سرینگر//کشمیر میں1965 کے بعد پیدا شدہ حالات اور جیلوں کی صورتحال کو قلمبند کرتے ہوئے انجینئر محمد یوسف مجاہد کی داستان زندان’’جیل ڈائری،کشمیر ان کہی کہانی کو منظر عام پر لایا گیا،جس کے دوران کتاب کے مصنف نے بتایا’’یہ کوئی فسانہ نہیں بلکہ وہ روداد ہے،جس کا سامنا انہیں کرنا پڑا‘‘۔کشمیر سینٹر فار سوشیل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈئز کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب کے دوران انجینئر محمد یوسف بٹ(مجاہد ) کی تحریر شدہ کتاب کی رسم رونمائی ہوئی،جس کے دوران انجینئر انور عشائی،ڈاکٹر جاوید اقبال،زیڈ جی محمد،عبدالمجید زرگر اور زمردہ حبیب بھی موجود تھیں۔اس دوران منعقدہ تقریب کے دوران مقررین نے1965کے مابعد حالات اور پکڑ دھکڑ کو منظر عام پر لاتے ہوئے کہا کہ غالباً اس دور کی یہ پہلی کتاب ہیں،جو منظر عام پر لائی گئی۔مقرین نے کہا کہ اگرچہ کئی لیڈروں نے اپنی زندگی کے بیشتر ایام پس از زندان گزارے تاہم سید علی گیلانی،زمردہ حبیب،افتخار گیلانی،صحافی مقبول ساحل سمیت دیگر کچھ لوگوں کے بغیرشاید ہی کسی نے روداد قفس کو تحریر کیا،جس کی وجہ سے مزاحمتی لٹریچر ادھورا اور کمزور ہوا ہے۔ سیول سوسائٹی کارکن ڈاکٹر الطاف احمد نے کہا کہ انجینئر محمد یوسف مجاہد کو پہلی مرتبہ1965میں گرفتار کیا گیا،اور بعد میں پروینہ(پرمشیوری) کا کیس ہوا،تو انہیں ایک مرتبہ پھر گرفتار کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ محمد یوسف مجاہد، جیل میںمرحوم محمد مقبول بٹ پر ڈھائے گئے تشدد اور ٹارچر کے گواہ بھی ہے،جبکہ انہوں نے اس کتاب میں اس بات کی منظر کشی کی ہے کہ کس طرح جیلوں میں پولیس انسانوں سے غیر انسانوں جیسا رویہ اختیار کرتے تھے۔کتاب کے مصنف انجینئر محمد یوسف مجاہد نے بتایا کہ انہوں نے جیل میں ہی ڈائری لکھنی شرع کی تھی،تاہم اس کا پہلا حصہ ضائع ہوا،مگر کالم نویس زیڈ جی محمد سے3برس قبل جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے،انہیں کتاب کا پہلا حصہ اپنی یاداشت کے تحت لکھنے اور اس ڈائری کو کتابی شکل دینے کی ترغیب دی۔انجینئر محمد یوسف نے کہا کہ3سال تک مسلسل انہوں نے کتاب کا پہلا حصہ تحریر کیا،اور اس کو بعد میں کتابی شکل دی گئی۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ کوئی داستان نہیں ہے،بلکہ جیل میں ان کو جس چیز کا سامنا کرنا پڑا اس کی عکاسی ہے۔ تقریب پر ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس دور کی صورتحال سے متعلق اپنے تجربات سے سامعین کو آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ انجینئر محمد یوسف نے خون دل میں انگلیاں ڈبو کر یہ کتاب تحریر کی ہے،جس میں جیل کے اندر اور باہر ان واقعات کو بھی قلمبند کیا،جن میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس بات پر بھی افسوس ظاہرکیاکہ کشمیری لیڈروں نے اگرچہ جیلوں میں کافی عرصہ گزارا تاہم اس دوران جیل کی حالات پر قلم کو جنبش نہیں دی۔ شکیل قلند رنے امید ظاہر کی کہ جیلوں کے واقعات کو قلمبند کیا جائے گا،تاکہ وہ داستانیں منظر عام پر آئیں،جو اب تک انکے سینوں یا جیل کی کال کوٹھریوں کی دیواروں میں ہی دفن ہیں۔عبدالمجید زرگر نے کتاب پر جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ موصوف نے جرمن عرب،اسرائیل جنگ اور دیگر چیزوں کا موازنہ کشمیر کی صورتحال سے کیا ہے۔ تقریب میں ایڈوکیٹ پرویز امروز،خرم پرویز ڈاکٹر مبین شاہ اور دیگر لوگ بھی موجود تھے۔