صحرائے مصرؔمیں کو ہ نما پُر اسرار اور نادرروزگار اہراموں(Pyramids)کے بالمقابل مشہور زمانہ ابو الہول (Sphinx)کا بت صدیوں سے ایک ہی انداز میں بیٹھا زمانے کے شب و روز کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے ۔اس بہت بڑے بت کاسر انسانی اور باقی جسم شیر ببر کا ہے۔اسے بادشاہ ہکسوس ؔ نے اٹھارہ سوسال قبل از مسیح میں بنوایا تھا ۔حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اس بت نے سابقہ چار ہزار سال تک ریت کے جھکڑوں اور ریگستانی طوفان کا مقابلہ کیا مگر پھر بھی یہ باقی ہزار ہا آثار کی طرح ریت میں دب کر نابود نہیں ہوا ۔عربی نژاد بادشاہ ہکسوس کی قوم نے مصرؔ پر دو سو سال تک حکومت کی تھی اور جب حضرت یوسف علیہ السلام ایک غلام کی حیثیت میں مصر پہنچے توملک کے فوجی کمانڈر کی بیوی زلیخاؔ کی جھوٹی شکایت پر قید خانے میں ڈالے گئے ،قید سے رہائی ملی اور بعد ازاں عنانِ حکومت اُن کے ہاتھ میں آگئی تو یہی بادشاہ اُس دوران مصرؔ کا حکمران تھا ۔
جب بادشاہ کے خواب کی تعبیر حضرت یوسف ؑ نے بتائی تو بادشاہ نے اپنے رفقاء،درباریوں،امیروں ،وزیروں سے کہا کہ اُس جیسا مدبراور دانش مندسارے ملک میں کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ جب وہ خدا کے بخشے ہوئے علم سے ایک حیران کن اور عجیب و غریب خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہی اسی روحانی علم کی بنیاد پر قحط سے بچنے کی تدبیر بھی بہتر ڈھنگ سے کرسکتا ہے ۔اس لئے مناسب ہے کہ ملک کا بااختیار حاکم اعلیٰ اُسے ہی بنایا جائے تاکہ وہ عوام الناس کو پانچ سالہ بھیانک قحط سے محفوظ رہنے کی خاطر خواہ تدبیر کرسکے ۔تمام حاضرین نے بادشاہ کے خیال کی تعریف اور پُرزور الفاظ میں تائید کی۔
بادشاہ نے حکم نامہ جاری کرایا ۔حضرت یوسف علیہ السلام کو شاہی پٹکا پہنایا گیا ،انگلی میں شاہی انگوٹھی ڈلوادی گئی اور ایک رتھ پر سوار کرکے سارے ملک ِ مصرؔ میں اُس کے حاکم مقرر ہونے کی منادی کرادی گئی۔اس طرح سے حضرت یوسف ؑ نے شہر شہر جاکر پہلے خوشحالی کے سات برسوں میں وافر مقدار میں خورد و نوش کا سامان حاصل کرکے اُسے اُنہی شہروں میں مناسب بندوبست اور احتیاط کے ساتھ ذخیرہ کیا اور پھر جب مصیبت کے سات سال آئے تو مصرؔ کے لوگ حضرت یوسف ؑ کی حسن ِتدبیر سے بھوکوں نہیں مرے بلکہ برعکس اس کے باشندوں دوسرے اطراف و اکناف کے شہروں ،قصبوں کے باشندوں کو بھی مول لے کر غلہ فراہم کرتے رہے ، اور جیساکہ قرآن ِ شریف میں مذکور ہے کہ انہیں اپنے خاندان سے ملنے کا باعث بھی غلہ ہی بنا، جب اُن کے بھائی کنعانؔ سے غلہ خریدنے کے لئے مصرؔ آتے جاتے رہے۔
کشمیری زبان کا ایک محاورہ ہے ’’ہت سوس ‘‘یہ محاورہ ہمارے بچپن کے دنوں میں عام بول چال میں مستعمل تھا مگر اب بڑے بزرگ ہی اسے کبھی کبھار زبان پر لاتے ہیں ۔مجموعی طور پر یہ محاورہ اب متروک ہے۔محاورے کا مطلب یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ مان لیجئے کسی لڑکی کو مائیکے کی طرف سے ڈھیر سارا جہیز دیا جائے یا ڈھیر سارا سامان اُس کے ساتھ کردیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ باپ نے اُس کو ’’ہت سوس‘‘یعنی بہت کچھ دیا ۔اسی طرح سے گھر میں کوئی مہمان آتا ہے اپنے ساتھ کافی کچھ لاتا ہے ۔گائوں سے کوئی پھوپھی ،خالہ آتی ہے، گائوں کی مختلف سوغات لاتی ہیں ۔ والدین بیٹی کے سسرال میں خیر خبر پوچھنے جاتے ہیں یا باپ ،بھائی ،شوہر پردیس سے آتا ہے ،بہت سارا سامان لاتا ہے ،سب کے لئے تحفے تحائف لاتا ہے ۔حاجی صاحب حج کرکے لوٹتا ہے اور اپنے ساتھ کافی سارا سامان لاتا ہے تو ایسے تمام موقعوں پر یہ کہا جاتا ہے سامان ’’ہت سوس‘‘ تھا ،وہ اپنے ساتھ ’’ہت سوس ‘‘لایا ۔
وادی ٔ کشمیر میں پہلے وقتوں میں بہت سردی پڑتی تھی ۔انباروں برف کی وجہ سے لوگ زیادہ تر گھروں میں ہی رہتے تھے اور بہت کم باہر نکلتے تھے۔رواج یہی تھا کہ لوگ ضرورت کی چیزیں سردیوں کے لئے اپنی اپنی حیثیت و استعداد کے مطابق سٹاک یا ذخیرہ کرلیتے تھے ۔دال ،سُکھائی ہوئیں سبزیاں اور بالن وغیرہ کے علاوہ شلغم اور مولی کو زمین میں گڈھا کھود کر محفوظ کرلیتے تھے اور وقت وقت پر حسب ضرورت نکال کر پکاتے تھے ۔ اس کے برعکس صاحب ِ ثروت لوگ خاص کر کشمیری پنڈت بہت کچھ سٹاک کرلیتے تھے جیسے چاول ،دالیں ،سوکھی سبزیاں، سوکھی مچھلی ،مرچ ، تیل ،مسالحے کی ٹکیاں ،بالن ،کوئلہ ،کانگڑیاں ،سکھائے ہوئے انجیر ، خوبانی ،ناشپاتی ،بہی دانہ ،سیتا پھل وغیرہ تو یہی کہا جاتا تھا کہ فلاں گھرانے نے ’’ہت سوس‘‘جمع کر رکھا ہے ۔موجودہ وقتوں میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے برف باری اب اُس طرح کی نہیں ہوتی جیسی کہ آج سے پچاس برس قبل ہوا کرتی تھی مگر آج بھی وہ پرانی روایات کما حقہ زندہ ہیں ،گرچہ اب ’’ہت سوس‘‘جمع نہیں رکھا جاتا کیونکہ اب سردیوں اور برف باری میں بھی ہر ایک چیز دستیاب ہوتی ہے ۔
میرا خیال ہے کہ یقینی طور سے یہ اصطلاح بھی سمیرہؔ(فلسطین) سے سفر کرکے کشمیر تک اُسی مناسبت سے پہنچی ہوگی جس طرح بادشاہ ہکسوسؔنے حضرت یوسف علیہ السلام کی مدد سے قحط سالی سے بچنے کے لئے طرح طرح کا خورد ونوش والا سامان جمع کیا تھا اور اپنی اس خیرخواہی اور بے ضرر ذخیرہ اندوزی کے لئے ساری دنیا میں مشہور ہوگیا اور اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہونی چاہئے کہ یہ لفظ یا نام بھی وہی لوگ لائے ہوں گے جو وادی میں داخل ہونے کے وقت اپنی تمدن بھی اپنے ساتھ لائے ہوں گے ۔البتہ امتداد زمانہ کے ساتھ نام یا لفظ میں تھوڑا سا صوتی بگاڑ پیدا ہونا وہ بھی صرف ایک حرف کا یا لوکل رنگ چڑھنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔اس لئے میری ذاتی رائے یہی ہے کہ جس طرح یہودی تہذیب و تمدن کے بے شمار آثار آج بھی ہمارے تمدن میں شامل ہیں ،اُسی طرح اسم ہکسوس بھی ’’ہت سوس‘‘کے روپ میں ہم میں موجود ہے جو یقینی طور یہودؔ اپنے ساتھ لائے تھے ،جب انہیں اپنے وطن سے بھاگ کر اِدھر اُدھر سر چھپانا پڑا ،یہاں آکر وہ اسے اپنی روز مرہ کی زبان میں استعمال کرتے رہے اور سردیوں کے لئے مختلف قسم کا سامان جمع کرکے،ذخیرہ کرکے’’ہت سوس‘‘ کو عملی شکل دیتے رہے۔
(باقی اگلے ہفتے انشا ء اللہ)
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995