عارف بلوچ
اننت ناگ // اننت ناگ ضلع کی معیشت میں زراعت کو اہم مقام حاصل ہے۔ ضلعی معیشت میں زراعت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2019 کے دوران64.56% حصہ کسی نہ کسی طریقے سے زرعی سرگرمیوں کے تحت تھا۔اننت ناگ ضلع کے متعدد علاقوں میں گذشتہ کئی برسوں سے کسان تربوز کی کھیتی کررہے ہیں ۔جدید زرعی تکنیکوں کی وجہ سے بھرپور فصلیں حاصل ہوئیں جس نے نہ صرف مقامی معاش کو تبدیل کیا ہے بلکہ وادی کشمیر کے دیگر کسانوں کی دلچسپی کو بھی متاثر کیا ہے۔ مٹن سے 6چھ کلومیٹر دور چک آشرداس کے خوبصورت گاؤں میں45 سالہ کسان محمد اسلم خان نے ہائبرڈ تربوزاُگا کر اپنے دیرینہ خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے کیونکہ وہ تجارتی پیمانے پرکامیابی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔وانتر چک کے محمد اسلم خان کا سفر 2008 میں شروع ہوا جب انہوں نے آزمائشی بنیادوں پرزمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر تربوز اگانا شروع کیا۔ اچھی فصل اور مالی فوائد سے حوصلہ پاتے ہوئے انہوں نے آہستہ آہستہ پودے لگانے کا رقبہ 16 کنال تک بڑھا دیا۔تبدیلی صرف محمد اسلم تک محدود نہیں ہے۔اب گائوں کے دوسرے کسانوں نے غیر متزلزل جوش کے ساتھ تربوز کی کھیتی کو اپنایا ہے۔
جدید زرعی تکنیکوں کی وجہ سے بھرپور فصلیں حاصل ہوئیں جنہوں نے نہ صرف مقامی معاش کو تبدیل کیا ہے بلکہ وادی کشمیر کے دیگر کسانوں کی دلچسپی کو بھی متاثر کیا ہے۔ آج اسلم خان کے تربوز کی بہت زیادہ مانگ ہے اور گاؤں کے دوسرے کسانوں نے بھی 80 کنال سے زیادہ اراضی پر ان کی کاشت شروع کر دی ہے۔ان کھیتوںکے تربوز کو جو چیز الگ کرتی ہے وہ ان کا منفرد ذائقہ، رنگ اور سائز ہے۔خان نے کہا’’وہ زیادہ میٹھے، مکمل طور پر سرخ ہوتے ہیں، اور ان کا وزن 20 کلو تک ہو سکتا ہے۔ اگرچہ موجودہ فصل قدرے چھوٹی ہے، جس کا وزن تقریباً 13 کلوگرام ہے، مجھے یقین ہے کہ وقت کے ساتھ اس کا سائز بڑھے گا‘‘۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ضلع میں تجارتی بنیادوں پر تربوز کی کاشت کی گئی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر زیادہ کسان اس فصل کو لے لیں تو کشمیری تربوز ملک کے دیگر حصوں کو اچھے نرخوں پر برآمد کیے جا سکتے ہیں۔چیف ایگریکلچر آفیسر اننت ناگ اعجاز حسین ڈار نے بتایا کہ پہلے پہلے تربوز کی کھیتی میں لوگوں کی دلچسپی کم نظر آئی تاہم گذشتہ 2 سال میں اس شعبہ سے 25 خاندان جڑ گئے اور اس وقت صرف چک آشرداس میں 81 کنال پر تربوز کی کھیتی ہورہی ہے اور کسان کو 1 کنال سے سالانہ 1.25 لاکھ روپیہ کی آمدنی حاصل ہوتی ہے وہ بھی صرف 47 دن میں ہی۔سالانہ پیدوارکے حوالے سے انہوں نے کہ قریبا” 3000 کوئنٹل تربوز امسال ہوگی ۔آفیسر کا کہنا ہے کہ تربوز کی کھیتی کے لیے کشمیر موزوں جگہ ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ضلع میں تجارتی بنیادوں پر تربوز کی کاشت کی گئی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر زیادہ کسان اس فصل کو لے لیں تو کشمیری تربوز ملک کے دیگر حصوں کو اچھے نرخوں پر برآمد کیے جا سکتے ہیں۔