مختار احمد قریشی
نسیم کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو اپنی محنت، لگن اور قابلیت کے بل بوتے پر دنیا میں مقام بناتے ہیں۔ اس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ انگریزی لکھنے میں تو بہت ماہر تھا لیکن بولنے میں کچھ خاص مہارت نہیں رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر لوگ اسے تنقید کا نشانہ بناتے، اس پر طنز کرتے اور اسے کمتر سمجھتے تھے۔ مگر نسیم کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔
نسیم ایک متوسط طبقے کے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے والد ایک سرکاری ملازم تھے اور چاہتے تھے کہ اُس کا بیٹا بھی کسی اچھی سرکاری نوکری میں لگ جائے مگر نسیم کا خواب کچھ اور تھا۔ اسے لکھنے کا جنون تھا، خاص طور پر انگریزی میں۔ اس کی انگریزی تحریر اتنی عمدہ ہوتی تھی کہ لوگ حیران رہ جاتے مگر جب بولنے کی باری آتی تو وہ جھجھک محسوس کرتا۔
اس کے کالج کے دنوں میں کئی بار ایسا ہوا کہ اس کے پروفیسرز نے اس کی تحریر کی تعریف کی مگر جب پریزنٹیشن دینے کی باری آتی تو وہ گھبرا جاتا، الفاظ اس کا ساتھ چھوڑ دیتے اور لوگ اس کا مذاق اڑانے لگتے۔
“تم انگریزی لکھ ضرور لیتے ہو، مگر بول نہیں سکتے۔ آخر فائدہ کیا اس قابلیت کا؟” اس کے ہم جماعت اکثر طنز کرتے۔
نسیم صرف مسکرا دیتا اور کہتا، “قابلیت کسی کے سرٹیفکیٹ کی محتاج نہیں ہوتی۔ وقت خود ثابت کر دیتا ہے کہ کون کتنا اہل ہے۔”
ایک دن کالج میں ایک انٹرنیشنل سیمینار منعقد ہوا۔ مختلف شعبوں کے طلبہ کو انگریزی میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا تھا۔ نسیم کے اساتذہ جانتے تھے کہ وہ ایک بہترین مضمون نگار ہے، اس لئے اسے مضمون لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
اس نے محنت سے ایک شاندار تقریر لکھی، جس میں نہ صرف خیالات کی گہرائی تھی بلکہ الفاظ کا چناؤ بھی غیر معمولی تھا۔ سیمینار کے دن سب کی نظریں اس پر تھیں۔ جب اس کا نام پکارا گیا تو وہ سٹیج پر آیا مگر الفاظ اس کے لبوں پر نہ آ سکے۔ وہ لڑکھڑانے لگا، پسینے سے شرابور ہو گیا اور آخر کار بغیر کچھ کہے واپس آ گیا۔
یہ لمحہ اس کے لیے بہت ذلت آمیز تھا۔ طلبہ نے قہقہے لگائے، اس کے دوستوں نے مذاق اڑایا، حتیٰ کہ اساتذہ بھی مایوس ہو گئے۔
مگر نسیم نے ہار نہیں مانی۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ تحریری طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتا ہے تو زبانی اظہار میں بھی مہارت حاصل کر سکتا ہے۔ اس نے دن رات محنت کی۔ آدھی آدھی رات تک آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر تقریریں کرتا، ویڈیوز دیکھ کر تلفظ درست کرتا اور آڈیو ریکارڈنگ سن کر اپنی غلطیاں ٹھیک کرتا۔
کئی سالوں کی محنت کے بعد وہ انگریزی بولنے میں بھی اتنا ہی ماہر ہو گیا جتنا لکھنے میں تھا۔ مگر لوگوں کو اب بھی یقین نہیں آتا تھا۔ وہ اب بھی اسے کمتر سمجھتے اور اس کی کامیابی کو نظر انداز کرتے۔
کچھ سال بعد، ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مختلف ممالک کے دانشوروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ایک معروف انگریزی اخبار کے مدیر نے نسیم کو مدعو کیا اور اس سے درخواست کی کہ وہ اس کانفرنس میں بطور نمائندہ شرکت کرے۔
یہ وہ موقع تھا جس کا نسیم کو برسوں سے انتظار تھا۔ اس نے اپنی تقریر لکھی مگر اس بار وہ صرف تحریر پر انحصار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زبانی صلاحیتوں کو بھی دنیا کے سامنے پیش کرے گا۔
کانفرنس ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ دنیا بھر کے اسکالرز، پروفیسرز اور میڈیا نمائندے موجود تھے۔ جب نسیم کا نام پکارا گیا تو وہ پراعتماد قدموں سے اسٹیج پر پہنچا۔
“معزز حضرات۔
یہ پہلا جملہ تھا جو اس نے اتنے اعتماد سے کہا کہ پورا ہال خاموش ہو گیا۔
پھر وہ بولتا چلا گیا۔ اس کی آواز میں ٹھہراؤ تھا، الفاظ میں وزن تھا اور لہجے میں تاثیر تھی۔ سامعین دم بخود اس کی تقریر سنتے رہے۔ جب وہ اپنی بات مکمل کر چکا تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ لوگ کھڑے ہو کر داد دے رہے تھے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا نے تسلیم کیا کہ نسیم واقعی ایک قابل شخص ہے۔
اس کانفرنس کے بعد، وہی لوگ جو کبھی اس پر طنز کرتے تھے، اب اس کے مداح بن چکے تھے۔
ایک دن ایک پرانے ہم جماعت نے نسیم سے پوچھا، “یار، تم نے واقعی کمال کر دیا! مگر یہ بتاؤ، جب سب تم پر ہنستے تھے، تو تمہیں کیسا لگتا تھا؟”
نسیم مسکرا کر بولا، “مجھے برا تو لگتا تھا، مگر میں نے کبھی ان باتوں کو دل پر نہیں لیا۔ میں جانتا تھا کہ میں قابل ہوں اور اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لئے کسی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ بس وقت کا انتظار تھا، اور وقت نے ثابت کر دیا کہ اصل کامیابی وہی ہوتی ہے جو محنت سے حاصل کی جائے۔
آج نسیم ایک معروف انگریزی مصنف اور مقرر ہے، جس کے الفاظ لاکھوں لوگوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ وہ اپنے تجربات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے تاکہ وہ بھی اپنی خامیوں کو اپنی طاقت بنا سکیں۔
کبھی ہار مت مانو، وقت خود تمہاری کامیابی کی گواہی دے گا۔
��
بونیار بارہمولہ کشمیر
موبائل نمبر؛8082403001