جگت پرکاش نڈا
معزز وزیر اعظم جناب نریند رمودی جی نے ملک سے ٹی بی یعنی تپ دق کے انسداد کا واضح نعرہ دیا ہے۔ ان کی قیادت میں ٹی بی کی نگہداشت کے سلسلے میں ایک نیا ماڈل اختیار کیا گیا اور بھارت نے ٹی بی کی روک تھام، تشخص اور معالجے کے سلسلے میں ایک مثالی تبدیلی ممکن بنانے کے لیے گذشتہ چند برسوں کے دوران متعدد اختراعی طریقہ ہائے کار کے معاملے میں پیش رو کی حیثیت سے کردار ادا کیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی عالمی ٹی بی رپورٹ 2024 کے انکشافات میں اب تک اپنائے گئے طریقہ کار کی اثر انگیزی کا اعتراف کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بات بطور خاص متذکرہ ہے کہ بھارت میں تپ دق کے لاحق ہونے کے معاملے میں 2015 سے لے کر 2023 کے درمیان 17.7 فیصد کی تخفیف رونما ہوئی ہے۔ یہ عالمی پیمانے پر مشاہدہ کی جانے والی تخفیف کے مقابلے میں دوگنی شرح ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، ملک نے 25.1 لاکھ کے بقدر مریضوں کی تشخیص انجام دی، اس طریقہ سے 2015 میں ایسے مریضوں پر معالجہ پر مبنی احاطہ جو 59 فیصد تھا وہ 2023 میں بڑھ کر 85 فیصد کےبقدر ہو گیا۔
7 دسمبر کو، وزیر اعظم کی تصوریت سے ترغیب حاصل کرکے بھارت نے انسداد ٹی بی کی حکمت عملی کے معاملے میں ایک دیگر تغیراتی توجہ ملاحظہ کی۔ حکومت نے پنچ کلا سے 100 دنوں پر مشتمل ملک گیر مہم کا آغاز کیا اور اسے پوری شدت سے آگے بڑھایا۔ اس کے تحت زیادہ پیمانے پر تپ دق کے حامل 347 اضلاع پر احاطہ کیا گیا، یہ تپ دق کے خلاف نبرد آزمائی کے سلسلے میں ہمارے ردعمل کو مہمیز کرنے کے مترادف تھا۔ اس پہل قدمی نے جلد از جلد ہر ایک ٹی بی مریض کی شناخت کرنے کے ہمارے عزم کو نئی قوت بخشی۔ اس کے لیے سرگرم طریقے سے خستہ حال اور متاثرہ آبادی تک رسائی حاصل کی گئی اور انہیں بروقت، ضرورت پر مبنی اور عمدگی کا معالجہ فراہم کیا گیا۔ جن بھاگیداری کے حقیقی جذبے سے سرشار ہوکر ہمارے تمام منتخبہ نمائندگان، صحتی معالجین ، مہذب معاشرے، کارپوریٹ اداروں اور برادریوں نے اس مہم کو عظیم الشان کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے باہم اشتراک کیا۔
ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے سرگرم اشتراک کے ساتھ یہ نئی مہم بھارت کے انسداد تپ دق کے سفر میں ایک دیگر سنگ میل بن جانے کی توقع کی حامل ہے۔
انسداد تپ دق کے سلسلے میں بھارت کا سماجی طریقہ کار
توسیع شدہ تشخیصی کوششوں کو تقویت بہم پہنچانے اور تپ دق کے مریضوں کی مکمل صحت بحالی میں امداد بہم پہنچانے کے لیے بھارت نے ایک تغذیہ جاتی امدادی اسکیم کا نظریاتی خاکہ وضع کیا اور اسے نافذ کیا۔ یہ اسکیم جس کا نام ’نی -کشے پوشن یوجنا (این پی وائی)‘ ہے ، وضع کی گئی۔ اپریل 2018 سے ہم نے این پی وائی کے تحت راست فائدہ منتقلی کے توسط سے 1.16 کروڑ استفادہ کنندگان کو 3295 کروڑ روپئے کی رقم تقسیم کی ہے۔ انسداد تپ دق کے سلسلے میں بھارت کی عہد بندگی کے تئیں یہ ایک بڑی تقویت تھی، اسکیم کے تحت ماہانہ امداد موجودہ 500 روپئے سے بڑھاکر 1000 روپئے ماہانہ نومبر 2024 سے کر دی گئی ہے۔
ایک دیگر اہم پہلو- ٹی بی مکت بھارت ابھیان نے نہ صرف یہ کہ تغذیہ سے متعلق چنوتیوں کا حل نکالنے میں مدد دی ہے بلکہ سماج کو بیدار کرنے کے عمل کو بھی تقویت بہم پہنچائی ہے۔ اس پروگرام نے مختلف برادری شراکت داروں کو بھی متحد کیا ہے اور بیداری میں اضافہ لانے اور تغذیہ جاتی، پیشہ وارانہ اور ٹی بی مریضوں کو نفسیاتی تسلی بہم پہنچانے کے سلسلے میں ایک عوامی تحریک جیسا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ یہ سرکاری – شہری ہم آہنگی جن بھاگیداری کے جذبے سے سرشار ہے اور اتنی قوت ور ہے کہ اس نے 1.75 لاکھ کے بقدر نی-کشے متروں کو ملک بھر میں مریضوں کو 21 لاکھ کے بقدر خوردنی باسکٹ فراہم کرنے کا عمل ممکن بنایا ہے۔
