریاں اور فاصلے مٹانے کیلئے کام کریں کیونکہ یہ دو ممالک زیادہ دیر تک مخاصمت کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔اگر کشیدگی ختم ہوتی ہے تو دونوں ممالک پر اپنے دفاعی بجٹ پر زر کثیر خرچ کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہے گی اور وہ رقم دونوں جانب انسانی آبادی کی فلاح وبہبود پر صرف کی جاسکتی ہے ۔
اس تناظر میں لازم ہے کہ دونوں جانب فراخدلی کامظاہرہ کیاجائے اور معاملات کو بگاڑنے کے بجائے سلجھانے کی جانب اقدامات کئے جائیں۔اس ضمن میں اعتماد سازی کی فضاء اولین شرط ہے اور اسلام آباد پرلازم آتا ہے کہ وہ اعتماد کی فضاء بحال کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے تاکہ باہمی معاملات کے حل کی کوئی سبیل نکال کی راہ ہموار ہوسکے ۔سرحدی جنگ بندی اور سرحدوں پردونوں جانب کے افواج کے مابین گرم جوشی اس حقیقت کا گماز ہے کہ جب چاہ ہو تو کچھ ناممکن نہیں ہے ۔گزشتہ سال جنوری اور فروری تک تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا کہ سرحدوںپر سکون لوٹ آئے گا اور سرحدوں علاقوں کی ویران زمینیں دوبارہ آباد ہونگیں لیکن جب دونوں جانب سے ٹھان لی گئی کہ سرحدوںکو خاموش کرنا ہے تو معاملات آگے بڑھے اور پھر ایک وقت آیا جب سرحدوںپر جنگ بندی معاہدہ کا اعادہ ہوا اور اب ایک برس سے سرحدیں خاموش ہیں۔
اسی طرح اگر آج بھی دونوں جانب سے یہ ٹھان لی جائے کہ ہمیں باہمی معاملات حل کرکے آگے بڑھنا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ باہمی رنجشیں ختم ہوں اور دونوں ممالک دوستی کے ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ رہیںلیکن اس کیلئے لازمی ہے کہ نیتوں میں خلوص پیدا ہو، پس پردہ زیر کرنے کا سلسلہ بند ہو اور سچے دل سے دوستی کا ہاتھ بڑھایاجائے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف یہ خطہ دوستی کی مثال بن سکتا ہے بلکہ یہ امن و خوشحالی کا ایک ایسا گہوارہ بنے گا جو رہتی دنیا تک مثال بن کر رہ سکتا ہے۔