ہلال بخاری
ہم حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ وہ ربّ العالمین کے برگزیدہ نبی اور بندے تھے۔ اُن کو اللہ پاک نے اپنے ربانی ہاتھوں سے تخلیق کرکے سکون کی زندگی عطا کی۔ وہ ربّ العالمین کے قریبی اور چنے ہوئے بندوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے بے شمار نیکیاں کی۔ مگر وہ اپنی ایک خطا کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں۔ ان کی اس خطا کا ذکر دوسری اہم کتابوں کے علاوہ سب سے اہم کتاب قرآن پاک میں بھی ہے۔ ان کی خطا کی کہانی کو بار بار دہرانے کا مقصد انسان کو اس کی فطرت سے آگاہ کرنا ہے۔ شاید اس کا اصلی مطلب بنی آدم کو یہ سمجھانا ہے کہ اللہ کے سب سے برگزیدہ اور قریبی بندوں سے بھی خطا سرزد ہو سکتی ہے۔ لوگ آپس میں اکثر فضول بحثوں میں ایک دوسرے کے ساتھ الجھ پڑتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ فلاں حضرات سے خطا ہونا ناممکن ہے تو کچھ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں حضرات خطا سے پاک ہیں۔ لیکن جب ہم قرآن کا مطالعہ غور سے کریں تو ہمیں اس بات کا اندازہ ضرور ہوگا کہ اس دنیا میں کوئی بھی بندۂ انسان خطا سے پاک نہیں، ما سوائے ربّ العزت کی ذات ِ پاک کے۔ یہاں تک کہ پیغمبروں ،صحابیوں،ولیوں اور بزرگان ِ دین سے بھی خطائیں سر زد ہوئی ہیں۔ ابن آدم ہونے کی وجہ سے خطا کا عنصر ہر انسان کو وراثت میں ملا ہے۔ اس لئے ہم کسی بھی انسان کے لیے چاہے وہ کتنا بھی برگزیدہ ہو ،یہ تصور نہیں کر سکتے کہ وہ خطا سے صد فی صد پاک ہوگا۔
اگر یہ ہمارا ایمان ہوگا کہ اس دنیا میں ہر کسی شخصیت ،چاہے وہ ماضی میں تھی یا حال میں ہے سےکسی طرح کی خطا ہونا فطری چیز ہے تو اس سے ہم کو اس بات کا احساس ہوگا کہ کسی بھی خطا کی وجہ سے ہم کسی برگزیدہ شخصیت کا بغض رکھنے کے اہل نہیں ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی لیکن ربّ العالمین نے آپ ؑکی خطا بخش دی اور اعلیٰ مقام پر فائز کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کسی کو بھی اپنی رحمت سے نواز سکتا ہے۔
قرآن کا مطالعہ کرکے ہمیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ گناہ آخری زمانے کی ایجاد نہیں بلکہ روز اول سے ہی آدم زاد گناہوں سے متاثر ہوتا آیا ہے۔ ابتدا ءمیں جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا اور قرآن کریم نے اس واقعے کو نقل کیا، تو سمجھ میںآتا ہے کہ حق اور باطل کی کشمکش ہی اس دنیا کی زندگی کا نچوڑ ہے۔ انسان کو اس بارے میں آزادی حاصل ہے کہ وہ بذاتِ خود حق یا باطل میں سے کسی ایک کو چُن سکتا ہے۔ فطرت کی یہی آزادی انسان کا اصلی امتحان ہے۔ شاید اسی خودمختاری کی خبر کو سُن کر فرشتوں نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا تھا کہ انسان دنیا میں اختلاف پھیلائے گا۔ اختلاف بھی انسان کی تواریخ کے ساتھ ساتھ اُبھرتا گیا ہے۔ دنیا میں کوئی دور ایسا نہیں جس میں مختلف انسانوں اور جماعتوں میں اختلاف نہ رہا ہو۔ اسلام کی تواریخ میں ایسے بھی ادوار آئے، جب مومنین کا آپس میں اختلاف ہوا اور یہاں تک کہ جنگ جدل اور خون ریزی بھی ہوئی۔ ہم میں سے کچھ لوگ اس طرح کے واقعات پڑھ کر بدزنی کا شکار ہوجاتے ہیں تو کچھ پوری عمر سچ کو جھٹلانے کے کوشش میں رہتے ہیں۔ لیکن قران کی تعلیم یہ ہے کہ انسان کی زندگی حق اور باطل کا ایک مسلسل معرکہ ہے۔ اللہ ہی کو خبر ہے کہ کس شخصیت کا خاتمہ حق پر ہوا ہے اور کون باطل کے چنگل سے آزاد ہونے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس لئے ہمیں کسی بھی شخص یا گروہ سے بدظن ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ انسانیت دراصل خود میں ہی حق اور باطل کی کشمکش ہے۔ ہماری فطرت کے اندر حق اور باطل کے درمیان مسلسل جدو جہد جاری رہتی ہے۔ جس انسان میں باطل کے پہلو غالب آجاتا ہے وہ آخر کار نامرادی کی طرف بڑھتا ہے۔ جس انسان میں حق کا پہلو غالب آجاتا، اُسے اللہ اپنی رحمت سے نواز کر اپنے عزیزوں میں شمار کرتا ہے۔ اسی لئے ہماری بہتری اس امر میں ہے کہ ہم مسلسل اپنی اصلاح میں رہیں اور دوسروں کے بارے میں بدظُن ہونے کے بجائے اپنی نجات کی فکر میں رہیں۔
[email protected]