اشتیاق ملک
ڈوڈہ // ضلع صدر مقام ڈوڈہ سے 72 کلومیٹر کی دوری پر واقع ’انڈیا کا خاموش گاؤں‘ کہلانے والے ڈھڈکائی میں قوت گویائی و قوت سماعت سے محروم افراد کی تعداد 81ہے۔جن میں 38 خواتین و کمسن لڑکیاں و 43 مرد و کم عمر لڑکے شامل ہیں۔ دو پنچائتوں پر مشتمل گاؤں کی آبادی 3500 کے قریب ہے جس میں ننانوے فیصد کا تعلق گوجر طبقہ سے ہے۔ یہ گاؤں گندوہ بھلیسہ کے سب ڈویژنل ہیڈکواٹر سے صرف 3 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے تاہم ترقی یافتہ دور میں بھی نوے فیصد آبادی سڑک رابطے سے محروم ہے۔ کشمیر عظمیٰ کو ملی تفصیلات کے مطابق اس گاؤں میں سب سے پہلا بچہ 1901 میں فجی گوجر نامی شخص کے گھر میں پیدا ہوا جو قوت گویائی سے محروم تھا اور پھر یہ تعداد بڑھتی گئی اور 1990میں قوت گویائی و قوت سماعت سے محروم افراد کی تعداد 46 ،2004میں 72، 2021میں 78و 2023میں ان کی تعداد 82 پہنچ گئی جس میں ایک شخص فوت ہوا اور اب آج 81رہ گئے ہیں جس میں سب سے کم عمر لڑکا 4 سال کا ہے۔ اس گاؤں کے معروف سیاسی و سماجی کارکن و مسلسل 3 بار بلا مقابلہ سرپنچ و ایک بار بی ڈی سی چیئرمین منتخب ہوئے چوہدری محمد حنیف کے مطابق 1990 سے لے کر 2024 تک انہوں ان افراد کے حقوق کے لئے انہوں بلاک سے لے کر ملکی سطح پر ہر ایک کے دروازے پر دستک دی لیکن یقین دہانیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے تین دہائیوں میں ریاستی، ملکی خبر رساں ادارے بین الاقوامی سطح کی درجنوں تنظیموں، سرکاری ایجنسیوں، ماہر ڈاکٹروں و عالمی شہرت یافتہ صحافیوں و سیاستدانوں نے اس گاؤں کا دورہ کیا اور کئی ریسرچ کیں لیکن کچھ حاصل نہیں ہوااور اسی پر اس گاؤں کا نام ‘انڈیا کا خاموش گاؤں’ پڑا. چوہدری محمد حنیف کا اپنا لڑکا بھی وقت گویائی سے محروم ہے جس کی عمر آج 30برس کے قریب ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر حکومتوں و انتظامیہ سے ہماری ایک ہی مانگ رہی ہے اور وہ ہے ان افراد کے لیے اسکول جو آج تک نہیں کھولا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آہستہ آہستہ یہ لوگ پڑھنے کی عمر کو پار کر گئے اور آج اسکول جانے والے بچوں کی تعداد صرف 12 ہے جس میں 2 لڑکیاں و 10 لڑکے شامل ہیں. انہوں نے کہا کہ حکومت و غیر سرکاری تنظیموں نے اگر چہ وقتاً فوقتاً ان افراد کی ضروریات کا سامان فراہم کیا تاہم فوج نے کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک اہم پیش رفت کی اور ٹیکنیکل کورسز کا بھی انعقاد کیا گیا۔ڈوڈہ ضلع کی سب ڈویژن گندوہ کے گاؤں ڈھڈکائی میں قوت گویائی و قوت سماعت سے محروم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اگر چہ سرکاری سطح پر مقامی لوگوں کی بار بار مانگ کے باوجود اسکول کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا جس میں اکثریتی بچے پڑھنے لکھنے کی عمر پار کر چکے ہیں تاہم وادی کشمیر کے ایک تاجر نے دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے راشٹریہ رائفلز کے اشتراک سے گورنمنٹ ہائی سکول ڈھڈکائی کے احاطے میں دو کمروں پر محیط اسکول کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں باقاعدہ طور پر ایک استاد کی تعیناتی عمل میں لائی گئی اور 8بچوں کا داخلہ بھی ہوا۔وادی کشمیر کے بانڈی پورہ سے تعلق رکھنے والے مجتبیٰ فاضلی پیشے سے تاجر ہیں اور ان کا کاروبار قطر، متحدہ عرب امارات و انگلینڈ تک پھیلا ہوا ہے۔ گذشتہ دنوں انہوں نے 4 راشٹریہ رائفلز کے کمانڈنگ آفسر کے ہمراہ ڈھڈکائی کا دورہ کرکے مقامی لوگوں و قوت گویائی و قوت سماعت سے محروم افراد سے ملاقات کی۔اس دوران انہوں نے ان افراد کی صیح تعلیم و تربیت کے لئے ہر ممکن تعاون دینے کا اعلان کرتے ہوئے ابتدائی طور پر گورنمنٹ ہائی سکول ڈھڈکائی کے دو کمروں میں سکول چلانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے ایک ماہر ٹیچر کی تقرری بھی عمل میں لائی گئی۔انہوں نے کہا کہ ان بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہیں رکھی جائے گی اور مستقبل میں باقاعدہ طور پر الگ عمارت تعمیر کی جائے گی۔ انہوں نے 4راشٹریہ رائفلز و ضلع انتظامیہ ڈوڈہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تعاون کے بناء یہ ناممکن تھااور انہوں نے اس مشن کو کامیاب بنانے کی مکمل یقین دہانی کرائی۔ مجتبیٰ فاضلی نے کہا کہ اس سکول کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے حیدر آباد کی غیر سرکاری تنظیم و یونیسف کی مدد بھی حاصل کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ وہ اس پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں اور مقامی لوگوں، فوج و انتظامیہ کی مدد سے اسے پائے تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایک ٹرسٹ کا بھی بہت جلد قیام عمل میں لا کر باقی علاقوں کے بچوں کو بھی اس ٹرسٹ کی زیر نگرانی تعلیم دی جائے گی۔