عذرا زمرودہ، کولگام
’’اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘(التحریم:۶)
اہل و عیال کو دین کے راستے پر ڈالنا ماں باپ کی ذ مہ داری ہے ،صرف ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے سے اولاد کے حقوق پورے نہیں ہوتے بلکہ ایک مومن کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کے حوالے سے ماں باپ کا پہلا فرض یہ ہے کہ انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کریں ،ان کے لیے ہر وہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کریں، جس سے ان کے قلوب و اذہان میں دین کی سمجھ بوجھ، اللہ کا تقویٰ، معرفت اور آخرت کی فکر پیدا ہوجائے تاکہ تمہارے ساتھ ساتھ وہ بھی جہنم کی اس آگ سے بچ جائیں۔گویاایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں، بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظام فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اُس پر ڈالا ہے اس کو بھی وہ اپنی حد استطاعت تک ایسی تعلیم و تربیت دے، جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں۔ اُس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوشحال ہوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔روح القران میں ڈاکٹر محمد صدیقی فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا کہ باپ پر اولاد کا حق یہ ہے کہ جب وہ پیدا ہوں تو ان کے لیے نفیس نام تجویز کرے، جب وہ بڑے ہوں تو انھیں بہتر تعلیم دے اور جب وہ بالغ ہوں تو ان کی شادی کرے۔
جب تک والدین بچوں کے حوالے سے اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کوشاں رہے ہیں تو اسلامی معاشرہ بہت ساری قباحتوں سے محفوظ رہا۔ لیکن جب سے والدین نے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں کوتاہی کی ہے تو اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اولاد میں نہ ماں باپ کی خصوصیات کا کوئی دخل ہے اور نہ اسلام کے دیئے ہوئے حُسنِ اخلاق کا۔ اور اس پر مزید ظلم ہمارے تعلیمی نظام نے کیا ہے کہ بچپن سے نکل کر بچہ سکول اور پھر کالج اور یونیورسٹی میں تربیت پاتا ہے۔ لیکن جب سے تعلیمی اداروں میں اپنا ہدف صرف نوشت و خواند تک محدود کردیا ہے اور آنکھیں بند کرکے وہ تعلیم دی جارہی ہے جو سرکار کی طرف سے نازل ہوتی ہے اور اسلامی تربیت کی طرف بالکل توجہ نہیں دی جاتی۔ تو نتیجہ ہمارےسامنے ہے۔ظاہر ہے کہ جو شخص اپنی اولاد کو صحیح تربیت دینے میں سستی کرتا ہے اور بے توجہ چھوڑ دیتا ہے تو وہ اپنی اولاد کے ساتھ بدترین سلوک کرتا ہے ۔تربیت کر نے والا بچے کو جس چیز کا عادی بناتا ہے،بچہ اسی عادت پر پروان چڑھتا ہے ۔کچھ والدین اپنے بچوں کو جیب خرچ دینے میں بڑا کھلا ہاتھ رکھتے ہیں جس کے سبب انہیں اپنی ناجائز خواہشات پوری کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور والدین سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے بچے پر شفقت کر رہے ہیں حالانکہ وہ ظلم کر رہے ہوتے ہیں ۔ کاش! والدین اس بھاری ذمہ داری کو سمجھتے کہ یہی نو عمر جگر گوشے کل کے جوان ہیں ۔والدین کی طرف سےاپنی اولاد کے لئےسب سے بہترین عطیہ ہے۔ عام طور پر ماں باپ کی صحبت سے ہی بچوں پر علم و حکمت کے دروازے کھلتے ہیں جو ہزاروں اور لاکھوں کتابوں سے بھی میسر نہیں ہوتے۔مگر ہمارے والدین اور سرپرست ، تربیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو نہیںسمجھتے ۔ جب سے والدین اس احساس کو کھو کر لاپرواہی برتنے لگے تو نتیجہ عیاں را چہ بیاں ! ہمارے پیارے نبی ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی ایک نگران ہے اور اس کے زیرنگین کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ یعنی تمام اہل خانہ و دیگر ضامن و پاسبان اپنی جوابدہی اور حقوق کی عہدہ برآئی کے معاہدہ سے بندھا ہوا ہے۔لہٰذا ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا، کیونکہ اہل و عیال کی تصحیح کے لئے ایک بنیادی ڈھانچہ یہ بھی ہے کہ اوائل سے ہی نوزائیدہ کے عقل و ہوش اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہؐ کی اُلفت و چاہ سے معمور و مزّین ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کی تعلیم و تہذیب، اولاد کی ظاہری و باطنی تادیب،فکر و اخلاق اور اصلاح و تربیت کے اقدام تکمیل دئیے جائیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے والدین و سرپرستوں کو اپنی زمہ داریاں سمجھنے کی توفیق دے تاکہ اس نئی نسل کی صحیح تربیت ہو کے ہمارا سارا بگڑا ہوا معاشرہ بدل جائے۔ آمین