الطاف جمیل شاہ سوپور
اسلام ایک متوازن دین مبین ہے جس میں ہر کسی کے حقوق کا بیان ہے یہ نہیں کہ ایک کے حقوق تو ہوں اور دوسرے کے حقوق کا کوئی تصور موجود ہی نہ ہو، پر موجودہ دور کا بدترین المیہ یہ ہے کہ ہم نے دین مبین کی من مانی تاویلات کرکے اس کے مساوی حقوق کے بیان کو بلا دیا، مرد نے اس انداز سے مردانہ حقوق کو بیان کیا بھائی ، شوہر باپ ، کے نام سے کہ خواتین کا دم گھٹنے لگا یہ سوچ کر کہ بہن ، بیوی بیٹی کی حیثیت سے میرے کیا حقوق ہیں، یہ اسلام کے اس مساوی حقوق کے فرمان کے بالکل برعکس ہیں جس کی نظیر بقیہ کسی مذہب میں نہیں ملتی ایسے ہی ہمارے معاشرے میں اولاد کے حقوق کا بھی خوب استحصال ہوتا پے کہ والدین یا تو چودراہٹ کے ساتھ ان کو ضائع کردیتے ہیں یا پھر شفقت میں زیادہ شفیق بن کر اولاد کے حقوق پر شب خون مارا جاتا ہے ، مساجد و مدارس میں والدین کے حقوق پر بات ہوتی ہے پر ایسا الا ماشاء اللہ کبھی ہوتا ہے کہ اولاد کے حقوق پر بات ہو ، شہر خاص میں جب ایک بیٹے نے اپنے والدین کی دن دھاڑے مار پیٹ کی تو اس وقت بھی یہی کہا گیا بچہ نالائق ہے کہ والدین کی یوں مار پیٹ کر رہا ہے ، بالکل غلط ہے اور انتہائی بدترین حرکت ہے کہ کوئی جوان بیٹا اپنے والدین پر ہاتھ اٹھائیں، لیکن سوال یہ بھی ہے کہ چند سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ ہمارے لخت ہائے جگر اپنے والدین سے بدسلوکی پر آمادہ ہوگے ، پرانے لوگ تھے جن کے بارے میں ہم کہتے ہیں بوسیدہ خیالات کے تھے کیا آپ نے کبھی سوچا ہے انہوں نے ہمیں کیسے والدین دیے ، وہ والدین جن کی نظر میں وجود آج بھی حیاء و شرافت کا عنصر غالب ہے اور ضد انانیت سے خائف ہی نظر آتے ہیں پھر جب ہماری باری آئی تو اول ہم نے اپنے اسلاف کی مٹی پلید کرنی شروع کی پھر جدیدیت کے سحر میں برباد ہونے کی اور دوڑ میں ہم نے ایسے دوڑ لگائی کہ اپنی نسل کو ہم ضروری ادب سیکھانا بھول ہی گے والدین کا مسئلہ آج صرف یہ نہیں کہ وہ تعلیم کے لئے مستقل مزاجی کے ساتھ اولاد پر نظر نہیں رکھتے بلکہ المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے لخت جگر کو ایسے ماحول فراہم کر رہے ہیں جس کی ابتداء کی نحوست زدہ اور بے حیاء سماج سے مستعار لی گئی ہے، ہم جدیدیت میں حصہ داری کے لئے اپنی اولاد کے ان حقوق پر شب خون مار رہے ہیں جو اسے اللہ تعالیٰ نے دیے تھے اس طریقہ تربیت سے دامن بچا کر جی رہے ہیں جس تربیت کے خدوخال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کئے تھے ، سو نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ والدین بڑھاپے تک پہنچتے ہوئے اس غم میں مبتلاء ہوجاتے ہیں کہ اب کیا کریں کیوں کہ اولاد تو پہلے ہی ان سے نسبت ظاہر کرنے پر اب عار محسوس کر ہی ہوتی ہے سو یوں ہمارا معاشرہ اس ڈگر پر چل پڑا ہے جہاں بڑھاپے کو قید تنہائی یعنی اولڈ ایج ہوم میں گزارنا ہی آسان حل رہ جاتا ہے اور اب تو یہ قید خانے تیار کرائے جارہے ہیں، پہلے یہ بات یاد رکھیں آپ جب اپنی اولاد کی اللہ تعالٰی کی نافرمانی پر دل میں تنگی محسوس نہ کریں جب آپ کی اولاد بلوغت تک بھی اللہ سے تعلق ترک کئے ہو اور آپ کو اس جانب توجہ دینے کی چمداں ضرورت محسوس نہ ہو اسلام سے بیزار ہوتی اولاد کی آپ کو فکر نہ ہو تو، یاد رکھیں یہ اولاد کبھی آپ کو خوشی نہیں دے گی اور نہ ہی آپ کی تابعدار رہے گی بس سیدھی سی بات ہے آپ نے اولاد کو اللہ کا باغی بنایا اللہ آپ کی اولاد سے آپ کی محبت و عقیدت کا قلبی تعلق ختم کرے گا اور آپ کی اولاد بھی بالکل اسی طرح آپ سے منہ موڑ لے گی جس طرح آپ خوش تب ہوئے جب اس نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے منہ موڑ لیا تھا اور آپ نے اس جانب توجہ نہیں دی تھی ہماری بستی کے ایک صاحب نے ایک پنڈت حکیم سے بچے کی شرارت کی شکایت کی پنڈت حکیم نے پوچھا بچے نے قرآن پڑھا ہے یہ بولا نہیں تو اس پنڈت حکیم نے کہا سنو اسے اللہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف دو شرارتیں خود ہی ختم ہوجائیں گئیں اولاد اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اس کے حقوق کی اور توجہ دیں اور تربیت کریں پھر امید رکھیں یہ اولاد آپ کے لئے تا زندگی خود کو نچھاور کرتی رہے گی بچپن سے جوانی تک اس کے حقوق کا خیال کریں یہ بڑھاپے میں آپ کا سہارا بنے گئی۔ تربیت اولاد کے سلسلے میں چند باتیں عرض ہیں
