سرینگر// اونتی پورہ کے ایک نجی اسکول میں تعینات جواںسال پرنسپل کی سرینگر کے ٹاسک فورس کیمپ میں حراستی ہلاکت پر وادی ابل پڑی،جس کے نتیجے میں پائین شہر،اونتی پورہ اور مائسمہ میں احتجاجی ہڑتال اور سنگ بازی کے بیچ مکمل ہڑتال کی گئی۔پولیس نے حراست کے دوران نوجوان کی ہلاکت کااعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پولیس تحقیقات کا آغاز کیا گیاجبکہ ضلع مجسٹریٹ سرینگر نے مہلوک نوجوان کی موت کی اصل حقائق جاننے کیلئے مجسٹرئیل انکوائر ی بھی شروع کی ہے۔
ہلاکت
اونتی پورہ پولیس سٹیشن کے بالکل قریب رہائش پذیر26 برس کے رضوان اسدپنڈت ولد اسد اللہ پنڈت کو تین روز قبل پولیس نے اپنے گھر سے حراست میں لیکر سرینگر میں واقع کارگو ایس او جی کیمپ منتقل کیا ۔ منگل کی صبح رضوان پنڈت کی زیر حراست ہلاکت کی خبر گشت کرنے لگی،جس کے نتیجے میں وادی میں تنائو و کشیدگی کا ماحول پیدا ہوا۔ صابر عبداللہ پبلک اسکول میں تعینات پرنسپل رضوان اسد کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی لوگوں نے انکے گھر کی طرف رخ کرنا شروع کیا،جبکہ اہل خانہ وا ویلا کرتے نظر آئے۔ابتدائی طور پر اہل خانہ نے سرینگر پولیس کنٹرول روم سے نعش حاصل کرنے سے انکار کیا،تاہم شام دیر گئے رضوان کی نعش پولیس تھانہ اونتی پورہ پہنچائی گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق شام7بجکر10منٹ پر رضوان کی نعش ان کے اہل خانہ و رشتہ داروں نے پولیس تھانہ اونتی پورہ سے حاصل کی،جس کے بعد انہیں گھر پہنچایا گیا،جہاں ہر سو ماتم کا سماں نظر آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق نوجوانوں نے اسلام و آزادی کے حق میں نعرے بلند کئے۔بعد میں اسکی نماز جنازہ ادا کی گئی اور انہیں سپرد خاک کیا گیا۔مقامی لوگوں کے مطابق رضوان پنڈت اسلامی جمعیت طلبہ سے بھی وابستہ تھا،اور مقامی طور پر الائٹ نامی کوچنگ سینٹر میں بھی پڑھتا تھا۔اہل خانہ کا کہنا تھا’’ رضوان کو گھر سے گرفتار کیا گیا،انہیں واپس گھر میں ہی چھوڑ دیا جائے۔‘‘اہلخانہ کے مطابق رضوان پیشے سے مقامی اسکول میں پرنسپل کی خدمات انجام دے رہے تھے جس کے ساتھ ساتھ اُس کا ایک ذاتی ٹیوشن سنٹر بھی تھا۔ انہوں نے بتایا کہ رضوان نے زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم ایسے میں اسے بہیمانہ طریقے سے زیر حراست جاں بحق کیا گیا۔ رضوان کے برادر زوالقرنین نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ’’ میرے بھائی کو 6ماہ قبل بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کی آڑ میں گرفتار کیا گیاتاہم بعد میں اُسے رہا کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ وہ کسی بھی جنگجو تنظیم کے ساتھ وابستہ نہیں رہا ہے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ ’’دو روز قبل دوران شب ہمارے گھر کو مقامی پولیس تھانے کے اہلکاروں جن کی قیادت ڈی ایس پی کررہے تھے، نے محاصرے میں لیا جس کے بعد پورے گھر کی تلاشی لی گئی،اورپولیس پارٹی نے گھر کے تمام افراد کو باہر جمع کیاجس کے بعد گھر کے تمام افراد بشمول خواتین کو کمرے میں بند رکھا گیا جس کا دروازہ باہر سے مقفل کیا گیا،اس کے بعد ہمارے بھائی رضوان کو پولیس اپنے ساتھ لے گئی‘‘۔ذو الفرنین کا کہنا ہے ’’ پولیس افسران نے ہمیں خاموش رہنے کو کہا۔ ہمیں بتایا کہ رضوان کی گرفتاری سے متعلق کسی کے ساتھ بھی رابطہ نہ کیا جائے‘‘۔انہوں نے مزید بتایا کہ جب دوسرے روز وہ متعلقہ پولیس تھانے پہنچے تو وہاں کہا گیا کہ رضوان کو سرینگر کے ائر کارگو منتقل کیا گیا۔ رضوان کے برادر نے بتایا ’’ منگل کی صبح ہمیں اطلاع موصول ہوئی کہ رضوان کو سرینگر کے کارگو کیمپ میں زیر حراست جاں بحق کردیا گیا ہے‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ6ماہ قبل جب رضوان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی اور عدالت نے ان پر عائد پی ایس کو بھی کالعدم قرار دیا تھا،اور ضمانت بھی دی گئی تھی،تاہم اس کے باوجود انہیں20روز تک بلا جواز حراست میں رکھا گیا تھا۔ ذوالقرنین نے بتایا کہ انکے والد جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں،اور یہ کوئی گناہ نہیں۔
پولیس کی وضاحت
پولیس کا کہنا ہے کہ رضوان ملی ٹینسی سے متعلق ایک کیس کے سلسلے میں پوچھ تاچھ کے لئے گرفتار کئے گئے جس کے بعد اُن کی زیر حراست موت واقع ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ رضوان کی زیر حراست موت سے متعلق قواعد و ضوابط کی روشنی میں 176سی آر پی سی کے تحت مجسٹریل انکوائری شروع کی جاچکی ہے جسکے ساتھ ساتھ پولیس نے واقعے سے متعلق از خود بھی چھان بین شروع کی ہے۔ پولیس کے ایک سنیئر افسر نے بتایا کہ رضوان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اور اس کی رپورٹ کا انتظار ہے۔انہوں نے کہا’’ ہم نے ایک علیحدہ تحقیقات شروع کی ہے‘‘۔جب ان سے پوچھا گیا کہ رضوان کو کس کیس میں حراست میں لیا گیا تھا،تو انہوں نے کہا’’یہ ملی ٹینسی سے جڑا ہوا کیس تھا‘‘۔پولیس نے رضوان کے حراستی قتل سے متعلق بیان میں کہا کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق رضوان اب تک تین مرتبہ گرفتار کیا جاچکا ہے۔موصوف کے خلاف ایف آئی آر زیر نمبر 146/2019زیر دفعہ 7/25پولیس تھانہ اونتی پورہ کے نتیجے میں انہیں 08/09/2018کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا جس کے بعد عدالت نے اُن پر عائد پی ایس اے کو 30/11/2018کو منسوخ کردیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ اس کے بعد موصوف کو دوبارہ دسمبر2018کو گرفتار کرلیا گیا تاہم اسی روز موصوف کو رہا کیا گیا۔انہوں نے بتایاکہ 18مارچ 2019کو رضوان کو دوبارہ گرفتار کیا گیا جس کے بعد انہیں پولیس تھانہ اونتی پورہ منتقل کیا گیا۔
مجسٹرئیل انکوائری
تاہم انہوں نے اس پر مزید تفصیلات فراہم کرنے سے معذرت کا اظہار کیا۔ ضلع ترقیاتی کمشنر سرینگر شاہد اقبال چودھری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ انہوں نے ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ سرینگر کوتحقیقات کیلئے تعینات کیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل ڈسڑکٹ مجسٹریٹ تحقیقات کے دوران جائے وقوع کا دورہ کرینگے۔
پر تشدد مظاہرے
