ہلال بخاری
حال ہی میں جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی جانب سے دسویں اور بارہویں جماعت کے نتائج کا اعلان بہت سے طلباء اور ان کے خاندانوں کے لیے خوشی کا باعث بنا ہے۔ متعدد طلباء نے امتیازی نمبرات اور اعلیٰ پوزیشنیں حاصل کی ہیں اور وہ اپنی محنت اور عزم کے لیے واقعی تحسین کے مستحق ہیں۔ ماضی کے برعکس جب طلباء کی کامیابیوں کو بہت کم سراہا جاتا تھا، آج کے نوجوانوں کو نمایاں طور پر سراہا جاتا ہے جو ہمارے تعلیمی ماحول میں ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔تاہم، خوشیوں اور سوشل میڈیا پر نمبروں اور رینکس کی گونج کے بیچ ایک تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ ہم ایک معاشرے کے طور پر امتحانی نتائج کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور یہ اکثر بچوں کی ذہنی اور جذباتی صحت کی قیمت پر ہوتا ہے۔یقیناً تعلیمی کارکردگی کو سراہا جانا چاہیے، لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ نتائج کو ایک تماشہ بنا دینا کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔ امتحانات کے نتائج کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا طلباء کے لیے ایک غیر صحت مند دباؤ کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ یہ دباؤ تعلیم کے اصل مقصدیعنی سیکھنے، بڑھنے اور دلچسپیوں کو دریافت کرنےکو مسخ کر کے محض نمبروں کی دوڑ بنا دیتا ہے۔ماہرین نفسیات اور تعلیمی ماہرین مسلسل ہمیں خبردار کرتے رہے ہیں کہ نمبروں کی اس جنونیت کا طلباء کی ذہنی صحت پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے۔ ہر سال بورڈ کے نتائج کے بعد خبریں آتی ہیں کہ کچھ طلباء اپنی کارکردگی سے مایوس ہو کر انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔ یہ واقعات انفرادی نہیں بلکہ ایک گمراہ کن سوچ کے المناک نتائج ہیں جو نوجوان زندگیوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ہمیں یہ مشکل سوالات پوچھنا ہوں گے کہ کیا ہم بچوں کو زندگی کے لیے تیار کر رہے ہیں یا صرف امتحانات کے لیے؟ کیا ہم انہیں سوچنا، خود کو ڈھالنا اور بڑھنا سکھا رہے ہیں یا صرف نمبر حاصل کرنا؟یہ انتہائی ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ اس بات سے آگاہ ہوں کہ وہ بچوں کو شعوری یا لاشعوری طور پر کیا پیغام دے رہے ہیں۔ جب ہر وقت صرف پوزیشن ہولڈرز کو نمایاں کیا جاتا ہے، جب طلباء کا آپس میں موازنہ صرف نمبروں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور جب کیریئر سے متعلق بات چیت صرف تعلیمی کامیابی پر مرکوز ہوتی ہے تو ہم بچوں کو یہ خطرناک پیغام دیتے ہیں کہ ان کی قدر صرف ان کے امتحانی نتائج سے جڑی ہے۔حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ بہت سے کامیاب افراد اسکول یا بورڈ کے امتحانات میں نمایاں نہیں تھے۔ تاریخ اور تجربہ دونوں یہ بتاتے ہیں کہ زندگی صرف تعلیمی کامیابی کو انعام نہیں دیتی۔ تخلیقی صلاحیت، لچک، جذباتی ذہانت، ابلاغ کی مہارت اور حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت بالغ زندگی اور پیشہ ورانہ دنیا میں کامیابی کے لیے کم از کم اتنی ہی اہم ہیں۔یہاں تک کہ جنہوں نے نمایاں نمبر حاصل کیے یا پوزیشن لی، ان کے لیے بھی کوئی ضمانت شدہ انعام یا روزگار نہیں ہوتا۔ 95 فیصد نمبر حاصل کرنا یا ضلع میں ٹاپ کرنا زندگی کی کامیابی کی منزل نہیں بلکہ ایک سنگِ میل ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تعلیم سے متعلق گفتگو کا رخ بدلیں۔ امتحانات سیکھنے کے سفر کا حصہ ہیں، صرف جانچ کا ایک ذریعہ ،نہ کہ کسی کی قابلیت پر حتمی فیصلہ۔ ہماری توجہ تجسس پیدا کرنے، تنقیدی سوچ کو فروغ دینے اور جذباتی مضبوطی کو پروان چڑھانے پر ہونی چاہیے۔ ہمیں کوشش، ترقی اور جذبے کو سراہنا چاہیے، نہ کہ صرف فیصدی نمبروں کو۔آئیے تعلیم کو صرف ایک اسکور بورڈ تک محدود نہ کریں۔ اپنے بچوں کو یاد دلائیں کہ وہ اپنے نتائج سے کہیں بڑھ کر ہیںاور حقیقی تعلیم سمجھنے، بڑھنے اور خود کو بہتر بنانے کا نام ہے۔
[email protected]