سرینگر//نیشنل کانفرنس نائب صدر اورسابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے کہا ہے کہ وہ اس بات کے حق میں ہیں کہ پارلیمانی انتخابات کے فوراًبعدجموں وکشمیرمیں اسمبلی انتخابات کروائے جائیں۔انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ریاستی عوام ایک پارٹی کو اکثریت دلائیں گے کیونکہ 2002سے ابتک یہاں مخلوط سرکاریں ہی وجود میں آئی ہیں۔عمرنے کہا’’ پارلیمانی انتخابات کے فوراً بعد 3سے 5ہفتوںکے دوران اسمبلی انتخابات کو منعقد کروایا جاسکتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا’’اب ہمیں اسمبلی انتخابات میں کوئی تاخیر قابل قبول نہیں ،بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ مئی کے مہینے میں پارلیمانی انتخابات کاساراعمل مکمل ہونے کے فوراً بعد یہاں اسمبلی انتخابات کروائے جائیں‘‘۔ انہوں نے کہاکہ لوک سبھا انتخابات کاعمل مئی کے اواخرتک پورا ہوجائیگا،اوراسکے بعد جولائی کے پہلے ہفتے سے سالانہ امرناتھ یاترا شروع ہوجائیگی تواس دوران ہمارے پاس ایک پورامہینہ ہے جس میں یہاں اسمبلی انتخابات بغیرکسی پریشانی کے کروائے جاسکتے ہیں، اور سیکورٹی فورسز بھی دستیاب رہیں گے ۔ عمر عبداللہ کاکہنا تھا’’ ہمارے پاس جون کامہینہ ہے اوراس میں اسمبلی الیکشن کرانے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی‘‘ ۔ انہوں نے کہاکہ میری دانست میں مرکزی الیکشن کمیشن کے پاس کوئی ایسی وجہ نہیں کہ وہ ریاست میں پارلیمانی انتخابات کے فوراًبعداسمبلی انتخابات نہ کرواسکے ۔انہوں نے شبہ ظاہرکیاکہ مرکزی الیکشن کمیشن جموں وکشمیر میں جلدسے جلداسمبلی انتخابات کرانے کے امکانات کاجائزہ نہیںلے رہاہے ۔انکا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے نمائندوں نے یہاں بات کی ہے اور مرکز میں بھی ملاقاتیں کی ہیں، اب وہ یہاں دوبارہ آرہے ہیں دیکھتے ہیں وہ کیا فیصلہ لیتے ہیں‘‘۔سابق وزیراعلیٰ نے کہاکہ اگرالیکشن کمیشن چاہئے تواسمبلی انتخابات جولائی کے مہینے میں بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ جولائی کے پہلے ہفتے میں سالانہ امرناتھ یاتراشروع ہوگی توزیادہ سے زیادہ 2اسمبلی حلقوں میں الیکشن کاعمل اثراندازہوسکتاہے ۔انہوں نے کہاکہ اس یاتراکازیادہ اثرپہلگام اورکنگن اسمبلی حلقوں میں رہتاہے،اگران دوحلقوں میں سب سے پہلے یا بعدازاں بھی الیکشن کروائے جائیں تواس میں کوئی حرج نہیں ۔عمرعبداللہ نے سوالیہ اندازمیں کہاکہ اگرمسلمانوں کے مقدس ترین مہینے ماہ رمضان کی وجہ سے پارلیمانی الیکشن میں کوئی رکاوٹ پیدانہیں ہوگی توپھرامرناتھ یاتراکی وجہ سے جموں وکشمیرمیں اسمبلی انتخابات کرانے میں کیاخلل پڑسکتاہے ۔انہوں نے کہاکہ انتخابات کاایسا شیڈول ترتیب دیاجاسکتاہے کہ پہلے مرحلے میں ہی پہلگام اورکنگن اسمبلی حلقوں میں انتخابات کرائے جاسکتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ پارلیمانی انتخابات کے بعدسیکورٹی کاکوئی مسئلہ بھی درپیش نہیں ہوگاکیونکہ ملک میں کہیں اضافی فورسزدستوں کی ضرورت نہیں ہوگی ،اورجمو ں وکشمیرمیں خاطر خواہ تعدادمیں مرکزی پولیس فورس کے دستے یاکمپنیاں تعینات کی جاسکتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی وجہ اگر انتخابات میں تاخیر کی وجہ بتائی جائے،تو یہ ان لوگوں کی طرف سے ایک بہانہ ہوگا جو ریاست میں اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں، بجائے اسکے کہ اسے عوام کو منتقل کی جائے۔عمر نے کہا’’ میں اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتا کہ الیکشن کمیشن کیا کررہا ہے،میرے پاس ایسی کوئی بات نہیں کہ میں اس بات پر یقین نہ کروں کہ الیکشن کمیشن سنجیدگی کیساتھ جلدی الیکشن کرانا نہیں چاہتا،انہوں نے لگاتار بحث و مباحثہ کیاہے، دیکھتے ہیں کیا فیصلہ کیا جاتا ہے‘‘۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نیشنل کانفرنس کو عوامی حمایت مل جائے گی، عمر نے کہا’’ میں قبل از وقت لہر کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگاتا،میرے خیال میں اس طرح کا اندازہ لگانا انتخابات میں خود کو نقصان کرنے کے مترادف ہے، یہ بڑی غلطی ہوتی ہے کہ آپ رائے دہندگان کو خاطر میں نہیں لائیں گے‘‘۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں ووٹر پہلے ہی من نہیں بنا لیتے۔عمر نے کہا’’ ہمیں بہت محنت کرنی ہے،لوگوں کو اس بات پر قائل کرنا ہے، کہ وہ کیوں ہمیں ووٹ دیں،ہمیں انکو بتانا پڑے گا کہ 2014میں انہوں کا ووٹ ڈالنا فیصلہ کرنے میں غلطی تھی،جس کی وجہ سے ریاست اور یہاں کے عوام کو بدترین قیمت چکانا پڑی ہے، اور امید کرنی چاہیے کہ لوگ ہمیں حمایت دیں‘‘۔