انسداد تپ دق کے لیے اختراع کی سمت کا تعین
گذشتہ برسوں میں بھارت نے نئی کیمیاوی اشیاء مثلاً بیڈاکیولین اور ڈیلامینڈ متعارف کرائی ہیں تاکہ معالجاتی کامیابی کی شرحوں کو بہتر بنایا جا سکے ۔ مریضوں کے لیے معالجے کی تکمیل کے سلسلے میں عائد چنوتیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں ادویہ کے خلاف ردعمل کے عناصر سے محفوظ رکھنے کے لیے ہم نے ایک نیا مختصر دورانیہ یعنی بی پی اے ایل ایم متعارف کرایا ہے جو موجودہ دورانیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مؤثر ہے۔ جہاں ایک جانب ہمارے پاس 9-11 مہینوں پر مشتمل نسبتاً مختصر دورانیے ہیں، ساتھ ہی ساتھ 19-20 مہینوں پر مشتمل روایتی دورانیے بھی موجود ہیں، بی پی اے ایل ایم کے ساتھ دورانیہ کے لحاظ سے مریض اب چھ مہینوں میں مکمل معالجاتی مراحل مکمل کر سکیں گے۔
ہم نے پیہم اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ ترقی یافتہ اور جدید ترین ذرائع بنیادی سطح پر دستیاب ہوں اور ہر مریض جلد از جلد معالجے میں ان سے استفادہ حاصل کرسکے۔ اس مقصد کو حقیقی شکل دینے کےلیے مزید اثر انگیز اور صحیح صحیح تشخیص کرنے والے ذرائع یعنی مالی کیولر جانچ وغیرہ کا اہتمام کیا ہے۔ 2014-15 میں جہاں چند سو مشینیں تھیں، وہیں اب ہمارے پاس 8293 مالی کیولر تشخیصی مشینیں تمام تر اضلاع میں دستیاب ہیں۔
دراصل، میک ان انڈیا پہل قدمی سے ترغیب حاصل کرتے ہوئے اندرونِ ملک مالی کیولر جانچوں کا اہتمام کیا گیا ہے اور ان کو فیلڈ آزمائش سے گزارنے کے بعد متعارف کرایا گیا ہے۔ ہم نہ صرف ضلعی اور بلاک کی سطح پر ٹی بی کی تشخیص کے معاملے میں صرف ہونے والے وقت میں تخفیف لانے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں جانچ اور معالجے کی لاگت میں بھی زبردست تخفیف ہوئی ہے۔ ہماری اندرونِ ملک مالی کیولر جانچ کو عالمی ادارہ صحت کی توثیق بھی حاصل ہوئی اور ان کا استعمال دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔ ان پہل قدمیوں نے بھارت کو عالمی انسداد تپ دق ردعمل کے معاملے میں صحیح معنوں میں ایک قائد کی حیثیت عطا کی ہے۔
ہمیں اس حقیقت پر بھی بجا طو رپر فخر ہونا چاہئے کہ بھارتی طبی تحقیقی کونسل (آئی سی ایم آر) لگاتار 2018 [1]سے تپ دق کی تحقیق کے معاملے میں عالمگیر پیمانے پر سرکردہ عوامی سرمایہ فراہم کار تنظیم ثابت ہوئی ہے۔ ہم نئے اوزاروں اور ذرائع کو وضع کرنے اور انہیں فوری طور پر متعارف کرانے کے لیے سرمایہ کاریوں کا عمل جاری رکھیں گے۔ اس میں پہلے سے کہیں زیادہ مؤثر اور حفظانِ صحت کے لحاظ سے تشخیصی پہلو بھی شامل ہوں گے۔
مستقبل پر نظر:۔
انسداد تپ دق کے معاملے میں بھارت کا سفر مختلف شعبوں میں اختراع کی حوصلہ افزائی کے معاملے میں اس کی قیادت کا ایک بین ثبوت رہا ہے اور اس نے پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی تکنالوجیوں کوتیز رفتار طریقے سے دستیاب کرایا ہے۔ پیش رو حیثیت سے کی گئی تحقیق جس نے ترقی یافتہ تشخیصی اور معالجاتی راستے کی قیادت کی ہے، سے لے کر آفاقی سماجی امداد کی تجاویز متعارف کرانے تک، بھارت عالمی ٹی بی ردعمل کے معاملے میں سرفہرست ملک بن کر کھڑا ہے۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ایک زبردست پیمانے پر جن بھاگیداری شناخت، تشخیص، معالجے اور ٹی بی کی روک تھام کے لیے یقینی بنائی جائے۔ پوری زور شور سے چلائی جانے والے 100 دنوں پر مشتمل مہم انسداد تپ دق کے معاملےمیں ہماری اجتماعی عہد بندگی کا ایک مزید ثبوت ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارے معزز وزیر اعظم کی قیادت میں اور تمام تر شراکت داروں کی شرکت کے ساتھ ہم بنی نوع انسانیت کے بڑے دشمن کو شکست دیں گے اور سب کے لیے ایک صحت مند مستقبل بہم پہنچائیں گے۔
(مصنف صحت اور کنبہ بہبود کے معزز مرکزی وزیر ہیں۔بشکریہ پی آئی بی)