عالم انسانیت کی موجودہ صورتحال اور تاریخی صورتحال پر اگر ہم اچکتی نگاہ سے دیکھ لیں تو تہذیب و تمدن اور قوموں کے عروج و زوال کے ایسے عناصر نظر آتے ہیں جن کو پڑھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ جب سے انسان نے اس دنیا میں قدم رکھا ، تب سے ہی فکری تصادم ، تہذیبی جارحیت اور خونریزی کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ انسان امن و امان کو ڈھونڈھتا رہا لیکن چند ہی لوگوں نے اس چیز کو ڈھونڈنے میں کامیابی حاصل کی۔اگر تعمیر وترقی کی بھی بات کی جائے تو طاقت ور ترین طبقوں نے کمزورں کو ہمیشہ کچل ڈالنے کی کوششیں کی۔ اور امیر امیر تر ہوتا گیا اور غریب غریب تر۔
مارکس نے مذہب کو یک طرف رکھ کر ایک سماجی ، سیاسی اور معاشی نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا ، لیکن یہ نظام صرف ناکام ہی نہیں رہا بلکہ اسے سے متاثر چند لوگوں جیسے ( stalin joseph) اور ( Zedong Mao) نے دنیا میں ایسا فساد برپا کیا جسے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
George Haylokنے بھی اصطلاح "سیکولرازم" مذہب سے الگ معاشرتی نظم و ضبط کے فروغ کے اپنے خیالات کو بیان کرنے کے لئے ایک تحریک شروع کی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں خونریزی اور بدامنی اور ناانصافی کا سلسلہ روز بڑھتا گیا ہے۔
انصاف اور امن و امان کی داستانیں اب صرف کتابوں میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ کرۂ ارض نے جن ادوار میں انصاف دیکھا، ساتھ ایسے لوگ اٹھتے گئے جنہوں نے اپنی ذاتی مفاد کے لیے نوع انسانی کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ joseph stalinنے 20 ملین سے زائد انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔اسی طریقے سے ہٹلر اور دیگر درندہ صفت حکمرانوں نے دنیا میں اربوں بے گناہوں کو اذیت ناک سزائیں دے کر بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔
اس چیز کا انکشاف انہی کے تواریخ نگار کرتے ہیں اور ان نظاموں کا اصلی روپ لوگوں کے سامنے عیاں کردیتے ہیں۔ انہی تاریخ نگاروں میں سے ایک ہے conquest Robert ہے جو کہ 98 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ اس کا سہرا ان لوگوںکوجاتا ہے جنہوں نے ہٹلر اور جوزف سٹیلن کی حکومتوں کا خوفناک حد تک حقائق کا پردہ چاک کر ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی کتابوں کا مغرب میں کمیونسٹوں پر زبردست اثر پڑا۔ لینن کی موت کے بعد Stalin Joseph نے خود کو زبردستی اور بے رحمی کے ساتھ soviet union)) کا ڈکٹیٹر بننے کے لیے ترقی دی۔ اس کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سٹالن کی دہشت گردی اور خونریزی میں قریب 75000000 افراد ہلاک ہوگئے۔اس وسیع و عریض ڈ وزیئر سے جو بات عیاں ہوئی وہ ازخود وحشت کی کہانی ہے جس میں Zedong Maoتاریخ کے سب سے گھناؤنے قاتل کے طور پر ابھرا ہے جس نے 1958 سے 1962 کے درمیان کم از کم 45 ملین افراد کو بلواسطہ یا بلا واسطہ ہلاک کر ڈالا۔
اس نظام سے متاثرہ افراد کی فہرست بہت بڑی ہے جنہوں نے دنیا کو اذیت خانے میں تبدیل کرکے رکھ دیا۔جیسے II Leopold جس نے 8000000 لوگوں کو قتل کیا۔ نارتھ کوریا کے kim II sung جو کہ 1.6 ملین انسانوں کے قتل کا زمہ دار ہے ۔leonid brezhneo جس نے افغانستان میں 9 لاکھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ انڈونیشیا کے محمد سہارٹو جس نے 500000 لوگوں کو قتل کیا۔
موجودہ حالات میں مغربی ممالک جیسے روس امریکہ اسرائیل اور برطانیہ نے مشرقی وسطیٰ اور چند ایشائی ممالک کو جس طرح سے جنگی میدان بنا کے رکھا اور انسانوں کی نعشوں کے ساتھ جس طرح سے پیش آرہے ہیںتو باضمیر انسان ان نظاموں کو کوسے گا نہیں تو اور کیا کرے گا۔ یہ تمام ممالک انہی نظاموں کے علمبردار ہیں جہاں سے صرف سفاکوں اور خونخواروں نے جنم لیا ہے۔
تاریخ کے اوراق کو جب پلٹ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے بھی انصاف کی علم بلند کی، وہ لوگ خود سے بے پرواہ ہو کر دوسروںکے مفاد کے لیے کام کیا کرتے ہیں۔ لوگوں اور وقت کے حکمرانوں کی اذیت ناک سزاؤں کو برداشت کر کے اور فانوس کی طرح اپنے جانوں کو قربان کرکے انصاف اور امن و امان کو قائم کرنے کی زندہ مثالیں پیش کرتے گئے۔
اب اگر ان تمام نظاموں کو ایک ایسے نظام سے موازنہ کیا جائے تو آپ خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے کن قوانین، کن لوگوں اور کس نظام کی ضرورت ہے۔ یقینا وہ نظام جو خود اس کائنات کو تخلیق کرنے والے نے انسانیت کے سامنے پیش کیا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ( Revolution Bloodless ) ہمارے سامنے عیاں ہے۔ نیز خلافت راشدہ اور خلافت عمر بن عبدالعزیز کے ادوار کا ہم اگر جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات خود ہی واضح ہو جاتی ہے کہ اگر امن و امان اور انصاف کسی نظام کو نافذ کرنے میں پنہاں ہے،تو وہ صرف اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام میں ہے۔
رابطہ۔ وانپورہ کولگام،کشمیر
موبائل نمبر۔ 6005053729