اسد مرزا
توانائی اور دفاع پر کئی دہائیوں سے مرکوز امریکہ-سعودی تعلقات، 2018 میں منحرف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے بری طرح تناؤ کا شکار ہوگئے تھے۔ جس چیز نے ماحول کو مزید خراب کیا وہ امریکی صدر جو بائیڈن کا ایک تبصرہ تھا، جس میں انھوں نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان یعنی ایم بی ایس کو ایک ’پیریا‘(کٹ کھنا کتا) قرار دیاتھا۔ تعلقات اس وقت مزید بگڑے جب دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کنندہ سعودی عرب نے گزشتہ سال فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد توانائی کی آسمان چھوتی قیمتوں کو کم کرنے میں مدد کرنے سے انکار کر دیا۔
ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی سرکاری عہدیداروں نے Blinken-MbS ملاقات کو نتیجہ خیز قرار دیا، دونوں رہنماؤں نے سوڈان سے امریکی انخلاء کے لیے سعودی عرب کی حمایت، یمن میں سیاسی مذاکرات کی ضرورت اور معمول پر لانے کے امکانات سمیت علاقائی اور دوطرفہ امور کی مکمل تفصیل کا احاطہ کیا لیکن جو دو موضوع امریکہ کے لیے سب سے اہم تھے یعنی کہ اسرائیل کے ساتھ سعودیہ کے تعلقات کو استوار کرانا اور مملکت میں انسانی حقوق کے مسئلے ۔لیکن ان دونوں پر بظاہر کوئی بھی ردِ عمل ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے، بلنکن نے خلیج تعاون کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کی تاکہ دوسرے علاقائی اتحادیوں سے بھی ملاقات کی جا سکے۔
ان کا یہ دورہ مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی امور پر ہونے والی تبدیلیوں کے دوران آیا ہے۔ جنھیں صحرا کی بدلتی ریت سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اسی سال مارچ میں، چین نے دو علاقائی دشمنوں یعنی کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تال میل قائم کرایا تھا۔ ایک اور اہم تبدیلی میں شام کے رہنما بشار الاسد کو 12 سالہ خانہ جنگی کے آغاز کے بعد پہلی بار گزشتہ ماہ عرب لیگ میں مدعو کیا گیا تھا۔درحقیقت دونوں اتحادیوں کے درمیان پرانے تعلقات کی بہت سی جہتیں ہیں اور وہ ایک دوسرے سے کیا توقعات رکھتے ہیں،اس کی بھی تفصیل موجود ہے،لیکن ساتھ ہی حقیقت میں دونوں ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دونوں اپنے موقف پر سمجھوتہ کر نے کو بھی تیار نہیں ہیں۔
رپورٹس کے مطابق سعودی اس بات کی ضمانت چاہتے ہیں کہ امریکہ ایران کی طرف سے کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کے لیے اس کے ساتھ کھڑا رہے، حال ہی میں دونوں ممالک کی جانب سے سفارتی راستے بحال ہونے کے باوجود، ساتھ ہی سعودیہ یہ امید بھی کرتا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ کوئی جنگ ہوتی ہے تو امریکہ اس کی جوہری صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لیے تیار رہے گا۔ ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ سعودی انسانی حقوق کے معاملات پر تنہا رہنا چاہتا ہے اور اس نے امریکہ کی جانب سے کوئی سرزنش برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مزید یہ کہ سعودیوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے معاملے کو کچھ ایسے ہی مطالبات پر منحصر کر دیا ہے۔
یہ موقف تقریباً اسی طرز کی پیروی کرتا ہے جو دوسری عرب ریاستوں نے اسرائیل کے وجود کو قبول کرنے کے لیے اپنایا تھا: مراکش نے مغربی صحارا پر امریکی مراعات حاصل کیں۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو جدید ترین امریکی ہتھیاروں تک بہتر رسائی مل گئی۔ اور، اس سے پہلے، مصر کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے بدلے بڑے پیمانے پر امریکی امداد ملی تھی۔لیکن امریکی قانون سازوں کے درمیان اعتماد کے خسارے کی وجہ سے وہ امریکہ سے کوئی بھی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں کرسکتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سب کے پیچھے بظاہر سعودیہ بیک وقت امریکہ اور چین دونوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے علاوہ ساتھ ہی میں یہ سودے بازی کا ماڈل مسئلہ کا حل نکالنے کے لیے واحد طریقہ نہیں ہے، اور سعودیوں کو اس بالواسطہ نقطۂ نظر سے گریز کرکے بہتر طریقے سے امریکی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جس سے کہ اسے غیرمتوقع فوائد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اگر سعودی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے یکطرفہ طور پر آگے بڑھنے کے آپشن کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ شاید ان کے حق میں بہتر ہوگا۔