اونتی پورہ میں ایک نجی اسکول سے وابستہ استاد کی حراستی ہلاکت کے خلاف نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادنے سڑکوں پر نکل کر فورسز اور گاڑیوں پر شدید پتھرائو کیا جس کے دوران آنسو گیس کے درجنوں گولے داغے گئے۔واقعے کے خلاف نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کر زوردار احتجاج کر کے سرینگر جموں شاہراہ بند کرنے کی کوشش کی۔مشتعل مظاہرین کو جب پولیس نے روکا تو انہوں نے گاڑیوںپر شدید پتھرائو کیا جس دوران علاقے میں مشتعل نوجوانوں کو منتشر کرنے کے لئے فورسز کی ایک بڑی تعداد نمودار ہوئی جس کے بعد پر تشدد جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں علاقے میں زبردست افرا تفری کا ماحول پیدا ہوا۔ پرتشدد جھڑپوں کا سلسلہ شام دیر گئے تک جاری تھا۔ علاقے میں مکمل ہڑتال کے ساتھ ساتھ زندگی کے جملہ معمولات ٹھپ ہوکر رہ گئے۔ واقعہ کی خبرملتے ہی علاقے میں قائم تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں نے کام کاج معطل کردیا ۔ادھر نوجوان کی ہلاکت کے ساتھ ہی اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (آئی یو ایس ٹی) اونتی پورہ میں منگل کو منعقد ہونے والے سمسٹر امتحانات کو بھی ملتوی کر دیا گیا۔ سرینگر کے پائین شہر اور مائسمہ میں ہڑتال ہوئی، مائسمہ اور ملحقہ علاقوں میں منگلوار کی دوپہر کو یہاں قائم تجارتی اداروں کے ساتھ ساتھ دوکانات نے بھی اپنی معمول کی سرگرمیاں بطور احتجاج بند کی۔
مزاحمتی قیادت کا پروگرام
آج ہڑتال ، 21اور 22کو احتجاجی
نیوز ڈیسک
سرینگر//مشترکہ مزاحمتی قیادت نے بھارتی تفتیشی ایجنسیNIA اورSOG کی جانب سے کچھ عرصہ قبل پوچھ تاچھ کی غرض سے حراست میں لئے گئے اونتی پورہ کے نوجوان رضوان احمد پنڈت کی تفتیش کے دوران المناک موت پر شدید ردعمل کا اظہارکیا ہے۔قیادت نے اس حراستی کیخلاف آج 20مارچ کو پورے جموں کشمیر میں ہمہ گیر احتجاجی ہڑتال، جمعرات21 مارچ کو زندگی کے تمام مکاتب فکر بشمول تاجر برادری، وکلاء، سول سوسائٹی اور جملہ شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اس قتل ناحق کیخلاف بھر پور احتجاج کرنے کی اپیل کی ہے جبکہ22؍ مارچ جمعتہ المبارک کو کشمیر کی تمام چھوٹی بڑی مساجد، آستانوں، خانقاہوں،اور امام باڑوں میں اس قتل ناحق،سرکاری سطح پر خوف و دہشت کا ماحول برپا کرنے، SOG اور NIA کی جانب سے مزاحمتی قائدین، کارکنوں اور معزز شہریوں اور نوجوانوں کیخلاف خوفناک مہم جوئی کیخلاف بھر پورصدائے احتجاج بلندکیا جائیگا۔ قیادت نے کہاکہ اب کوئی بھی فرد بشر محفوظ نہیں رہا ہے۔قائدین نے کہا کہ مزاحمتی قیادت ہو یا سیاسی کارکن، بزرگ دینی شخصیات ہوںیا دینی جماعتیں یا مساجد کے اِمام صاحبان ، عام نوجوانوں ،طلباء غرض ہر ایک مکتبہ فکر سے وابستہ لوگوں کو خوف و دہشت کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا ہے اور گرفتاریوں اور ہراسانیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور پورے کشمیر کو ایک پولیس ا سٹیٹ میں تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، آئی سی آر سی ،اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن و کونسل اور دوسرے اداروں سے کشمیری اسیروں اور مظلوموں کی دادرسی کیلئے اقدامات اٹھانے کی اپیل کرتے ہوئے مشترکہ مزاحمتی قیادت نے کہا کہ عالمی برادری اگر کشمیریوں کو انصاف دلانے میں ناکام ہوئی تو مظلوم انسانیت کا اس پر سے اعتماد اٹھ جائے گا ۔
کی طرف سے ملوث ہونے کی تردیدNIA
نیوز ڈیسک
