عبدالمجید بھدرواہی
شفی ایک محنتی اور دیندار مزدور تھا جو ایک چھوٹے سے گاؤں میں اپنی بیٹی کلثوم کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی بیوی کا انتقال برسوں پہلے ہو چکا تھا اور اب کلثوم ہی اس کی زندگی کا واحد سہارا تھی۔ شفی کا سب سے بڑا خواب تھا کہ کلثوم اچھی تعلیم حاصل کرے، عزت دار زندگی گزارے اور کسی قابل بنے، مگر غربت کی وجہ سے اس کا سفر دشوار تھا۔ وہ روزانہ دن بھر سخت محنت کرتا، مزدوری کے لئے کبھی اینٹیں اٹھاتا، کبھی کھیتوں میں کام کرتا، کبھی لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچتا، تاکہ اپنی بیٹی کی ضروریات پوری کر سکے۔
اسی گاؤں میں ایک امیر، مغرور اور ظالم شخص، سیٹھ سراج الدین بھی رہتا تھا۔ وہ نہایت متکبر اور خودغرض انسان تھا، جسے پیسے کی طاقت پر غرور تھا۔ گاؤں کے اکثر غریب لوگ اس کے ظلم و ستم کا نشانہ بن چکے تھے، مگر کوئی اس کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ شفی کا گھر سیٹھ کی حویلی کے قریب تھا اور سیٹھ کی ہمیشہ کوشش رہتی کہ کسی بہانے اسے کمزور کر کے اپنے قابو میں لے۔ مگر سب سے بڑھ کر جو چیز سیٹھ کو بے چین کر رہی تھی، وہ کلثوم کی خوبصورتی اور معصومیت تھی۔ وہ کئی بار غلط نظر سے اسے دیکھ چکا تھا اور دل میں اسے حاصل کرنے کی خواہش پال چکا تھا۔
کلثوم نہایت شریف، باحیا اور نیک سیرت لڑکی تھی۔ وہ روزانہ کالج جاتی، تعلیم حاصل کرتی اور اپنے والد کا سہارا بننے کی امید رکھتی تھی۔ مگر سیٹھ کی گندی نظریں اس کا پیچھا کر رہی تھیں۔ ایک دن جب وہ کالج کے لئے نکل رہی تھی، سیٹھ نے راستے میں روک کر بدتمیزی کی۔ وہ خوفزدہ ہو کر تیز قدموں سے گھر کی طرف بھاگی اور دروازہ بند کرکے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ شفی نے جب بیٹی کو اس حالت میں دیکھا تو اس کا دل جیسے ٹوٹ گیا۔ کلثوم نے سارا واقعہ اپنے والد کو سنایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، مگر بے بسی کے عالم میں وہ کچھ نہ کر سکا۔ وہ جانتا تھا کہ سیٹھ طاقتور ہے، پولیس بھی اس کی جیب میں ہے، گاؤں کے بااثر لوگ بھی اس کے ساتھ ہیں، اگر وہ کچھ کہے گا تو الٹا اسے ہی نقصان پہنچے گا۔
لیکن ایک چیز تھی جس پر شفی کو بھروسہ تھا، اور وہ تھا اللہ کا انصاف۔ اس رات اس نے تہجد میں کھڑے ہو کر اللہ سے رو رو کر دعا کی، “یا اللہ! میں کمزور ہوں، بے بس ہوں، میری مدد فرما، مجھے اور میری بیٹی کو اس ظالم کے ظلم سے بچا لے۔ میں کسی انسان سے مدد نہیں مانگ سکتا، کیونکہ سب بکے ہوئے ہیں، مگر تو سب سے بڑا ہے، تو ہر چیز پر قادر ہے۔” اس نے لمبی دعا کی اور دل میں یقین بٹھا لیا کہ اللہ ضرور انصاف کرے گا۔
