ہلال بخاری
یہ تحریر ان تمام طلباء کے نام ہے جنہوں نے محنت اور جستجو کو اپنی زندگی کا اصول بنایا ہے اور کامیابی کے لیے کسی بھی شارٹ کٹ کی بجائے سخت محنت کو اپنایا ہے۔ یہ وہ عظیم ذہن ہیں جو سمجھتے ہیں کہ کامیابی کا اصل راز جدوجہد اور محنت میں ہے۔ تاہم ہمارے امتحانی جنگجوؤں کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ خود پر غیر ضروری دباؤ نہ ڈالیں، بے جا دباؤ اور تناؤ خاص طور پر نوجوان ذہنوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔چونکہ بورڈ کے امتحانات قریب آ رہے ہیں اور اُلٹی گنتی شروع ہو چکی ہے، بزرگ اس بات پر فخر محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی نئی نسل اپنی تیاری میں مصروف ہے۔ بہت سے طلباء امتحانات میں اعلیٰ نمبروں اور پوزیشنز حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ جو طالب علم راتوں کو جاگ کر محنت کر رہے ہیں، وہ یقیناً مستقبل میں کامیابی حاصل کریں گے۔
امتحانات ایک ذریعہ ہے مقصد نہیں :امتحان ہمارے تعلیمی نظام کا ایک لازمی حصہ ہے، لیکن یہ منزل نہیں بلکہ راستہ ہے۔ اس کا اصل مقصد طلباء کو آگے بڑھنے میں مدد دینا ہے نہ کہ انہیں پیچھے رکھنا۔ امتحانات کو اذیت ناک عمل کے بجائے ایک موقع سمجھنا چاہیے۔ اگر صحیح ذہنیت کے ساتھ ان کا سامنا کیا جائے تو یہ طلباء کی ترقی میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
والدین اور اساتذہ کا کردار :بزرگوں، خصوصاً والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلباء کی حوصلہ افزائی کریں۔ انہیں سکھانا چاہیے کہ کوئی بھی امتحان زندگی کا آخری امتحان نہیں ہوتا۔ محنت اور ہوشیاری کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔جو طلباء ہوشیاری سے پڑھنا جانتے ہیں، وہ کسی بھی امتحان میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ڈیجیٹل دور میں طلباء کو ٹیکنالوجی کا دانشمندانہ استعمال سیکھنا چاہیے۔ موبائل فون اور ڈیجیٹل ذرائع مددگار تو ہو سکتے ہیں، لیکن ان کا حد سے زیادہ استعمال نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ امتحانی تیاری کے لیے چھپی ہوئی کتابوں کو ترجیح دی جائے۔
رٹے سے بہتر تصوراتی تفہیم:طلباء کو تصوری تفہیم (Conceptual Learning) کو ترجیح دینی چاہیے۔ جو علم صرف رَٹنے پر مبنی ہو، وہ جلدی بھول جاتا ہے، جبکہ جو چیز ہم سمجھ کر سیکھتے ہیں، وہ ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ جو طلباء ابتدا سے محنت کرتے ہیں اُنہیں امتحان کے وقت کسی خوف کی ضرورت نہیں ہوتی۔
تعلیم محض نمبروں کی دوڑ نہیں : تعلیم کا مقصد صرف نمبر حاصل کرنا یا ڈگری لینا نہیں ہے۔ اس کا اصل ہدف علم حاصل کرنا، نئی چیزیں سمجھنا اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنا ہے۔ جب طلباء اپنی قابلیت پر توجہ دیتے ہیں تو کامیابی خود بخود ان کے قدم چومتی ہے۔
امتحان کا مثبت انداز میں سامنا کریں : طلباء کو چاہیے کہ وہ امتحانی سیزن کو مثبت اور پُرسکون انداز میں گزاریں۔ اگر آپ نے اچھی تیاری کی ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اگر تیاری میں کچھ کمی محسوس ہو رہی ہے تو اپنے اندر کے جذبے پر بھروسہ کریں اور اگر آپ مکمل طور پر تیار نہیں ہیں، تب بھی اعتماد کے ساتھ امتحان دیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، ’’بہترین کی امید رکھو، لیکن بدترین کے لیے تیار رہو۔‘‘ناکامی سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ کسی نے خوب کہا ہے،’’اگر تم کوشش کرو اور ناکام ہو جاؤ، تو دوبارہ کوشش کرو اور بہتر طریقے سے ناکام ہو۔‘‘ناکامیاں بعض اوقات کامیابی کے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ اگر ناکامی کے بعد آپ یہ سیکھ لیں کہ کامیابی کیسے حاصل کرنی ہے تو یہ آپ کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔
امتحانی دباؤ پر قابو پائیں:امتحان کا دباؤ بعض اوقات غیر ضروری گھبراہٹ پیدا کر دیتا ہے۔ بعض طلباء چاہے وہ مکمل تیاری کر چکے ہوں، پھر بھی شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ سب کچھ یاد رکھ سکیں گے یا نہیں۔ درحقیقت یہ خدشات اکثر بے بنیاد ہوتے ہیں اور محض دباؤ کی علامت ہوتے ہیں۔طلباء کو سمجھنا چاہیے کہ پرسکون ذہن کے ساتھ امتحان دینا زیادہ فائدہ مند ہے۔ خوف اور تناؤ کو اپنے ذہن پر حاوی نہ ہونے دیں۔ ہمارا دماغ اللہ تعالیٰ کی دی گئی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے، لیکن ہم خود ہی اسے غیر ضروری فکروں میں مبتلا کر کے کمزور بنا دیتے ہیں۔ اگر ہمارے نوجوان طلباء تناؤ کو قابو میں رکھنا سیکھ لیں اور ہر امتحان کو اعتماد اور سمجھداری کے ساتھ لیں تو ان کے لیے کامیابی کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔تو آئیے! اس امتحانی سیزن کو دباؤ کے بجائے ایک خوشگوار تجربہ بنائیں اور اعتماد کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھیں!
(مضمون نگار معلم، محکمہ تعلیم ہیں)
[email protected]