انتخابی نتائج کےبعد یوٹی جموں وکشمیر میں حکومت سازی! | نئی حکومت کے لئےعلاقائی توازن برقرار رکھنا بڑا چیلنج حال و احوال

الطاف حسین جنجوعہ

جموں وکشمیرمیں 10سال بعد ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد کئی نئے چیلنجزاُبھر کرسامنے آئے ہیں۔عمر عبداللہ کی قیادت والی نئی حکومت کے سامنے تین بڑے چیلنج ہیں(۱)یونین ٹیراٹیر ی میں محدود اختیارات (2)مضبوط اپوزیشن اور (3)حکومت میں نمائندگی کے وقت علاقائی توازن کو برقرار رکھنا شامل ہیں کیونکہ جہاں کشمیر صوبہ میں نیشنل کانفرنس کو واضح منڈیٹ ملا ،وہیں جموں صوبہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ریکارڈ29نشستیں حاصل کرکے سیاسی تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کیا۔کانگریس کی جموں صوبہ میں اب تک کی سب سے بدترین کارکردگی رہی جس کو ہندو اکثریتی اسمبلی حلقوں سے ایک بھی نشست نہ ملی۔پی ڈی پی بھی کشمیر میں تین حلقوں تک سکڑ کر رہ گئی اور جموں میں اس کا ووٹ شیئربھی ریکارڈ سطح پر کم ہوا۔ وہیں بی جے پی ووٹ شیئر کے حساب سے سب سے بڑی پارٹی بنی اور ساتھ ہی کشمیر صوبہ کے اندر بھی اچھا خاصا ووٹ چند حلقوں میں لیا۔

بی جے پی جموں وکشمیر میں پہلی مرتبہ اپنے دم پر حکومت بنانے اور اپنا وزیراعلیٰ بنانے کے لئے پُر امید تھی، پارٹی کو توقع کے مطابق جموں صوبہ کے سبھی حلقوں سے اچھے نتائج ملے، البتہ راجوری پونچھ اضلاع میں تاریخی ووٹ شیئر کو پارٹی اُمیدواروں کی جیت نہ ہوسکی۔بھاجپا کی29نشستوں پر جیت حاصل کرنے والے سبھی ہندو اُمیدوار ہیںجبکہ نیشنل کانفرنس سے سریندر چودھری (نوشہرہ)اور ارجن سنگھ راجو(رام بن)سے جیتے۔آزاد اُمیدوار پیارے لال (اندروال)، ڈاکٹر رمیشور (بنی)اور ستیش شرما(چھمب)کی شمولیت /حمایت سے یہ تعداد اب 5ہوگئی ہے۔ حکومت سازی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ الائنس پارٹنر کانگریس، سی پی آئی (ایم)کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے حمایتی مکتوب کے ساتھ این سی پارٹی لیجسلیچر لیڈر عمر عبداللہ نے 11اکتوبر 2024کی شام راج بھون سرینگر میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے ملاقات کر کے حکومت کا دعویٰ پیش کیا۔ آئینی لوازمات کی تکمیل کے بعد آئندہ چند دنوں میں حلف برداری متوقع ہے۔

جموں صوبہ خاص کر جموں، اودھم پور، کٹھوعہ، سانبہ اضلاع میں متعدد سیاسی، سماجی وعوامی حلقوں کی طرف سے یہ آوازیں اُٹھنا شروع ہوگئی ہیں کہ جموں کو علیحدہ ریاست بنایاجائے۔پچھلے چند روز سے لگاتار سوشل میڈیا پر ایسے متعددلیڈران وکارکنان کے بیانات سامنے آرہے ہیں اور ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جموں کی تعمیر وترقی اور مفادات کا تحفظ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب وزیر اعلیٰ ہمارا ہو یا الگ جموں کو اسٹیٹ ہڈ کا درجہ ملے۔ اس صورتحال میں نیشنل کانفرنس ۔کانگریس حکومت کے لئے علاقائی توازن کو یقینی بناتے ہوئے کابینہ میں جموں صوبہ کو مناسب نمائندگی دینا ایک بڑا چیلنج ہے۔

