اسد مرزا
گزشتہ ایک مہینے کے دوران امریکہ اور مختلف ممالک کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات ایک دوسرے پر لگائے جارہے ہیں۔ لیکن نظریاتی بیانیہ (آپٹکس) ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف ضرور کام کر رہے ہیں۔ اگر وہ صرف چین کے خلاف محصولات کی جنگ کو منشیات کے خلاف جنگ کے طور پر بیان کرتے تو شاید وہ بہت زیادہ ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے تھے۔لیکن انھوں نے دراصل چین کو ٹیکنالوجی کی منتقلی کو محدود کرنے اور دنیا کی چپس اور سپر کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور صنعت پر غلبہ حاصل کرنے کی امریکی صلاحیت کو بڑھانے کی کوشش کرنے کے لیے دوسرے راستے کا انتخاب کیا ہے۔
تمام چینی اشیا ءپر حالیہ مجموعی 20% ٹیکس ان متعدد محصولات کے اوپر آتا ہے جو ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت میں دسیوں ارب ڈالر کی چینی درآمدات پر عائد کئے تھے۔ اس وقت ٹرمپ 1.0 کے دوران لگائے گئے ان محصولات کا مقابلہ کرنے کے لیے چین نے پہلے سے ہی ایک حکمتِ عملی وضع کرنا شروع کردی تھی۔جس کے نتائج تب بھی اور اب بھی سامنے آرہے ہیں۔2024 تک بیجنگ نے چپس بنانے کے لیے استعمال ہونے والی اہم معدنیات کی امریکہ کو برآمدات روک دی تھیں، امریکی ساختہ ڈرونز کے لیے سپلائی چین کو محدود کر دیا تھا، امریکی لباس کی ایک ممتاز کمپنی کو بلیک لسٹ کرنے کی دھمکی دی تھی اور Nvidia کے خلاف عدم اعتماد کی تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ اقدامات کرکے بیجنگ نے امریکی دباؤ پر قابو پانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا۔مزید برآں، چینی صدر شی جنگ پی نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ ’’چین کسی بھی قسم کی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہے کیونکہ وہ امریکی تجارتی محصولات میں اضافے کے خلاف جوابی کارروائی کرسکتا ہے۔‘‘
دراصل ٹرمپ نے امریکہ میں فینٹینیل نامی نشہ آور کیمیکل بھیجنے کے لیے بیجنگ کو مورد الزام ٹھہرا کر چینی سامان پر تازہ محصولات عائد کرنے کا جواز پیش کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان مہلک مادوں کا ایک ’’بڑا حصہ ‘‘چین میں تیارجاتا ہے اور امریکہ میں برآمد کیا جاتا ہے۔ چین نے اپنے دفاع میں وائٹ ہاؤس پر محصولات میں اضافے کے ذریعے ’’بلیک میل‘‘ کرنے کا الزام لگایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس دنیا کے سب سے سخت ترین انسداد منشیات کی پالیسیاں اور قوانین ہیں، جنھیں وہ عملاً نافذ بھی کرتا ہے۔امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ دیگر ممالک نے کئی دہائیوں سے امریکہ کے خلاف محصولات کا استعمال کیا ہے۔ ’’اب ہماری باری ہے کہ ہم انہیں دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنا شروع کریں۔ اوسطاً یوروپی یونین، چین، برازیل، ہندوستان، میکسیکو ، کینیڈا ،اور ان گنت دوسرے ممالک ہم سے بہت زیادہ محصولات وصول کرتے آئے ہیں اس سے زیادہ جتنا ہم ان سے وصول کرتے ہیں۔ یہ بہت غیر منصفانہ ہے۔‘‘
دریں اثنا، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، چین نے پہلے ہی احتیاطی تدابیر اپنانا شروع کر دی تھیں۔2023 کے بعد بیجنگ نے کاروباروں اور اس کے نتیجے میں، صارفین کی مدد کے لیے مالیاتی محرک شروع کردیا تھا، جس کے کچھ مثبت نتائج سامنے آئے کیونکہ بینکوں اور مالیاتی اداروں نے رئیل اسٹیٹ کی تجارت کو سپورٹ کرنے کے بجائے صنعت اور اختراع کی طرف اپنے قرضے کو متنوع بنایا۔ یہ واضح طور پر ضروری تھا لیکن اس کا دائرہ کار اور نوعیت بھی ممکنہ تجارتی جنگ کو ذہن میں رکھ کر تیار کی گئی تھی۔
