کبھی کبھی واقعی انسان وہ سب کچھ کرنا چاہتا ہے جس سے انسان کو دلی مسرت ہو ،اور آج کل کی مادہ پرست زندگی میں اس طرح کے بہت کم عوامل ہیںجس سے انسان کو دلی شادمانی حاصل ہو ۔ان ہی کاموں میں ایک خوش کرنے والا یا مسرت بخش کام بچوں کے ساتھ کھیلنا ہے اور ایسی ہی خوشی کا تجربہ کرنے کے لیے میں آفس سے معمول سے پہلے ہی واپس آگیا ۔جوں ہی میں گھر پہنچا میں نے اپنے صحن میں ان نونہالوں کو کھیل میں مست دیکھا ۔ان کو دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آیا اور میں نے ان ہی کے ساتھ شام تک کا وقت گزارنے کا تہیہ کر لیا ۔بچے واقعی بالکل سچے ہوتے ہیں ۔ان کا دل و دماغ یقیناََ ایک ہی ہوتا ہے مطلب یہ کہ ان کے دل میں جو ہو ان کی زبان پر بھی وہی قول ہوتا ہے۔خیر میں ان بچوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اتنا مست ہو گیا کہ مجھے گھر جانے کا خیال ہی نہیں رہا ۔ویسے بھی گھر جانے پر وہی بیوی کی نوک جھونک شروع ہوجاتی ۔اس سے اچھا تھا کہ میں یہی رہوں ۔شام قریب ہونے کو آئی اور میری بیوی شاید آج بور ہوگئی اور ہوتی بھی کیوں نہیں آج وہ طعنے، جو مجھے وہ روز سناتی، اس کے دل کے اندر ہی رہ گئے ۔شاید میری بیوی کے صبر کاپیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ مجھے بُلاتے بُلاتے صحن تک آگئی ۔’’اجی اندر نہیں آنا ،اب کیا یہی ایک کام باقی رہ گیا تھا ‘‘۔میں نے بیوی کی بات کاٹتے ہوئے اس سے کہا ’’چلو چلو آتا ہوں ‘‘۔۔۔۔میں اس کے پیچھے پیچھے اندر چلا گیا ۔اندر داخل ہونے پر پھر سے وہی نوک جھونک شروع ہوگئی جس سے بچنے کے لیے میں اب تک باہر ہی رہا تھا۔مجھ سے لڑنے کے بعدآج پہلی بار مجھ سے میری بیوی آکر گلے لگ گئی اور کہنے لگی آخر ہمارے گھر میں کب بچے کی کلکاریاں سننے کو ملیں گی۔میں جانتی ہوں آپ بھی بچے کی تمنا میں مرے جارہے ہو لیکن میرے دکھ میں اضافہ نہ ہو اس لیے مجھ سے نہیں کہتے ۔۔۔۔۔ارے بیگم ایسا نہ کہیں۔ اللہ نے ہمارے لیے ضرور کچھ اچھا سوچا ہوگا اور میں کل رات سے ہی اس مسئلے پر غورو خوض کر رہا تھا ۔اگر تم برا نہ مانو تو میں کچھ کہوں ،ہاں ہاں ضرور۔۔اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے ۔۔۔بیگم میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے بھتیجے کو گود لوں تاکہ ہماری زندگی کا ادھورا پن ختم ہوجائے ۔یہ سن کر بیگم بہت خوش ہوئی اور اتنی خوش کہ شاید وہ میری اس بات کی ہی منتظر تھی۔خیر ہم نے آج ہی بچے کو گود لیا اور اس سے پا کر ہم بے انتہا خوش ہوئے۔ہم نے اُ سے نئے نام سے نوازا ۔اگر چہ میرے بھائی نے اس کا نام حیدر رکھا تھا لیکن ہم نے اس کا نام قیصر رکھ لیا ۔قیصر کے اس گھر میں داخل ہوتے ہی ہماری زندگی بدل گئی ۔اب ہم صرف اسی بچے کو کھیلنے کھلانے اور اُ سے ہنسانے میں وقت صرف کرتے رہتے ۔ہماری نوک جھونک بھی اب بے حد کم ہوگئی۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا اور قیصر کوپڑھانے کا وقت آیا۔ہم نے اسے ایک اچھے اسکول میں داخل کر وا کر اُ سے زندگی کے پہلے پڑاؤ کی طرف چلنے کے لیے تیار کیا ۔قیصر، دن بہ دن اساتذہ کی آنکھ کا بھی تارا بننے لگا اور بنتا بھی کیوں نہیں وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہر ایک چیز میں سب سے آگے بھی تھا۔وقت گزرتے دیر نہیں لگتی ،قیصر جو اب ما شا اللہ پچیس برس کا ہوگیا تھا ۔ہماری نظروں کے سامنے ویسا ہی تھا جیسا ہم نے اس سے پہلے دن لایا تھااور وقت گزرتے گزرتے وہ ہمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ہوگیا ۔واقعی اللہ تعالی کی طرف سے قیصر ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔قیصر کے لیے یوں تو کئی رشتے آئے لیکن اس نے اپنی ہم جماعت صادیہ سے شادی کرنے کا فیصلہ کر کے ہمیں بھی اس فیصلے سے آگاہ کیا ۔اور ہم نے بھی اپنے بچے کی خوشی میں خوشی محسوس کر کے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس طرح آج قیصر کی شادی ہوگئی۔
صادیہ اور قیصر آپس میں بے حد خوش تھے اور ہم دونوں بھی ان کی خوشی میں خوش ہو کر آگے بڑھتے رہے لیکن شاید ہمارے گھر کی خوشیوں کو اتنے میں ہی کسی کی نظر لگ گئی اور ہمارے گھر میں بھی باقی گھروں کی طرح معمولی سی باتوں پر نوک جھونک ہونے لگی اور یہ نوک جھونک اس حد تک بڑھ گئی کہ صادیہ اور قیصر نے ہم سے علاحدہ رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ سنتے ہی ہمارے پیروں تلے زمین نکل گئی اور ہم سوچنے لگے کہ ہم نے اسی دن کے لیے قیصر کو گود لیا تھاکہ ایک دن وہ ہمیں تنہا چھوڑ کر جائے گا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہماری ساری امیدوں پر پانی پھرنے لگا اور ہم بے بس ہو کر رہ گئے۔ رات گئے ہم دونوں میاں بیوی قیصر کی پرورش اور دیکھ ریکھ کے بارے میں تبصرہ کرتے رہے ۔بارہا میری بیوی روتے روتے غش بھی کھایا کرتی ہے میں اس سے سمجھاتا بھجاتا ،امید اورڈھارس باندھتا آخر ہ اسی کیفیت میں مبتلا زندگی کے آخری دن گزارتے رہے اور اس امید پر جیتے رہے کہ جس قادرِ مطلق نے اس امتحان میں ڈالا ہے وہی کار ساز ہے اور بے بسوں کا چارہ ساز بھی۔
���
محلہ قاضی حمام بارہ مولہ
ای میل:۔[email protected]