انسان اللہ کی تخلیق کی ہوئی عظیم الشان مخلوق ہے ۔اس کا تزکرہ اللہ تعالیٰ قرآن میں یوں کرتا ہے (اور ہم نے آدم کو اکرام سے نوازا)۔ اکرام اور عظمت کے اس درجے پر فائز کرنے کے بعد اللہ تعالی نے انسان کے اندر کچھ فطری اوصاف ودیعت کردی۔فطرت کی انہی سچی باتوں کا پاس رکھنے والے انسان کو ہم مسلم کہتے ہیں۔ یعنی انسان اپنے خالق حقیقی کی طرف سے ودیعت کئے ہوئے اوصاف کا پاس و لحاظ رکھ کر زندگی گزارے۔پیغمبر بھی اسی فطرت کی تعلیم دیتے رہے۔ جہاں جہاں فطری اوصاف میں کسی قدر کوئی خرابی پیدا ہوئی، اللہ نے وہاں اپنے پیغمبر اس کی اصلاح کے لئے بھیجے۔ان بنیادی اوصاف میں ایک وصف یہ ہے کہ ایک مسلمان امانت دار ہو۔اسلامی معاشرہ کا یہ اعجاز ہے کہ وہاں امانت داری ہوتی ہے ۔
بخاری شریف میں زید بن وھب سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حزیفہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا کہ امانت آسمان سے لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں نازل کی گئی اور قرآن نازل ہوا تو قرآن میں اسے پڑھا اور سنت سے اسکا علم انہیں حاصل ہوا (البخاری کتاب الاعتصام)
اس حدیث کی تشریح میں محترم شمس پیرزادہ رقمطراز ہیں کہ امانت ایک سپرد کی ہوئی چیز ہوتی ہے جس کی حفاظت کرنا، اس کو ضائع ہونے سے بچانا اور اس کو اسکے مالک کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا ایک بڑی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ امانت داری کا یہ احساس انسان کی فطرت میں ودیعت ہوا ہے ۔اسلئے ہر شخص جانتا ہے کہ امانت کیا ہے اور اس سلسلہ میں اس پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔چنانچہ معاملات میں دیانتداری برتنے کا ہر شخص قائل ہے اگرچہ اسکا عمل اس کے خلاف ہو۔ مزید لکھتے ہیں اس حدیث میں امانت داری کو آسمان سے نازل شدہ بتایا گیا ہے جس سے اس بات ہر روشنی پڑتی ہے کہ امانت ایک اعلیٰ اور روحانی وصف ہے جو دل کی گہرائیوں میں ودیعت ہوا ہے تاکہ ہر شخص امانت کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور بددیانتی اور خیانت پر اس کا ضمیر اس کو ملامت کرے۔
یوں یہ بات کھل کر عیاں ہو جاتی ہے کہ امانت داری اسلامی معاشرے یا ایک مسلم سماج کے فرد کا اہم ترین عنصر ہے جسکا اسے ہر حال میں پاس و لحاظ رکھنا چاہی۔قرآن میں سورہ مومنون، سورہ آل عمران، سورہ النساء اور بعض دوسری سورتوں میں اس کی تلقین کی گئی ہے۔ حدیثوں میں بھی اس کی تشریح مختلف طریقوں سے کی گئی ہے۔'بخاری کتاب الرقاق' میں حدیث کے الفاظ کچھ اس شدت سے آئے ہیں کہ " جب امانت ضائع کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو "۔
یعنی بددیانتی اور خیانت کو قرب قیامت کی نشانیوں کے طور گنا گیا ہے۔ اب چونکہ امانتیں مختلف طریقوں سے ہمارے پاس ہو سکتی ہیں۔بلکہ'مسلم، کتاب الامارات' میں ایک طویل حدیث بیان ہوئی ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ؐہمارے درمیان کھڑے ہوگئے اور خیانت کا ذکر فرمایا اور اسے بہت بڑا گناہ بتلایا پھر فرمایا میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ پاؤں کہ اسکی گردن پر اونٹ ہو جو بڑبڑا رہا ہو اور وہ شخص کہہ رہا ہو کہ اے اللہ کے رسولؐ میری مدد فرمائیں اور میں کہوں کہ میں تمہارے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتا میں نے اللہ کا پیغام تمہیں پہنچا دیا تھا۔ قیامت کے دن میں تم میں سے کسی کو اس حال میں بھی نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر گھوڑا ہو جو ہنہناتا ہو اور وہ شخص کہے کہ اے اللہ کے رسولؐ میری مدد کیجئے اور میں اسے جواب دوں کہ میں تمہارے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔قیامت کے دن میں تم میں سے کسی کو بھی اس حال نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری ہو جو میمیں کرتی ہو اور وہ شخص کہے کہ اے اللہ کے رسولؐ میری مدد کیجیے اور میں جواب دوں کہ میں تمہارے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا تھا۔