درحقیقت چین نے ٹرمپ کے صدر بننے سے بہت پہلے کپڑے اور جوتے بنانے والی کمپنیوں کے ملک سے جانی جانے والی اپنی شبیہ کو بدلنا شروع کردیا تھا اور جدید ٹیکنالوجی جیسے روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت (AI) میں سرمایہ کاری شروع کر دی تھی اور اس نے چین کو ایک ’’ابتدائی محرک ‘‘کا فائدہ دیا ہے۔دراصل چینی فیکٹریاں سستی مزدوری پر مبنی نہیں ہیں بلکہ وہ بڑے پیمانے پر مال بنانے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کم قیمت پر بڑی مقدار میں اعلیٰ درجے کی اشیاء تیار کر سکتی ہیں۔مزید برآں بیجنگ نے غیر امریکی شراکت داروں سے درآمدات پر محصولات میں یکطرفہ کمی کا اعلان کرنے کے علاوہ عالمی سطح پر باہمی اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے پر زیادہ توجہ دی ہے۔ پیرو کے اپنے گزشتہ دورے کے دوران، شی نے ایک گہرے پانی کی بندرگاہ کا افتتاح کیا جو لاطینی امریکہ کے ساتھ چین کی تجارت کو نئی شکل دے سکتا ہے، جو خوراک، توانائی اور معدنیات کا ایک اہم غیر امریکی ذریعہ ہے۔فروری کے بعد سے دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر محصولات کا یہ دوسرا دور شروع کیا ہے۔ لیکن اس بار چین ڈونالڈ ٹرمپ کو وہاں نشانہ بنا رہا ہے جہاں اسے نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہے۔ یعنی کہ کسانوں کو نشانہ بنا کر، جو کہ اس کے بنیادی حامی ہیں۔چین نے امریکہ سے درآمد کئے جانے والے چکن، گائے کے گوشت، سور کا گوشت اور سویابین کے لئے سب سے بڑے امریکی صارفین ہونے کے باوجود ان تمام مصنوعات پر 10۔15 فیصد ٹیکس 10مارچ سے عائد کردیا ہے۔بیجنگ امید کر سکتا ہے کہ اس سے کسی بھی ممکنہ مذاکرات سے قبل ٹرمپ انتظامیہ پر کچھ دباؤ پڑے گا۔تازہ ترین اعلانات سے دنیا کی دو اعلیٰ معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ چھڑنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، لیکن چینی وزارتِ خارجہ کے مختلف بیانات میں چین نے دو چیزیں بالکل واضح کر دی ہیں۔ اول:چین یہ جنگ جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔ ’’دباؤ، زبردستی اور دھمکیاں چینی فریق سے نمٹنے کا صحیح طریقہ نہیں ہیں۔‘‘ وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے کہا ہے۔دوم : اس کے ساتھ ہی چین نے بات چیت شروع کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ بیجنگ نے حالیہ بیان بازی یا محصولات کو اس طرح نہیں بڑھا یا ہے جس طرح اس نے 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ کے دوران کیا تھا۔ جبکہ اس وقت اس نے امریکی سویابین پر 25% کا ٹیکس لگادیا تھا۔
مزید برآں کینیڈا اور میکسیکو کے برعکس بیجنگ نے Fentanyl کو نشانہ بنانے کے لئے نئے اقدامات کا اعلان نہیں کیا ہے۔ پچھلے ہفتے چینی ریاستی کونسل نے ایک قرطاس ابیض جاری کیا، جس کا عنوان تھا’’فینٹینیل سے متعلقہ مادوں کو کنٹرول کرنا ۔ چین کا تعاون‘‘۔اس دستاویز میں ان اقدامات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو بیجنگ کا کہنا ہے کہ اس نے پہلے ہی فینٹینیل سے متعلقہ جرائم اور منشیات بنانے کے لیے استعمال ہونے والے زیادہ تر کیمیکلز کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران کیا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ چین ’’منشیات پر قابو پانے کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پوری تندہی سے پورا کر رہا ہے۔‘‘اس کے ساتھ ہی چینی وزارت تجارت نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ٹرمپ کے محصولات کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ایسا لگتا ہے کہ بیجنگ اس تجارتی جنگ میں ممکنہ اتحادیوں کی تلاش میں ہے جبکہ واشنگٹن کو ایک ایسے مصیبت زدہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو دوستوں اور دشمنوں کو یکساں طور پر نشانہ بنانے کے لیے تیار ہے۔
مجموعی طور پریہ کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ اپنی ’’ماگا پالیسی۔ میکنگ امریکہ گریٹ اگین‘‘ یعنی کہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کی ان کی خواہش پوری کرنے کے لئے وہ جوبھی اقدامات کررہے ہیں، وہ اب تک قائم سیاسی اور سفارتی اصولوں کے خلاف ہیں، لیکن انھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ذہنی طور پر ایک تاجر ہیں اور بخوبی جانتے ہیںکہ انھیں کہاں سے ذاتی طور پرخود فائدہ ہوگا، امریکہ کو نہیں۔ دراصل چین کے ساتھ یہ محصولاتی جنگ کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ اس خوف کی وجہ سے شروع کی گئی ہے کہ کہیں چین جدید ٹکنالوجی اور دفاعی شعبے میں AI کے استعمال میں امریکہ سے آگے نہ نکل جائے اور اسی لیے چین پر مختلف پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)