سرینگر// حدمتارکہ کے نزدیک سرحدی قصبہ اوڑی میں این ایچ پی سی کے بجلی پروجیکٹ سے جہاں شمالی ہندوستان کی ریاستیں جگمگا رہی ہیں وہیں یہ پروجیکٹ مقامی آبادی کیلئے شجر ممنوعہ بنا ہوا ہے اوران پروجیکٹوں سے حاصل شدہ بجلی مقامی آبادی کیلئے حرام ہے۔ علاقے میں 90فیصد لوگوں کے گھروں میں انویٹر لگے ہوئے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے گھروں کو روشن کررہے ہیںجبکہ نزدیک ہی قائم بجلی پروجیکٹ ہاتھی کے دانت کے برابرہے۔ اوڑی میں گنگل کے مقام پر دریائے جہلم پر480میگاواٹ بجلی پروجیکٹ سینکڑوں کنال اراضی پر پھیلا ہوا ہے۔مقامی آبادی اس پروجیکٹ کو دیکھ کر خوشی نہیں بلکہ ماتم مناتی ہے کیونکہ یہ پروجیکٹ ان کیلئے کسی کام کا نہیں ہے اور یہاں کی آبادی کیلئے اب یہ پروجیکٹ ہاتھی کے دانت، کھانے کے اور اور دکھانے کے مترادف ہے ۔اوڑی ریاست جموں وکشمیر کا وہ واحد سرحدی علاقہ ہے جہاں سے این ایچ پی سی نے ابھی تک اربوں روپے کی کمائی کی ہے لیکن اس پروجیکٹ کے گردونواح کی بستیاں صبح اور شام اکثر گھپ اندھیرے میں رہتی ہیں ۔ان بستیوں میں نورکھاہ ، گنگل ،بگلاں ، کینچن،چندن واڑی ، رمبوا ، دواریاں ، پرم پیلا ، لگامہ ، بانڈی ،مہورہ ، دلشام پورہ ، پرنگل ، پیرنیا، زہرپورہ ، منزگام ، پہلی پورہ ، ناگہ ناری ، نوشہرہ ، گانٹہ مولہ ، کھنٹھ مولہ بالا ، شاہکوٹ ، بٹگراں ،بونیاروغیرہ علاقے شامل ہیں ۔مقامی لوگوں کے مطابق پروجیکٹ قائم کرنے کے وقت ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اُن کو نہ صرف چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کی جائے گی بلکہ مفت بجلی بھی دی جائیگی لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔بگڑاں کے شہنواز نامی ایک نوجوان نے کشمیر عظمیٰ کوبتایا کہ محکمہ بجلی نے سرما کے دوران پانی کی کمی کا بہانہ بنا کر اوڑی کے اُن علاقوں میں بھی شیدول جاری کیا ۔ اب مئی کے مہینے میں بھی یہاں تین سے چار گھنٹے بجلی بند رکھی جاتی ہے جبکہ دریائے جہلم میں پانی کی سطح برابر ہے ۔ نور کھاہ اوڑی کے شکیل احمد کے مطابق گھر سے باہر جب نظر دوڑاتے ہیں تو ایک بڑے بجلی پروجیکٹ پر نظر پڑتی ہے اور جب اپنے گھروں کو اندھیرے میں ڈوبا دیکھتے ہیں تو اپنے آپ پر رونا آتا ہے۔شکیل نے کہا کہ لوگوں نے اس پروجیکٹ کیلئے زمین دی لیکن سینکڑوں کنال اراضی پر بنائے گئے اس بجلی پروجیکٹ سے لوگوں کو فائدہ تو ہوا نہیں بلکہ نقصان ہی ہوتا ہے ۔اوڑی میں بنائے گئے دو بڑے بجلی پروجیکٹوں کے ٹاوروں کے نیچے بھی کئی کنال زمین آئی ہے وہاں کی آبادی کے مطابق این ایچ پی سی نے انہیں اُتنا ہی معاوضہ فراہم کیا جتنی زمین ٹاور کے نیچے آئی لیکن ان بڑے ٹاوروں اور ترسیلی لائنوں کے سبب نہ صرف اُن کی فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ زمینوں میں لگائے گئے پیڑوں کو بھی بڑا ہونے کی اجازت نہیں ملتی۔معلوم رہے کہ این ایچ پی سی کی زیر نگرانی اوڑی اول بجلی پروجیکٹ سالانہ 5سو کروڑ روپے کماتا ہے ۔اوڑی کو بلا خلل بجلی فراہم کرنے کیلئے اگرچہ ریاستی سرکار نے 2016میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ اکتوبر 2016تک 50 ایم وی اے ٹرانسفارمر کی تنصیب سے اوڑی قصبے میں بجلی کی صورتحال میں بہتری آئے گی لیکن یہ دعویٰ بھی سراب ثابت ہواہے ۔