اسلم رحمانی
بہارکی ادبی ذر خیزیت سے ادبی دنیا بخوبی واقف ہیں اور بہار میں ادبی خدمات کے لئے عظیم آباد کے بعد مظفرپور خاصی پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔ اس دبستان میں نئی نسل کے درجنوں فکشن نگار،شاعر، صحافی اور ریسرچ اسکالر پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں میں ایک نام امام الدین امام کا بھی آتا ہے۔ یہ ابھی سفر زندگی کی چوبیسویں بہار میں داخل ہوئے ہیں اور ملک کی معروف عصری ادارہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی سے پوسٹ گریجویٹ اور نیٹ کوالیفائی کرنے کے بعد ان دنوں دہلی یونیورسٹی میں پی ایچ۔ڈی۔کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب گزشتہ سال منظر عام پر آئی تھی۔یہ کتاب امام الدین امام کا پہلا مجموعۂ مضامین ہے۔اس میں کل 22 مضامین ہیں۔ امام الدین امام نے فکر و فہم میں قلی قطب شاہ، ولی دکنی، میرتقی میر، میر حسن،سرسید احمد خان، علامہ اقبال،کلیم الدین احمد، ڈاکٹر شان صدیقی،بیکل اتساہی،حافظ کرناٹکی،احسن امام احسن،اور جمیل اختر شفیق وغیرہ کی تخلیقات اور ان کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا ہے۔ بعدازاں زیر تبصرہ کتاب میں میر حسن کی مثنوی ” سحر البیان”، مثنوی ” زہر عشق” انفرادیت، کرشن چندر کے افسانوں کا فن، تکنیک اور زبان و بیان، اظہر نیّر کے افسانوی مجموعہ ” سوکھے پیڑ” پر تحقیقی گفتگو کی ہے۔ ساتھ ہی جنگ آزادی میں اردو زبان و ادب کا کردار، شمالی ہند میں اردو نثر کا ارتقاء، شمالی ہند میں اردو مثنوی کا ارتقاء ایک جائزہ و تہذیب اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب پر بھی تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ انداز تحریر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اردو شعر و ادب کا کئی زاویوں سے گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ امام الدین امام کے استاد محترم پروفیسر خواجہ محمد اکرم الدین زیر تبصرہ کتاب کے حرف تبریک میں لکھتے ہیں کہ:امام الدین امام نے ادب کے مختلف گوشوں پر اس کتاب میں اپنی تحریر کو شامل کیا ہے۔ یہ تمام مضامین نقد و تبصرہ کے حوالے سے نئے ذہن کی اُپج ہے۔(ص:13)
زیر تبصرہ کتاب میں امام الدین امام نے عالمی شہرت یافتہ تنقید نگار پروفیسر کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری پر بھی حتی المقدور گفتگو کی ہے۔ ان کی منفی تنقید نگاری پر اشکال کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے امام الدین امام رقمطراز ہیں کہ:وہ ہمیشہ عملی تنقید کو مقدم رکھتے ہیں اور تاثراتی تنقید کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ گول مول باتیں نہیں کرتے۔(ص:97)یہاں یہ ممکن ہے کہ امام الدین امام کے درج بالا دعوے سے کسی کو اختلاف ہو لیکن یہ ان کا نظریہ ہے۔اور انہوں نے اپنے دعوے کے مطابق آل احمد سرور کا درج ذیل ایک قول بھی نقل کیا ہے:انہیں محض مغرب کا اندھا مقلد اور مارکسی تنقید کا کٹّر مخالف کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا۔ ان کی انتہا پسندی سے چڑھنے کے بجائے ان کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہئے۔(ایضاً)
زیر تبصرہ کتاب میں تخلیقاتی پہلو سے نیا پن تو نہیں ہے۔لیکن مضامین میں جدّت بدرجہ اتم موجود ہے۔اس لحاظ سے اس کتاب کو تصنیفی کارنامہ سے تعبیر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ یہ کتاب امام الدین امام کی پہلی کاوش ہے۔ ان کی انہیں خصوصیات کا اعتراف کرتے ہوئے پوسٹ گریجویٹ شعبۂ اردو بہار یونیورسٹی مظفرپور سید آل ظفرحصولہ افزا کلمات میں رقمطراز ہیں کہ:’’فکر و فہم‘‘ عزیزم امام الدین امام کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے۔جس میں 22/ مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کے موضوعات میں خاصا تنوع اور بوقلمونی ہے جو اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ امام الدین امام سلمہ،نے اردو شعر و ادب و ادب کا ڈوب کر مطالعہ کیا ہے اور ہر صنف ادب کو سمجھنے اور برتنے کی کاوش کی ہے۔ (ص:14)