اگر سعودی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی طرف پہلا قدم اٹھاتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں امریکیوں کی طرف سے سازگار ردِعمل سامنے آسکتا ہے کیونکہ اس سے خیر سگالی کے خسارے کو پورا کیا جاسکتا ہے جو اس وقت کیپیٹل ہل میں ان کے خلاف موجود ہے، اور امریکیوں کی جانب سے مزید رعایتوں کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں امریکہ کے ایک بڑے دفاعی پارٹنر ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کو شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کے آرٹیکل 5 میں توسیع دینے کے علاوہ، امریکہ کے بڑے دفاعی پارٹنر (MDP) کے طور پر نامزد بھی کیا جاسکتا ہے، جو کہ دیرینہ سعودی مطالبہ رہا ہے۔ لیکن اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ امریکہ اس طرح کے کسی مطالبے پر رضامند ہو جائے، کیونکہ یہ ریاض کے ساتھ اس وعدے کا ترجمانی کرسکتا ہے کہ امریکہ قانونی طور پر مملکت پر کسی ممکنہ حملے کی صورت میں اس کی مدد کے لیے ساتھ رہے گا، لیکن یہ تبھی ہوسکتا ہے جب یوروپین یونین سمیت ناٹو کے تمام اراکین اس تبدیلی کے لیے رضا مندی کا اظہار کریں، جو کہ کسی بھی طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔
اگرچہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کام کرنے کا عہد کیا ہے، لیکن امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے گزشتہ ماہ ریاض کے دورے سے کوئی واضح پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
مزید برآں، آپٹکس یعنی کہ جو نظر آتا ہے وہ یہ وہم پیدا کر سکتا ہے کہ امریکہ خاص طور پر سعودی عرب کے امریکہ کو رعایتی نرخوں پر مزید تیل فراہم کرنے سے انکار پر پریشان ہے۔ لیکن درحقیقت یہ بنیادی وجہ نہیں ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تیل کی پیداوار میں کسی بھی قسم کی کمی دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور اس سے سب سے زیادہ نقصان امریکی صارف ہوتا ہے، جو زمین پر سب سے سستا تیل حاصل کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ حقیقت میں سعودی کینیڈا اور میکسیکو کے بعد امریکہ کو تیل برآمد کرنے والے سرکردہ ممالک میں تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔مجموعی طور پر یہ دورہ امریکی صدر کی جانب سے امریکہ کے ایک پرانے اتحادی اور اس کے موجودہ ڈی فیکٹو حکمران کو خوش کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔لیکن ساتھ ہی ہم اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں کہ MbSچین اور امریکہ دونوں سے ایک ساتھ ایک وقت میں پینگیں بڑھا کر اپنی مملکت کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں کسی ملک میں ترقی اور بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹس بڑی تعداد میں شروع کیے جاسکتے ہیں اور ساتھ ہی اسے دفاعی پارٹنر بھی بنایا جاسکتا ہے تو ملک سعودی عرب ہے۔لیکن بظاہر اسے MbS کی خوش فہمی اور ناتجربہ کاری سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ اُن کی اس چال میں توازن امریکہ کے بجائے چین کے حق میں زیادہ جھکتا نظر آتا ہے، حالانکہ حقیقت میں سعودیہ بہت کچھ کھو سکتا ہے اگر وہ چین کے حق میں امریکہ کو مکمل طور پر چھوڑ دیتا ہے۔ بائیڈن اور MbS کے درمیان شخصی لڑائی کے دونوں جذباتی دشمن کے طور پر نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے کو شکست دینے اور بالادستی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس میں نقصان دونوں کا ہی ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)