قرآنی اسباق:۔
حضرت لقمانؑ کے بارے میں قرآن کریم کی ایک سورت کے جس میں ان کا نمایاں کارنامہ یہ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے لخت جگر کی تعلیم و تربیت کیسے کی، یہی سب چیزیں اگر والدین قرآن کریم کی روشنی میں سمجھ جائیں تو بقیہ راستہ آسان ہوجائے گا مطالعہ قرآن کی روشنی میں آپ بھی پڑھیں ۔حضرت لقمانؑ نے آگے فرمایا، مفہوم: ‘’’اے میرے بیٹے! اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو (تب بھی اسے معمولی نہ سمجھنا کہ وہ عمل) کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا پھر زمین کے اندر (زمین کی تہہ میں چُھپا ہوا ہو) اﷲ تبارک و تعالیٰ اسے ظاہر فرمائیں گے، بے شک! ﷲ تعالیٰ بڑا باریک بین و باخبر ہے۔، اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرو، اور بُرے کاموں سے منع کیا کرو، اور جو کچھ پیش آئے اس پر صبر کیا کرو، بے شک! یہ (صبر) ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ اور لوگوں سے بے رخی مت اپناؤ، اور زمین پر تکبّر سے مت چلو، بے شک! اﷲ تعالیٰ کسی متکبّر کو پسند نہیں فرماتے، اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو، اور اپنی آواز کو پست رکھو، بے شک! سب سے بُری آواز گدھے کی ہے۔‘‘ (سورۃ لقمان)
﴾’’ اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی (جنت) میں ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے (سورۃ الطور،آیت 21)
اگر آپ صاحب ایمان ہیں تو لازم ہے کہ آپ اولاد کی تربیت بھی انہیں خطوط پر کریں جن کی نشاندہی ایمانی تعلیمات میں کی گی ہے یہ نہیں کہ صالحیت کی معراج پر آپ خود جائیں اور اولاد کو ظلمات کے گرداب میں بے یار و مددگار غار چھوڑ دیں، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ سے باز پرس بھی ہوگی اور یہ خسارہ بھی ہوجائے گا آپ کے لئے۔
حادیث سے چند اسباق :۔
پیدائش سے پہلے۔۱۔نیک اور صالح اولاد کے حصول کی دعا،۲۔بچے کے لیے نیک و صالح و پاک دامن ماہ کا انتخاب،۳۔ماں کے پیٹ میں اس کی حفاظت کرنا،۴۔ ماہ کے پیٹ میں اس کو زندہ رکھنا،پیدائش کے دن : ۵۔بچے کے کان میں اذان دینا،۶۔عقیقہ کرنا،۷۔اچھے نام کا انتخاب کرنا،۸۔ختنہ کروانا،۹۔ اپنے ماں باپ کے نسب کی طرف انہیں منسوب کرنا،۱۰۔ان کے لیے دودھ اور غذا کا بندوبست کرنا،۱۱۔ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنا،اا۔ان کے ساتھ شفقت و ہمدردی کا معاملہ کرنا اولاد کے درمیان عدل و انصاف برتنا،۱۲۔دستور کے مطابق ان کے اوپر خرچ کرنا،۱۳۔ان کو روزگار کے لائق بنانا،۱۴۔ان کی غلطی وہ کوتاہی کی نشاندہی کرنا سرزنش کرنا اور پھر انہیں معاف کر دینا،۱۵۔ان کی مناسب جگہ شادی کرنا،۱۶۔ اولاد کے حق میں دعائے خیر کرنا ہے۔
ذرا آپ غور کریں ان باتوں پر کیا آپ نے اس جانب کبھی توجہ دی ہے کہ آپ نے مندرجہ بالا حقوق کی ادائیگی کے لئے کبھی کوئی کوشش کی ہے یا ایسا آپ نے کبھی سوچا ہے ہے گر ہاں تو آپ کو اپنی قسمت پر نازاں ہونا چاہئے آپ صالح والدین ہیں گر نہیں تو سوچیں کیوں ویسےا گر والدین اولاد کے حقوق ادا نہ کرسکیں تو وہ انسان بھی تو نہیں ہیں۔ کھانے پینے رہن سہن کا حیوانی طریقہ تو حیوان بھی اپنی اولاد کو سیکھا دیتے ہیں انسان اشرف المخلوقات سے ہے سو اس کی تربیت نمایاں اور اعلی معیار کی ہونی چاہئے چلیں چند احادیث اور بھی عرض ہیں توجہ دیں۔(جاری)
[email protected]