غرور سرد وسمن سے کہہ دو کہ پھر وہی تاجدار ہوںگے
جو خاروخس والئی چمن تھے عروج سردوسمن سے پہلے
(فیض)
چند ماہ پیشتر امریکی سامراج کے مغرور اور فرعون مزاج صدر ٹرمپ کی طرف سے شمالی کوریا کو صفحہ ہستی سے مٹانے، تباہ وبرباد کرنے اور نیست و نابود کرنے کی دھمکیوں اور جوابی کاروائی کے طورپر شمالی کوریا کی طرف سے میزائلوں کے ذریعہ جوابی ایٹمی کاروائی کرنے سے ایسا معلوم ہوتاتھا کہ مشرقِ بعید میں نہ صرف عالمی جنگ بلکہ ایٹمی جنگ چھڑ جانے کاخطرہ درپیش ہے۔ لیکن شمالی کوریا کی طرف سے پُرامن بات چیت کے ذریعہ تنازعات اور معاملات طے کرنے کی حکمت عملی اور ٹرمپ کی طرف سے موجودہ دورمیں شمالی کوریا کو تباہ وبرباد کرنے یا پھر وہاں کے موجودہ نظام کو تبدیل کرکے طاقت کے زور سے شمالی کوریا کو اپنی نئی نوآبادی یانیم آبادی بنانے کی کوششوں میں ناکامی کا منہ دیکھنے کی سوچ سمجھ نے جنگ کے فوری خطرات کو ٹال دیا ہے اور امریکہ کے مغرو ر اور فرعون مزاج صدر کو برابری کی سطح پر مذاکرات کرنے کے لئے مجبور کردیاہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں سنگاپور میں برابری کی سطح پر امریکی صدرٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کے درمیان بارہ جون کو مذاکرات ہوئے ہیں۔ دونوں طرفین کی طرف سے اِن مذاکرات کے مثبت نتائج نکلنے کا عندیہ دیاگیاہے۔ عالمی رائے عامہ کی بھی خواہش اور تمنا ہے کہ ان مذاکرات کے مثبت نتائج برآمد ہوں۔ لیکن ابھی وثوق سے نہیںکہا جاسکتا کہ ان مذاکرات کے اچھے یا بُرے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ البتہ ایک امر بالکل واضح ہے کہ امریکی سامراج کے سربرائہ ٹرمپ کو غرور و تکبر ترک کرکے زمینی حقائق کو ذہن نشین کرکے شمالی کوریا کوبرابری کا درجہ دے کر مذاکرات کی میز پر آنا پڑا ہے۔ یہ سارے عالم اور ساری دُنیا کی اقوام کے لئے سبق آموز ہے کہ محض طاقت اور جبرے کسی قوم و ملک کو زیر نہیںکیا جاسکتا بلکہ برابری کادرجہ دے کر مذاکرات کے ذریعہ ہی تنازعات اور معاملات طے کئے جاسکتے ہیں۔
شمالی کوریا کو روگ سٹیٹ قراردینے، بدمعاش ریاست کے لقب سے یاد کرنے، دہشت گردی کا منبع جتلانے، عالمی امن کے لئے خطرہ ظاہر کرنے کے بعد شمالی کوریا کے صدر سے مذاکرات کے لئے برابری کی سطح پر آکر بیٹھنا انتہائی سبق آموز ہے۔تاریخ کے طا لب علموں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکی سامراج اور کوریائی عوام کے درمیان تنازعہ کوئی حالیہ یا نیا واقع نہیں ہے۔ پرانا اور تاریخی واقعہ کا تسلسل ہے۔ جزیرہ نما کوریا ایک آزاد ملک تھا۔ لیکن جس وقت سامراجی طاقتوں نے 1939میں نوآبادیوں کی تقسیم کے لئے جنگ شروع کی۔ تو جاپان نے جنرل ٹوجو کی رہنمائی میں اُسی طرح آزاد ملکوں کی آزادی کو پائمال کرنا شروع کردیا۔ جس طرح یوروپ اور افریقہ میں جرمنی کے ہٹلر اور اٹلی کے مسولینی نے مختلف ممالک کی آزادی کو پائمال کرکے اپنی نوآبادیاں بنایا۔ ان تینوں ممالک جرمنی ، اٹلی اور جاپان کو محوری طاقتیں کہا جاتاتھا۔ یہ تینوں ممالک اتحادی تھے۔ جاپان نے نہ صرف کوریا پر قبضہ کرکے اُسے نوآبادی بنایا بلکہ بڑھتے ہوئے چینی کے بعض حصوں پر بھی قبضہ کیا اور بڑھتے ہوئے ، ویت نام، لائوس، کمبوڈیا، فلپائن، انڈونیشیا، ملایا، سنگاپور اور برما پر بھی قبضہ کرلیا۔ اُس وقت سے جنگ عظیم دوئم کے خاتمہ تک کوریا سمیت یہ ممالک جاپان کے قبضہ میںتھے۔ اِن ممالک میںکمیونسٹ پارٹیوں کی رہنمائی میں جاپان کے خلاف گوریلا لڑائی لڑی گئی جس میں کمیونسٹ پارٹیوں کی رہنمائی میںعوام نے زبردست کامیابیاں حاصل کیں۔ کوریامیں بھی کمیونسٹ پارٹی نے شمالی کوریا کے موجودہ لیڈر کم جونگ ان کے دادا کم ۔اِل۔ سنگ کی رہنمائی میں گوریلا لڑائی لڑی گئی اور ملک کے زیادہ تر حصہ کو جاپانی تسلط سے آزاد کرالیاگیا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر جاپان کو بھی شکست ہوگئی اور جاپان امریکی فوجوں کے قبضہ میں آگیا۔ جاپان پر قبضہ کرنے کے بعد امریکی فوجوں نے کوریا میں بھی پیش قدمی کی اور کوریا کو اپنی تحویل میں لینے کی کوشش کی لیکن چونکہ کوریامیں کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی میں کم۔ اِل۔ سنگ کی قیادت میں انقلابی حکومت قائم ہوچکی تھی، اس لئے وہاں عوام نے امریکی قبضہ کی مزاحمت کی۔ البتہ جنوبی کوریا میں امریکی افواج قابض ہوگئیں اور اُنہوںنے سنگ من ری کی قیادت میں ایک کٹھ پتلی حکومت بھی قائم کرلی۔ امریکی افواج نے اس کٹھ پتلی سرکار کے ذریعہ شمالی کوریا کی جانب بھی رُخ کیا لیکن مزاحمتی جنگ کے باعث پیش قدمی نہ کرسکی۔ تب سے لے کر امریکی سامراج اور اُس کے پٹھوئوں کی طرف سے شمالی کوریا کی انقلابی سرکار کو ختم کرنے اوراُس کی جگہ کٹھ پتلی سرکار قائم کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ شمالی کوریا پرقبضہ کرنے کے لئے 1950کی دہائی میں امریکہ کے مشہور جرنیل میکارتھر کی رہنمائی میں زبردست یلغار کی گئی لیکن امریکہ کو کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ اُس وقت بھی جنرل میکارتھر نے ایٹم بم چلانے کی دھمکیاں دی تھیں۔ شمالی کوریا کے کمیونسٹ کامریڈوں کی مزاحمتی طاقت کے سامنے اُن کی ایک نہ چل سکی اور آخر کار اڑتیس متوازی لائن پر شمالی کوریا اور جنوبی کوریا دوحصوںمیں تقسیم ہوگیا۔ اگرچہ 1953میں امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان اڑتیس متوازی لائن پر جنگ بندی تو ہوگئی لیکن جنوبی کوریا میں ابھی تک امریکی افواج خیمہ زن ہیں اور جنوبی کوریا کو امریکی ایٹمی چھتر چھایا کادرجہ حاصل ہے، جس کی حفاظت کے لئے امریکہ ایٹم بم بھی استعمال کرسکتاہے۔ صحیح معنوںمیں ابھی تک امریکہ اور شمالی کوریا میں جنگ کی صورت حال موجود ہے۔ اس عرصہ میںامریکی سامراج اور جنوبی کوریا کی پٹھو سرکار نے بارہا شمالی کوریا میں سازشوں کے ذریعہ انقلابی سرکار کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی لیکن اُسے کامیابی نصیب نہیںہوئی۔
