ساریہ سکینہ
وہ تیز تیز قدموں سے اس نئی تعمیر شدہ عمارت میں گھس گئی۔ سیڑھیوں سے اوپر چڑھتے ہی دائیں جانب لابی میں کئی لڑکیاں جمع ہو گئی تھیں ، تو وہ بھی جلدی سے اسی جانب چلی گئی ۔ سامنے سے دو آدمی آئے اور انہوں نے پوچھا ،کیا آپ انٹرویو کے لئے آئی ہیں۔۔۔۔۔؟
جی ۔۔۔! شمع نے ہانپتے ہوئے جواب دیا ۔
ہاتھ سے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، آپ ادھر بیٹھئے۔۔۔ آپ کی باری آئے گی تو آپ کو
اندر بلا لیں گے ۔۔۔۔۔
شمع ہانپتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور دو گھونٹ پی کر پھر سے بوتل واپس بیگ میں رکھ دی۔
کافی لڑکیاں آئی تھیں انٹرویو کے لئے ۔ شمع نے شکر ادا کیا کہ وہ وقت رہتے پہنچ گئی اور اب وہ اطمینان سے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی ۔
وہاں کئی لڑکیاں اکیلی آئی تھیں اور کئی لڑکیوں کے ساتھ ان کے گھر والے بھی آئے تھے ۔ سامنے کرسی پر ایک لڑکی تھی جس کا بھائی ساتھ آیا تھا ۔ وہ اپنی بہن کو سمجھا رہا تھا اور سکھا رہا تھا کہ خود اعتمادی کے ساتھ ہر ایک سوال کا جواب دینا، ڈرنا نہیں اور اگر کچھ آئے گا بھی نہیں تو فکر نہیں کرنا اور اپنے دل پر نہیں لینا۔۔۔۔۔۔
شمع یہ ساری باتیں سن رہی تھی اور اس کے کانوں میں اپنے بھائی کے وہ سخت الفاظ گونجنے لگے جب وہ ایک سال پہلے ہمیشہ کے لیے اپنے مائیکے واپس آئی تھی ۔اس کے بھائی نے صاف صاف الفاظ میں شمع سے کہا تھا ۔
دیکھو شمع ۔۔۔۔! تم میری چھوٹی بہن ہو اور تمہاری ذمہ داری میرے اوپر تب تک تھی جب تک تمہاری شادی نہیں ہوئی تھی۔ اب جب کہ تمہاری شادی اور رخصتی بھی کرا دی تھی۔۔۔۔ تمہاری شادی نہیں چلی تو۔۔۔۔۔۔ یہ تمہاری قسمت ہے، میں اس میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔ دیکھو۔۔۔۔ میرے اوپر اور بھی ذمہ داریاں ہیں میری بیوی اور بچہ ہے ۔۔۔۔ میں تم سے نہیں کہتا کہ تم کما کے مجھ کو دے دو۔۔۔۔ پر تم اپنے اخراجات خود دیکھ لو ۔۔۔۔۔ صاف الفاظ میں کہہ دوں تو مجھ سے کوئی توقع نہیں رکھنا ۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
شمع کو وہ باتیں ایک تیز نشتر کی طرح لگی تھیں جو اس کے دل کو چھلنی کر گیا تھا۔ اس کی ماں وہیں بیٹھ کر یہ ساری باتیں سن رہی تھی لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکی کیونکہ وہ بھی لاچار تھی۔ شوہر کے مرنے کے بعد وہ بھی محتاجی کی زندگی بسر کر رہی تھی ۔ اب وہ اس پر ہی گزارا کر رہی تھی کہ کوئی سیدھے منہ بات کر لے۔
یہ باتیں اور یہ کیفیت اس کے من کے اوپر بھاری پڑ رہی تھی ۔ وہ جیسے کسی گہری نیند سے جاگ گئی اور اسے یاد آیا کہ وہ انٹرویو کے لے آئی ہے ۔ کچھ وقت انتظار کرنے کے بعد اب اس کے انٹرویو کی باری آئی۔
وہ جیسے ہی کمرے کے اندر داخل ہوئی تو دیکھا کہ وہاں پہلے سے ہی ایک لڑکی بیٹھی تھی اور اس کے ساتھ اس کی ماں بھی تھی۔ سامنے ایک بڑی میز تھی ایک اد ھیڑعمر کا شخص سوٹ پہن کر ایک بڑی سی کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس کی شخصیت میں رعب تھا اور وہ کافی پڑھا لکھا معلوم ہو رہا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ایک ڈاکٹر تھا۔