قیامت کے دن میں تم میں سے کسی کو اس حال میں بھی نہ پاؤں کہ اسکی گردن پر مقتول کی جان ہو جو چیخ رہی ہو اور وہ شخص کہے کہ اے اللہ کے رسولؐ میری مدد کیجئے اور میں جواب دوں کہ میں تمہارے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتا، میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا تھا۔ قیامت کے دن میں تم میں سے کسی کو اس حال میں بھی نہ پاؤں کہ اس کی گردن میں کپڑوں کا ڈھیر ہو جو اڑ رہے ہوں اور وہ شخص کہ رہا ہو اے اللہ کے رسولؐ میری مدد کیجئے اور میں جواب دوں کہ میں تمہارے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا تھا۔قیامت کے دن میں تم میں سے کسی کو اس حال میں بھی نہ پاؤں کہ اسکی گردن پر سونے اور چاندی کا بوجھ ہو اور وہ کہے کہ اے اللہ کے رسول ؐمیری مدد کیجئے اور میں جواب دوں کہ میں تمہارے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتا کیونکہ میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا تھا۔ " (مسلم کتاب الامارات)۔ اس حدیث مبارکہ میں امانت کی مختلف اشیاء کا ذکر ہوا ہے اور خیانت کے حوالے سے شدید قسم کے عذاب کی نوعیت بھی بتادی گئی ہے۔
امانتیں مختلف شکل میں ہمارے پاس ہوتی ہیں۔ اس حدیث میں مختلف چیزیں بیان کی گئی ہیں جن سے ہم اس بات کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ یہ امانتیں آج بھی ہوتی ہیں فرق بس اتنا ہے کہ تب گھوڑے، اونٹ، بھیڑ،بکری اور کپڑے اور سونے چاندی کی شکل میں تھیں، آج ان شکلوں میں بھی موجود ہیں اور بعض دوسرے شکلوں میں بھی ۔کسی کی گاڑی، کسی کا مکان ، کسی کی پراپرٹی، کسی کی پرایویسی، یا پھر کسی کا کوئی راز یہ سب امانتیں ہیں اوران امانتوں کا بہر حال لحاظ ہونا چاہئے۔ مزید ہم موجودہ زمانے میں دیکھتے ہیں کہ گھپلے بہ کثرت ہو رہے ہیں۔ پبلک پراپرٹی میں گھپلے، ٹرسٹوں میں حتی کہ مسجدوں، مدرسوں، یتیم خانوں اور اشاعت دین کے ٹرسٹ میں گھپلا کرنے اور خیانت کا ارتکاب کرنے سے لوگ نہیں چوکتے۔ مزید اگر احادیث کی روشنی میں دیکھیں تو اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مسلمان جس منصب پر فائز ہوتا ہے وہ منصف اس کے لئے ایک امانت ہوتا ہے۔کوئی افسر ہو یا مزدور، طبیب ہو یا صفائی کرم چاری، انجینئر ہو یا سائنس دان، سیاستدان ہو یا معیشت کا ماہر، عالم ہو یا امام، کچھ بھی ہو سماج میں جو فرد جس کام پر معمور ہے وہ اس کے پاس امانت ہے ۔اسے اپنے کام کو بحسن و خوبی انجام دینا چاہئے۔ اگر ایک طبیب کی اپنے پیشے سے ناانصافی کی وجہ سے کسی فرد کی موت واقع ہوئی ،یہ سراسر خیانت ہوگی اور اللہ کے حضور اس کا مواخذہ ہوگا۔ اسی طرح جو جس پیشے سے وابستہ ہے ،وہ پیشہ اس کے پاس ایک امانت ہے اور اس پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس امانت کی پاسداری کرے۔
اتنا ہی نہیں ہم جب قدرتی وسائل کی بات کرتے ہیں تو ان کو دو بڑے اقسام میں تقسیم کرتے ہیں،ایک ایگزاسٹیبل ریسورسز اور ان ایگزاسٹیبل رسورسز۔آسان الفاظ میں یہ کہ کچھ وسائل کافی مقدار میں موجود ہیں اور کچھ قلیل مقدار میں۔ہم وسائل کا بے تحاشا استعمال کرتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ یہ وسائل بھی دراصل ہمارے پاس امانت ہیں۔ ہم ان میں بے تحاشا خیانت کر رہے ہیں خواہ وہ پانی کے ذخائر ہوں یا ہمارے جنگلات،زمین ہو یا ہمارا ایٹماسفیر یا پھر دوسری معدنیات، ہر جگہ گندگی اور آلودگی کے ڈھیر لگا دئے ہیں۔ جنگلات کا کٹاؤ ایسے ہو رہا ہے جیسے دنیا میں ہمیشہ کے لئے صرف ہمیں ہی رہنا ہو۔ پانی کے جتنے بھی ذخائر ہیں سب گندگی اور آلودگی سے پر ہیں۔خر یہ آئندہ نسلوں کی امانتیں ہیں ہمارے پاس۔ کہیں ایسا نہ ہو کل کو یہی جھیل ہماری گردن پر ہو، یہی جنگل ہماری گردن پر ہو اور ہم پکاریں اے اللہ کے رسول ؐہماری مدد کیجئے اور شفیق پیغمبرؐ یہ جواب دیں آج تمہارے لئے اختیار نہیں رکھتا کیونکہ اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا تھا۔ایسی حالت میں تو ہم برباد ہوگئے ۔لہٰذا اس مسئلے کے تئیں غور فکر کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم قیامت میں اس دل دہلانے والے عذاب اور رسوائی کا شکار نہ ہوں۔
پتہ۔جل شیری بارہمولہ
ای میل۔[email protected]