امریکہ کی طر ف سے 1953سے لے کر شمالی کوریا کی انقلابی سرکار کے خلاف متعدد بار سازشیں کی گئی ہیں اور انہیں سازشوں کے پیش نظر شمالی کوریا نے اپنی حفاظت اورامریکی سازشوں کی مزاحمت کی خاطر ایٹمی طاقت کا درجہ حاصل کیا ہے اور نہ صرف ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بنالئے ہیںبلکہ ان کو امریکہ اور جاپان تک میزائلوں کے ذریعہ پہنچانے کا اہتمام بھی وضع کرلیاہے۔ اس سے امریکی سامراج گھبراہٹ میںہے اوراُس نے ایٹم بموں کے پھیلائو کو روکنے کی آڑ میں شمالی کوریا کے خلاف مختلف پابندیاں اقوام متحدہ کے ذریعہ عائد کروارکھی ہیں تاکہ معُاشی طورپر شمالی کوریا کو بے دست وپا کرکے جھکنے کے لئے مجبور کیا جائے۔ اب چونکہ شمالی کوریا نہ صرف ایٹمی طاقت بن گیاہے بلکہ اُ س نے امریکہ تک میزائلوں کے ذریعہ ایٹم بم پہنچانے کا اہتمام بھی کرلیاہے۔ اِس لئے امریکی سامراج سخت گھبراہٹ میں ہے۔
فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ امریکی سامراج ایٹمی حملہ کرکے شمالی کوریا کو تباہ وبرباد بھی نہیںکرسکتا۔ کیونکہ جوابی کاروائی کے طورپر خود امریکہ کے ایٹمی حملہ میں آنے کا اندیشہ ہے اورنہ ہی وہ شمالی کوریا میں قائم ایک محکم اور مضبوط سرکار سازشوں کے ذریعہ گرا کر اپنے کسی کٹھ پتلی کو برسر اقتدار لانے کی پوزیشن میں ہے۔ اس لئے اُس نے اب مذاکرات کا سلسلہ شروع کیاہے۔ اگرچہ اِن مذاکرات کے آخری نتائج کے متعلق ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ابتدائی طورپر بلاشبہ شمالی کوریا کی انقلابی سرکار کو قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ سامراج کی سب سے بڑی طاقت امریکی سامراج کو دھونس ، دھمکی اور جارحیت کی پالیسی کوترک کرکے اپنے سے چھوٹے ملک شمالی کوریا کے ساتھ برابر ی کی سطح پر مذاکرات کی میز پر آنا پڑاہے ۔ شمالی کوریا کے لئے یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ امریکہ ، جاپان اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی قواعد کو ترک کرنے کا اعلان کیاگیاہے جوکہ شمالی کوریا کا بنیادی مطالبہ تھا۔ امریکہ شمالی کوریا کو سلامتی کی گارنٹی دینے پر تیار ہوگیاہے۔ یہ بھی شمالی کوریا کی کامیابی تصور کی جاتی ہے ۔ اس کے عوض شمالی کوریا آئندہ میزائلوں کے تجربات بند کرنے اور تجربہ گاہوں کو مہند م کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اِن تجربوں اور تجربہ گاہوں کی اب ضرورت بھی باقی نہیں رہی ہے۔تاہم ایٹم بم کے ذخائر کے متعلق فیصلہ اور شمالی کوریا کے خلاف پابندیوں کے خاتمہ کے مسائل باقی ہیں جن کا فیصلہ کیا جانا ہے۔ تمام صحیح الخیال اور سنجیدہ رائے عامہ کے مطابق امریکی سامراج کو موجودہ دور کے حقائق کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیناچاہیے اور شمالی کوریا پرلگائی گئی تمام تر پابندیوںکو منسوخ کردی جانی چاہئے اور جس طرح امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، ہندوستان اور پاکستان کو ایٹمی طاقتیں قراردے کر ایٹمی کنبہ میں شامل کیا گیاہے، اسی طرح شمالی کوریا کو بھی ایٹمی کنبہ میںشامل کیا جاناچاہیے۔بے شک 1953سے لے کر آج تک اوراُس سے پیشتر بھی شمالی کوریا کی قیادت نے امریکی سامراج کی مزاحمت کرکے ایک روشن مثال قائم کی ہے لیکن اب مذاکرات کی میز پر پہنچ کر اُسے زیادہ خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔،کیونکہ امریکی سامراج کی یقین دہانیاں اپنی مزاحمتی طاقت کے بغیر قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ شمالی کوریا کی قیادت نے امریکی مزاحمت میں قابل ذکر اور قابل فخرحوصلہ بندی دکھائی ہے۔اب اُسے مذاکرات میں بھی اُسی طرح کی ذہانت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
علاوہ ازیں امریکی سامراج کا سردار ٹرمپ یوروپی طاقتوں کو دھونس دباؤاور رعب داب دکھانے میںمصروف ہے، جیسا کہ اُس نے کینیڈا میں سات ترقی یافتہ ممالک کا نفرنس میں عمل کیاہے۔ ایران کے خلاف کچھ عرب ممالک کا اتحاد بنا کر مشرقِ وسطیٰ کے خطہ میں اپنا دبدبہ قائم رکھنے کی کوشش کررہاہے۔ مختلف ممالک کی آزاد تجارت پر پابندیاں عائد کرکے محصول اور اکسائیز ڈایوٹیوں میں اضافہ کرکے آزاد تجارت کے دروازے بند کررہا ہے۔ یہ سب کچھ تشویش ناک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دُنیا بھر کے عوام اور اقوام عالم امریکی سامراج اور اُس کے نئے مغرور اور متکبر سربرائہ ٹرمپ کی ریشہ دوانیوں کے خلاف مزاحمت کریںاور جس طرح شمالی کوریا کی قیادت نے موثر مزاحمتی پالیسی اختیار کرکے برابری کے سطح پر مذاکرات کرنے کے لئے مجبور کیاہے، اُسی طرح تمام عالمی معاملات میں ٹرمپ کی جارحانہ اور متکبرانہ پالیسیوں کی زبردست مزاحمت کرکے اُسے مذاکرات سے بھاگنے نہ دیا جائے بلکہ موثرمزاحمت کے ذریعہ مذاکرات کے ذریعہ معاملات اور تنازعات طے کرنے پر مجبور کردیاجائے۔
بہر کیف اگر سنگاپور میں امریکی سامراج کے سربرائہ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے لیڈر کم۔ جونگ ان کے درمیان مذاکرات کے دیگر مثبت اور منفی پہلووئوں کو بالائے طاق میں رکھ دیاجائے تو ایک امر واضح ہے کہ اس ایک درورس نتائج کے حامل واقعہ نے کامریڈ مائوزے تُنگ کے اس قول کو دُرست ثابت کردیاہے کہ ’’ آخری تجزیہ میں سامراج ایک کاغذی شیرہے‘‘۔ اور علامہ اقبال کے اس شعر کی صداقت ثابت کردی ہے ؎
اُٹھا ساقیا! پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے