محبت ،انسانیت کا دوسرا نام ہے۔انسانیت جسم کی ساخت کا نام نہیں ،مزاج کی خوبیوں کا نام ہے ۔برد باری اور علم انسانیت کو آراستہ کرتے ہیںاور بد خواہی کو انسانیت کا کلنک سمجھا جاتا ہے۔جبکہ دنیا کو بھول کر محض خدا کی عبادت میں مصروف ہوجانے سے انسانیت منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ہمارا رجحان اورہماری زندگی کی کسوٹی ہی ہماری انسانیت کی پہچان ہے۔محبت و اخوت کی سب سے بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس کو ہر ایک پڑھنے والا آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے انسان کو کسی لغت کو پڑھنے یا کسی ماہر کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی۔محبت کا پیغام تمام عالم انسانیت کے لئے ہے ،چاہے وہ کسی بھی ذات، مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ۔سچ بھی تویہی ہے کہ انسان کو قدرت نے دانائی کا نور بنا کر بھیجا تھا لیکن اس نے خود کو نور کے بجائے آگ کی صورت میں پیش کرنے میں ترجیح دی ہے۔ قدرت نے جس انسان کو محبت اور ہمدردی بانٹنے کے لئےبھیجا تھا ،اُسی انسان نے دین و ایمان کو کاروبار کی طرح اپنایا،یعنی وہ دین و ایمان کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتا ہے اور اپنی لالچ اور ہوس کی وجہ سے درندوں سے بھی بدتر بن جاتا ہے۔ قدرت نے لا تعداد وسائل بنا کر تمام عالم انسانیت کو اپنے کرم سے نوازا تھا تاکہ سب لوگ مل بانٹ کر ان وسائل کا استعمال کرکے ترقی کے منازل طے کریں لیکن کچھ انسان ان وسائل پر اس طرح قابض ہوگئے کہ دوسرے لوگوں کو ان کے آس پاس بھی بھٹکنے نہیں دیتے۔اگرچہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جو انسانوں کو انسانوں کے خلاف نفرت اور حقارت سکھاتا ہو۔ مگر آج کی دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو خود کو دین اور مذہب کا ستون توسمجھتے ہیں لیکن انکا کام اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ وہ دین و مذہب کے نام پر فسادات اور انتشار پھیلانے کا کام کریں اور ان کو گمان ہو کہ وہ اپنے دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر لوگ دین کا نام استعمال کرکے دراصل اپنے ذاتی مفاد کی فکر میں ہوتے ہیں اور یہی لوگ دین و مذہب کا نام لیتے ہوئے اس دنیا میں فساد برپا کرتے ہیں اور پوری انسانیت کو شرمسار ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔گویا آج کے انسان کی سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ فتنوں اور فسادات کو دین داری سمجھتے ہیںلیکن دراصل وہ گمراہی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں، غلط فہمی و جہالت کے شکار ہیںاور خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔اُن کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ سکون سے زندگی گذارسکیں یا کوئی کامیابی حاصل کریں ،یہی وجہ ہے کہ وہ خود اپنے آپکو بھلائی اور بہتری سے کوسوں دور پاتے ہیں۔اسی طرح سے جو لوگ آج کل کے زمانے میں بھی وہم اور توہم پرستی کا شکار ہیں، انکی مثال بھی ایسی ہی ہے جیسے وہ خود ہی اپنے گھروں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اصل میں بیدار ہوکر زندگی گزارنے کا ہنر سیکھ لیں۔ مگر افسوس ،انسان بہت عرصے سے مقام انسانیت سے گر چکا ہے اوردرندگی کے معاملے میں نہایت خونخوار درندوں کو بھی مات دے رہا ہے۔ آج انسان آپس میں نہ جانے کس بات پر، کس شئے کے حصول کے لئے بے دریغ دست وگریباں ہے۔ پوری دنیا میں خون ریزی ہورہی ہے، انسانیت کے پر خچے اُڑا دیئے جارہے ہیں، ظلم وستم کی انتہاہوگئی ہے، انسان کی نظر میں انسان کی کوئی اہمیت نہیں رہی،جبکہ بے حسی اور انسانیت سے لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ اگر سڑک پر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے تو وقت کی کمی یا کسی مسئلے میں پھسنے کے ڈر سے لوگ چپ چاپ اپنی راہ لے لیتے ہیں۔ایک وہ لوگ تھے جنھوں نے انسانیت کے نام پر اپنی پیاس کو پسِ پشت ڈال کر اپنے ساتھیوں کی پیاس کو فوقیت دی تھی ، مگر آج انسان کی حالت انتہائی دگرگوں ہےاورایسے ایسے انسانیت سوز واقعات رونما ہورہے ہیں کہ انسانیت ہی شرم سے پانی پانی ہورہی ہے۔حالانکہ قومیں انسانیت کے شہری ہوتے ہیںجو محبت ،محنت ،صبر ،استقلال سے انسانیت کو تکمیل تک پہنچاتی ہیںمگر اب انسان انسانیت سے حد درجہ کم تر ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہےاور انسانیت پست سے پست ترہورہی ہے۔