وہ ڈاکٹر اور اس لڑکی کی ماں ایک دوسرے سے ہنستے ہوئے بات کر رہے تھے، شاید وہ ایک دوسرے کی جان پہچان کے تھے ۔ اس لڑکی کی ماں نے ایک سفارشی خط ڈاکٹر کی طرف بڑھایا۔ کمال کی بات یہ تھی کہ ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ لڑکی انٹرویو کے لیے آئی ہو بلکہ لگ رہا تھا کہ اس کی ماں انٹرویو دینے آئی ہو۔ کیونکہ جو بھی سوال پوچھا جا رہا تھا اس کی ماں اس کا جواب دے رہی تھی۔ پھر ڈاکٹر نے اس کو اعتماد دلایا کہ وہ اس کی بیٹی کو ضرور نوکری دے گا ۔ تو وہ ماں بیٹی دونوں خوشی خوشی کمرے سے باہر چلی گئیں۔ شمع اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی ۔
اس کی باری آتے ہی اس نے اپنے سارے ضروری کاغذات انٹرویو لینے والے یعنی ڈاکٹر کی طرح بڑھائے ۔ تو ڈاکٹر نے انگریزی میں سوال پوچھا تو شمع نے بھی انگریزی میں ہی جواب دیا۔ شمع کی خود اعتمادی اور اس کی تعلیمی قابلیت دیکھ کر ڈاکٹر بہت خوش ہوا ۔ اس نے شمع سے پوچھا ،
آپ بہت پڑھی لکھی ہیں ۔۔۔۔۔۔ آپ کو تو کسی بڑے ادارے میں کام کرنا چاہیے۔۔۔ تو پھر اس چھوٹی سی پوسٹ کے لیے کیوں آئی ہیں ۔۔۔۔ ؟
جی ۔۔۔! مجھے اس وقت ایک نوکری کی بہت ضرورت ہے ۔۔۔۔۔
اچھا آپ کے گھر میں کون کون ہے ۔۔۔۔؟
میری ماں۔۔۔۔۔میرا بھائی ہے اور ان کی بیوی بچے ہیں ۔
ٹھیک ۔۔۔۔۔ کیا آپ کی شادی ہوئی ہے۔۔۔۔؟
دراصل ایک سال پہلے میں اپنے شوہر سے ہمیشہ کے لیے علاحدہ ہو گئی ہوں۔۔۔۔ اب میں اپنے گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو کے خود اپنی ذمہ داری لینا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ شمع کے الفاظ میں درد تھا ۔ اس کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔
یہ سنتے ہیں ڈاکٹر کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ وہ خون کے آنسو رونے لگا ۔ اس نے رومال اپنی جیب سے نکال کر آنسو پوچھتے ہوئے شمع سے کہا ، تمہاری کہانی سن کر مجھے اپنی چھوٹی بہن کی یاد آگئی ۔۔۔۔ اس کے ساتھ بھی ایک ایسا ہی حادثہ ہوا کہ وہ صدمے میں چلی گئی ۔۔۔۔۔ ہمیں پھر اس کا علاج و معالجہ کرنا پڑا ۔۔۔۔۔ باتوں باتوں میں شمع نے پوچھا کہ اس کی بہن اب کیسی ہے تو اس نے بتایا کہ وہ اب بالکل ٹھیک ہے اور ڈاکٹر کی بیوی بچوں کے ساتھ ہی اس کے گھر میں رہتی ہے۔
ڈاکٹر نے کہا ، بہرحال اب وہ ٹھیک ہے مگر میں ابھی بھی اس کا فکر مند ہوں۔۔۔۔۔ تم بھی میری بہن جیسی ہو ۔۔۔۔۔۔
وہ ڈاکٹر تو اصل میں اس کے باپ کی عمر کا تھا مگر اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر شمع کا دل بھی پگھل گیا اور اس کو خود سے زیادہ ڈاکٹر پر ترس آنے لگا۔ اس نے شمع کو یقین دلایا کہ وہ اس کی ہر حال میں مدد کرے گا اور وہ نوکری اسے ہی ملے گی۔ جیسے ہی شمع باہر نکلنے لگی تو ڈاکٹر نے کہا وہ فون کر کے اسے نوکری کے بارے میں بتا دے گا۔
شمع خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف لوٹی ۔ راستے میں وہ سوچنے لگی کہ ابھی بھی دنیا میں بہت سارے نیک لوگ موجود ہیں جو دوسروں کی تکلیف میں آنسو بہاتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اب اس کو یقین تھا کہ اس کو وہ نوکری مل چکی ہے ۔ اس کو ایک فون کال کا انتظار تھا جو اس نوکری کو یقینی بناتا۔
شمع کو معلوم تھا کہ فون ایک ہفتہ کے اندر ہی آئے گا ۔ اگلے دن شمع گھر میں اپنے کام میں مشغول تھی تو اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ ماں نے شمع کو بلایا اور کہا فون ہے۔ شمع جلدی سے آئی اور فون کے نمبر کی جانچ کرنے لگی تو وہ ایک انجان نمبر تھا۔ آخر کار اس نے فون اٹھا ہی لیا۔