سیٹھ کی درندگی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے شفی کو دھمکی دی کہ اگر اس نے مزاحمت کی تو اسے بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ شفی مجبور تھا، مگر وہ اپنی بیٹی کے تحفظ اور عزت کے لئے ہر حد تک جانے کے لئے تیار تھا۔ وہ گاؤں کی مسجد میں امام صاحب کے پاس گیا اور ان کے سامنے اپنی پوری داستان سنائی۔ امام صاحب نے غور سے سنا، تسلی دی اور کہا، “بیٹا، اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ تمہارے صبر کا بدلہ ضرور ملے گا۔” امام صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ خود سیٹھ سے بات کریں گے اور شفی کے ساتھ اس کے گھر جائیں گے تاکہ اسے سمجھا سکیں۔
مگر جب وہ سیٹھ کے دروازے پر پہنچے تو وہاں کا منظر حیران کن تھا۔ پورے گاؤں میں خبر پھیل چکی تھی کہ سیٹھ کا اکلوتا بیٹا ایک خوفناک کار حادثے میں ہلاک ہو چکا ہے۔ پورا گھر بین کر رہا تھا، عورتیں رو رہی تھیں، نوکر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے، اور سیٹھ زمین پر بیٹھا بے جان سا نظر آ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، آنکھوں میں بے بسی اور خوف تھا۔ وہ اپنی جگہ سے ہلنے کے قابل بھی نہ تھا، بس دیوار کے سہارے بیٹھا خلا میں گھور رہا تھا۔
امام صاحب نے قریب جا کر سیٹھ کو آواز دی، “سیٹھ صاحب! آج آپ کو احساس ہوا ہوگا کہ دولت کسی کام نہیں آتی۔ طاقت، شہرت، اثر و رسوخ سب کچھ بے معنی ہے جب اللہ کا فیصلہ آتا ہے۔ آپ نے شفی پر ظلم کیا، اس کی بیٹی کی عزت پر بری نظر رکھی، اس کا حق چھیننا چاہا، مگر آپ بھول گئے کہ اللہ سب دیکھ رہا تھا۔ وہ ہر مظلوم کی آہ سنتا ہے، ہر ظالم کا غرور خاک میں ملاتا ہے۔ آج آپ کا غرور، آپ کا تکبر، سب ختم ہو چکا ہے۔”
سیٹھ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ لرزتے ہوئے قدموں سے شفی کے قریب آیا، اور اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے، “مجھے معاف کر دو شفی بھائی! میں نے تمہارے ساتھ جو ظلم کیے، اس کے لئے میں شرمندہ ہوں۔ میں نے سمجھا تھا کہ میں سب کچھ کر سکتا ہوں، مگر آج میں نے جان لیا کہ اللہ کے آگے سب بے بس ہیں۔ مجھے معاف کر دو، میری مغفرت کے لئے دعا کرو۔” شفی کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے، مگر وہ جانتا تھا کہ اللہ کی عدالت سب سے بڑی ہے۔ اس نے سیٹھ کو معاف کر دیا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، وہ کبھی محروم نہیں رہتا۔
سیٹھ نے اپنی باقی زندگی اللہ کی عبادت میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے غریبوں کی مدد کرنے لگا، مسجدوں میں چندہ دینے لگا اور اپنی دولت کو نیک کاموں میں لگانے کا ارادہ کر لیا۔ شفی نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس کی فریاد سن لی۔
یہ ایک ایسی رات تھی جو انصاف کی رات تھی۔ جس میں ایک مظلوم کی دعا نے آسمان کے دروازے ہلا دیے، ایک ظالم کا غرور خاک میں ملا، اور اللہ کے انصاف نے ثابت کر دیا کہ دنیا میں طاقتور صرف وہی ہے جو سب سے بڑا اور سب سے برتر ہے۔ شفی نے سکون کی سانس لی، کیونکہ اسے یقین تھا کہ سچائی کبھی نہیں ہارتی اور ظلم ہمیشہ مٹ جاتا ہے۔
���
ہمہامہ، سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛8825051001