سرینگر// قومی تفتیشی ایجنسی’این آئی اے‘نے پولیس حراست میں جاں بحق اونتی پورہ کے استاد رضوان اسد پنڈت کو حراست میں لینے کی رپورٹوں کو دو ٹوک الفاظ میںمسترد کیا ہے۔ رضوان اسد کی دوران حراست ہلاکت پراین آئی اے نے کہا ہے کہ مہلوک نوجوان سے این آئی اے نے پوچھ تاچھ نہیں کی۔ این آئی اے رضوان احمد ساکن اونتی پورہ سے منسلک رپورٹوں کو این آئی ائے کو جوڑنے کو مسترد کرتی ہے۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے’’ اس کو نا ہی پوچھ تاچھ کیلئے طلب کیا گیا تھا،نہ ہی این آئی اے کی طرف سے زیر تحقیقات کیس کے سلسلے میں کسی اور مقام پرپوچھ تاچھ کی گئی۔‘‘
ملوثین کو قرارواقعی سزا دی جائے
عمر، ،محبوبہ، بخاری،سجاد اور تاریگامی کا مطالبہ
نیوز ڈیسک
سرینگر//اونتی پورہ کے 28سالہ اُستاد رضوان اسد پنڈت کی حراستی ہلاکت پر عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی،محمد الطاف بخاری ، سجاد غنی لون اور محمد یوسف تاریگامی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسکی معیاد بند مدت کے اندر تحقیقات کر کے ملوثین کیخلاف کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔عمر عبداللہ نے حراستی ہلاکت کو انسانی حقوق کی بدترین مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حراستی ہلاکتیں ریاست کے سیاہ ماضی کی ایک کڑی تھی جو بیت گئی ہے لیکن موجودہ دورہ میں اس قسم کا واقعہ پیش آنا ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے اور اس معاملے کی متعینہ مدت کے اندر تحقیقات کرکے ملوثین کو قرارواقعی سزای دی جانی چاہئے۔ محبوبہ مفتی نے ٹویٹ کے ذریعے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا 'بے قصوروں کو گھروں سے پوچھ گچھ کے لئے اٹھایا جاتا ہے اور پھر انہیں جنازوں میں گھر واپس بھیج دیا جاتا ہے، مرکزی حکوت کی طاقت پر مبنی پالیساں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بندوق اٹھانے پر مجبور کررہی ہیں'۔انہوں نے کہا کہ وطن پرستی کے جنون کے مظاہرے کے لئے کشمیر کو استعمال کرنا بند کیا جانا چاہئے کیونکہ کشمیریوں نے بے تحاشا زحمتیں برداشت کی ہیں۔ سجاد لون نے مذمت کرتے ہوئے مرتکبین کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔سجاد لون نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ کشمیر میں انسانی جانوں کی کوئی قدر نہیں رہی ہے۔ڈاکٹر شاہ فیصل نے ٹویٹ کے ذریعے پسماندگان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ زیر حراست اموات سے کشمیر میں امن کی فضا مزید مسموم ہوگی۔سابق وزیر محمدالطاف بخاری نے اس واقعہ پر شدید تشویش اور لواحقین کے ساتھ ہمدردی کااظہار کرتے ہوئے مرحوم کے روح کے ابدی سکون کی دعاکی ۔ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک نوجوان جو پیشے سے استاد تھا،پولیس حراست میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے کہ یہ کیسے ہوا اور اس کی زیرحراست ہلاکت کاذمہ دار کون ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ رہنمامحمدیوسف تاریگامی نے کہا کہ مہذب سماج میں ایسے واقعات کا رونما ہونا ناقابل برداشت ہے ۔ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ رضوان پنڈت کی مبینہ حراستی ہلاکت کی شفاف اور معینہ مدت کے اندر تحقیقات ہونی چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ہلاکت کی عدالتی تحقیقات کو فوری طور حکم صادر کرے۔