ہیلو ۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو ۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو کس سے بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔؟
او ۔۔۔۔۔۔۔تو آپ نے مجھے پہچانا نہیں ۔۔۔۔۔۔ کل ہی تو ملاقات ہوئی تھی۔ بھول گئی کیا ۔۔۔۔۔؟ میں ڈاکٹر ۔۔۔۔ انٹرویو تو لیا تھا نا میں نے۔۔۔۔۔۔
اچھا اچھا آپ ہیں ۔۔۔۔ جی معاف کیجئے گا مجھے لگا کوئی انجان فون کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ کیسے ہیں آپ ۔۔۔۔؟ شمع نے چونکتے ہوئے کہا ۔
کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔ میں نے فون اس لئے کیا کہ دراصل میں پیشے سے ڈاکٹر ہوں اور اب میں نے سائیڈ بزنس شروع کیا، اس کمپنی کو کھول کر ۔ لیکن یہ کمپنی میرے اکیلے کی نہیں ہے بلکہ اس کمپنی کے دو شراکت دار ہیں۔۔۔ ایک میں اور ایک دوسرا شخص ہے ۔ اب بات یہ ہے کہ میری طرف سے آپ کی نوکری پکی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرا دوسرا شریک تنخواہ کم بتا رہا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ تمہاری قابلیت کے مقابلے میں وہ بہت کم ہے ۔ اب میں اس کو تنخواہ بڑھانے کے لیے منا رہا ہوں جیسے ہی وہ میری بات مانے گا میں تمہیں بتاؤں گا ۔۔۔۔ کہہ کر فون رکھ دیا۔
اسی روز ڈاکٹر شام کو پھر سے فون کرتا ہے ۔شمع نے فون اٹھا لیا تو ڈاکٹر نے کہا کہ شرکت دار سے بات ہو رہی ہے اور ممکن ہے کہ وہ کل تک بات مان ہی جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب ابھی مسکرا کر شمع کو ہمت رکھنے اور غم نہ کرنے کی صلاح دے رہا تھا۔ شمع کو اب کچھ اس کا بار بار فون کرنا عجیب سا لگ رہا تھا۔
اگلی صبح شمع کے فون کی گھنٹی بجی تو یہ ڈاکٹر صاحب تھے ۔ شمع اب خوش ہو گئی کہ نوکری اب اس کو مل ہی جائے گی ۔ اس نے فون اٹھا کر کان تک لیا اور سلام کی۔
ہیلو ۔۔۔۔۔ وعلیکم السلام ۔۔۔۔ کیسی ہو ۔۔۔۔؟ ڈاکٹر نے کہا ۔
جی ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ شمع نے جواب دیا ۔ وہ اب بے قراری سے انتظار میں تھی کہ وہ نوکری پکی ہو گئی ہے کہے گا ۔
ہاں ۔۔۔۔۔! سنو مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے ۔۔۔۔۔۔
جی کہیے ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے معلوم ہے تم کس خبر کا انتظار کر رہی ہو ۔۔۔۔۔ وہ تو سمجھو کہ نوکری پکی ہے۔۔۔ مگر مجھے تمہیں کچھ اور بھی بتانا ہے ۔۔۔۔
جی کہیے ۔۔۔۔۔۔ شمع کچھ اور کہہ پاتی تو ڈاکٹر نے کہا ،
سنو ۔۔۔۔! مجھے تم پسند ہو ۔۔۔۔ وِل یو بی مائی گرل فرینڈ ۔۔۔؟
شمع کچھ اور سن پاتی کہ اس کے ہاتھ کانپنے لگے اس کی ٹانگیں لڑکھڑانے لگیں اور فون اس کے ہاتھ سے پھسل گیا، جس کے زمین پر گرتے ہی ٹکڑے ہو گئے۔ اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیونکہ یہ تلخ الفاظ جیسے اس کے کانوں کو چیرتے ہوئے اس کی روح کو زخمی کرتے گئے۔ اس کو لگا جیسے اس کے پیروں تلے زمین کھسکتی گئی اور اس کو احساس ہوا کہ زلزلہ ہی آیا ہے ۔ اس نے یکدم دیوار کو تھام لیا اور اسی دیوار کے سہارے نیچے بیٹھ گئی اور وہ تلخ الفاظ ایک زہر کے گھونٹ کی طرح پی گئی۔
���
حضرتبل، سرینگر