نہ صرف جموں بلکہ سرحدی اضلاع راجوری پونچھ کو بھی کابینہ میں مناسب نمائندگی دینی پڑے گی کیونکہ یہاں کے لوگوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی پر این سی ترجیحی دی۔ اس لئے بھی خطہ پیر پنچال کو حکومت میں حصہ داری دینی پڑے گی کہ اگر بی جے پی یہاں سے جیت درج کرتی تواس با ت کا قوی امکان تھاکہ وزیر اعلیٰ بھی اسی خطہ سے ہوسکتا تھا۔ اگر چہ عمر عبداللہ نے متعدد انٹرویوز میں یہ واضح کیا ہے کہ جموں کو مناسب نمائندگی ملے گی اور وہ ہر خطے کی توقعات، خواہشات کو ملحوظ ِ نظر رکھیں گے اور یکساں تعمیروترقی کو یقینی بنایاجائے گالیکن اس کو فوری عملی شکل دینے کی بھی ضرورت ہے۔ وزارت ِاعلیٰ کے علاوہ اسپیکر وڈپٹی اسپیکر سمیت کل 10عہدے ہیں جن پر ایڈجسٹمنٹ کرنی ہے۔ اس میں کشمیر سے این سی پارٹی کے لئے یہ بھی بڑا چیلنج ہے کہ وہاں سے متعدد لیجسلیچرز ایسے ہیں جو چار سے زائد مرتبہ ایم ایل اے منتخب ہوکر آئے ہیں اور ماضی میں کابینہ کا بھی حصہ رہ چکے ہیں۔ اِن میں عبدلرحیم راتھر، علی محمد ساگر، مبارک گل، میر سیف اللہ، نذیر خان گریزی اورسکینہ یتو نمایاں نام ہیں۔

نیشنل کانفرنس قیادت والی حکومت کوجموں وکشمیرکو متحد اور یکساں ساتھ لیکر چلنے کے لئے علاقائی توازن قائم کرناہوگا اور اس کے لئے جموں صوبہ سے چاہئے پہلی مرتبہ ہی کیوں نہ کوئی لیجسلیچر منتخب ہوا، کوکابینہ میں نمائندگی دینی پڑے گی۔ پونچھ ضلع سے کم سے کم ایک، راجوری سے ایک نمائندہ کو کابینہ میں جگہ دینی چاہئے۔ اس کے علاوہ جموں اور اودھم پور کو نمائندگی دینے کے لئے ستیش شرما، کٹھوعہ اور سانبہ اضلاع کے لئے ڈاکٹر رمیشور اور وادی چناب کو نمائندگی دینے کے لئے پیارے لال/اروجن سنگھ راجو یا سجاد شاہین میںسے ایک رکن کو کم سے کم کابینہ میں موقع دینا پڑے گا۔

یونین ٹیراٹری میں حکومت کے پاس اختیارات بہت ہی محدود ہیں، اس حکومت کے لئے یہ ہی بڑی کامیابی ہوگی کہ وہ جموں وکشمیر کے سبھی خطوں کو حکومت میں نمائندگی دیکر کم سے کم سبھی کو حصے داری کا احساس دلائے۔اگر موجودہ کابینہ میں سبھی کو نمائندگی نہیں ملتی تو اڑھائی سال کے بعد وزارتوں میں ردو بدل کر کے نئے چہروں کو بھی موقع دیاجاسکتا ہے لیکن سردست جموں صوبہ کو کم سے کم چالیس فیصد کی نمائندگی دینا بہت ضروری ہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر ایسا نہ کیاگیا تو اس سے جموں اسٹیٹ ہڈ کے بیانیے کو خطہ پیر پنچال اور چناب تک بھی تقویت ملنا شروع ہوجائے گی جوکسی بھی صورت میں جموں وکشمیر کے لوگوں کے وسیع مفاد میں نہیں کیونکہ یہ تاریخی ڈوگرہ ریاست مزید تقسیم کی متحمل نہیں ہوسکتا۔ ’کثرت میں وحدت ‘کی مثال جموں وکشمیر میں مذہبی رواداری، آپسی بھائی چارہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے گلدستے کو جوڑ کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر چہ جموں کی طرف سے قانون سازاسمبلی میں پہلی مرتبہ طاقتور اپوزیشن ہے اور وہ اِ س خطہ کی ترقی میں اہم کردار اداکرسکتی ہے لیکن حکومت میں عدم نمائندگی کا جو احساس یا بیانیہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے، اُس میں نئی حکومت کو چاہئے کہ وہ اولین فرصت میں جموں صوبہ کے اندر سماج کے مختلف طبقہ جات سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کرے اور اُنہیں احساس دلایاجائے کہ وہ حکومت کا اہم حصہ ہیں اور اُن کی علاقائی توقعات اور خواہشات کا احترام کیاجائے گا۔