امام الدین امام نے شہرہ آفاق شاعر علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کو بیان کرنے کے لیے” فکر اقبال کے چند پہلو” کا عنوان منتخب کیا ہے۔ اس کے تحت انہوں نے اقبال کی شاعری کی فنی کمالات پر تنقیدی زاویے سے گفتگو کی ہے،لکھا ہے کہ:اقبال سے قبل اردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی، مگر اس کا یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان سے قبل اردو شاعری میں فکر و فلسفہ پیش نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اردو کے پہلے فلسفی شاعر مرزا غالب گزر چکے ہیں۔جن کی شان میں علامہ اقبال نے “بانگ درا” میں ایک نظم بھی تحریر کی ہے۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ اقبال کی شاعری سے قبل کی شاعری میں زندگی کے درپیش مسائل کو پیش نہیں کیا گیا یہ بالکل غلط ہوگا۔(ص:84)
درج بالا اقتباس سے غالب اور اقبال کی شاعرانہ عظمتوں رفعتوں اور ان کے ذہنی رجحانات سے پوری طرح نہ سہی لیکن کچھ واقفیت ضرور ہورہی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں امام الدین امام نے قدیم شعراء کے ساتھ ساتھ عہد حاضر کے دو معروف شعراءاحسن امام احسن بھونیشور، اڑیسہ اور جمیل اختر شفیق سیتامڑھی کی شعری خدمات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے احسن امام احسن کی غزل گوئی کی خصوصیات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:احسن امام کی شاعری میں خود اعتمادی کا درس ملتا ہے۔ وہ اپنے معاشرے میں ہورہے ظلم و زیادتی، غربت و استحصال کی سچی عکاسی کرتے ہیں۔ احسن صاحب کی شاعری فنی اور فکری دونوں لحاظ سے قابل قدر ہے۔(ص:133)
احسن امام احسن کی غزل گوئی کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے امام الدین امام نے شاعری کے معیار کو پرکھنے کے ادبی زاویے سے ہٹ کر سات صفحات کے مضمون میں پہلے کے دو صفحات پر جس طرح معاشرتی مسائل کے نقطہ نظر سے احسن امام کی شاعری کو خود اعتمادی کا درس دینے والا قرار دیا ہے اس سے ان کی تحریر میں ادب کی جھلک کم معاشرتی اور سیاسی منظر کی جھلک زیادہ دکھائی دیتی ہے۔اگر انہوں نے ادبی زاویے کو ملحوظ رکھ کر احسن امام احسن کی غزل گوئی کا جائزہ لیا ہوتا تو ان کی جائزہ نگاری کی فنی اہمیت زیادہ نمایاں ہو جاتی۔ لیکن انہوں نے سیدھے سادھے طریقے اور مختصر انداز میں جائزہ لیا ہے۔ اگر اس طرف توجہ ہوتی تو یہ جائزہ کچھ زیادہ بلند ہوجاتے اور تنقیدی نہ سہی، ادبی حیثیت سے زیادہ وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ درج بالا خیالات پیش کرکے راقم السطور کا مقصد صاحب کتاب کی تحریروں میں نقص نکال کر اپنے آپ کو برتر ثابت کرنا نہیں ہے۔ بلکہ ایک ادب کے طالب علم کی حیثیت سے جو باتیں مجھے سمجھ میں آئی ہیں۔انہیں کو یہاں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ ادب میں یہ حقیقت مسلم ہے کہ تنقید ادب کی جان اور روح ہے۔لہٰذا ایک ادیب کےلئے یہ ضروری ہے کہ جب وہ کسی تخلیقات پر اپنی رائے پیش کرے تو اس کی خوبیوں اور خامیوں دونوں پہلوؤں کو سامنے لائے تاکہ قاری کتاب کے مطالعے کے بعد مطمئن ہوسکے۔ طوالت کے پیش نظر انہیں باتوں پر اکتفا کرتا ہوں۔ زیر تبصرہ کتاب پر دعائیہ کلمات قادرالکلام کاشاعر و ادیب پروفیسر فاروق احمد صدیقی، حرف تبریک پروفیسر خواجہ محمد اکرم الدین،حوصلہ افزا کلمات پروفیسر سید آل ظفر، تاثر بعنوان ” ابھرتا ہوا فنکار امام الدین امام” احسن امام احسن اور پیش لفظ خود امام الدین امام نے لکھا ہے۔کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے پہلے استاد مولانا محمد شفیق سلفی کے نام کیا ہے۔کتاب کا سرورق دلکش ہے۔کتاب کی اشاعت اردو ڈائر کٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، بہار کے مالی تعاون سے ہوئی ہے۔کتاب کی اشاعت پر امام الدین امام کو دلی مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور ندیم سرسوی کی زبان میں عرض ہے کہ؎
بیاض کہنہ میں جدت بھری تحریر رکھنی ہے
پرانی نیام میں یعنی نئی شمشیر رکھنی ہے
امام الدین امام نے کم عمری میں جس تخلیقی سفر کا آغاز کیا ہے۔ یہ سفر پورے ذوق و شوق کے ساتھ جاری رہے۔تاکہ اسلاف ادب کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ یہ کتاب بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ اور مکتبہ ” ساغر ادب” مظفرپور میں دستیاب ہے۔ مصنف کا رابطہ نمبر6206 143 783
[email protected]