انشرہ طارق
اللہ پر یقین کا سفر بے حد حسین ہوتا ہے ،جو اس راہ کے مسافر بن جاتے ہیں، کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ اللہ پرتوکل اوراس کی ذات پر یقین کا سفر در حقیقت دُکھوں بھری زندگی سے پر سکون زندگی کا سفر ہوتا ہے۔ اللہ پر یقین کرنے والوں کو سکونِ قلب کی نعمت میسر ہوتی ہے ۔کیونکہ ان کا یقین ایسی ہستی پر ہوتا ہے ،جو اس پوری دنیا کے ہر مخلوق کابادشاہ اور پالنہار ہے۔جس کے حکم’’کن فیکون‘‘ سے مقدر بدل جایا کرتے ہیں۔ اللہ پر یقین تو سمندر سے بھی زیادہ گہرا ہونا چاہیے ۔جتنے بھی مشکل حالات ہوں جتنے بھی اندھیرے ہوں زندگی میں پھر بھی توکل صرف اللہ پر ہونا چاہئے کہ ایک دن اس اندھیرے میں روشنی کی کرن ضرور چمکے گی۔جو اللہ کی عظیم ذات پر کامل یقین رکھتے ہیں ،فلاح و کامیابی بھی انہی کے لئے ہوا کرتی ہے۔ تقدیریں بھی انہی کی بدلا کرتی ہیں۔ حضرت عمر بن الخطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:اگر تم اللہ پر اس طرح توکل اور بھروسہ کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے ۔تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے گا جیسے پرندوں کو رزق دیتا ہے ۔پرندے صبح سویرے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ واپس آتے ہیں۔(سنن ترمذی:2344،باب فی التوکل علیٰ اللہ)
جب انسان اپنے رب پر اس قدر بھروسہ کر لیتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی بھی اس کی ضرورت پوری کرنے والا نہیں تواللہ بھی اپنے بندے کو مایوس نہیں لوٹاتا۔ جو لوگ اللہ کے در کو چھوڑ کر دوسروں کے در سے مانگتے ہیں، کیا انہیں اللہ کی ذات پر تھوڑا سا بھی یقین نہیں ؟ کیا انہیں اس دنیا کے لوگوں پر اللہ کی ذات سے زیادہ بھروسہ ہے ؟جو ذات رات کو درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندوں کو نیند میں بھی نیچے گرنے نہیں دیتی، وہ ذات انسان کو بے یارو مددگار کیسے چھوڑ سکتی ہے؟
اللہ تو فرماتا ہے: اے میرے بندو ،مجھ سے مانگو، میںتمہیں عطا کروں گا اور عطا بھی ایسا کہ انسان حیران رہ جائیں،لیکن ہم انسان ہی بے وفا ہیں جو در در پر جا کر سر جھکاتے ہیں۔ اللہ کو چھوڑ کر اللہ کے بنائے ہوئے بندوں سے مانگتے ہیں۔ اللہ پر یقین کے معاملے میں زیادہ سوچا مت کرو، آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا کرو، کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جہاں فلاح وکامیابی نصیب ہوتی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جہاں پر کامیابی انسان کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جہاں دنیا و آخرت سنور جاتی ہے ۔اللہ تو قادر مطلق اور بے نیاز ہے۔انسان کی سب خواہشات پوری کرنے پر قادر۔بس اللہ کی ذات پر کامل یقین ہونا چاہئے۔
اللہ کی ذات پر یقین حضرت ابراہیم ؑجیسا ہونا چاہئے جن کے توکل کے ذریعے آگ ٹھنڈی کر دی گئی۔ اللہ پر توکل حضرت موسیٰ ؑ جیسا ہونا چاہئے جو دریا میں بھی راستہ بنوا دیتا ہے۔ اللہ پر توکل تو حضرت یوسف ؑ کو حضرت یعقوب ؑ سے ملوا دیتا ہے۔ اللہ پر توکل تو شدید طوفان میں بھی کشتیِ نوح پار لگا دیتا ہے۔ تو کیا ہم اپنے رب پر توکل نہیں کریں گے جو نا ممکن کو ممکن کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔
ہمیشہ اپنی عقل سے زیادہ اللہ کی ذات پر بھروسہ کرو کیونکہ اللہ پر پختہ یقین سخت اندھیرے میں بھی روشنی پیدا کر دیتا ہے۔ اللہ پاک کہیں نہ کہیں سے راستہ نکال ہی دیتا ہے، کیونکہ اللہ پاک اپنے بندوں کو پریشان نہیں دیکھ سکتا۔ وہ تو ایسی جگہوں سے انسان کو نوازتا ہے کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔دعائیں معجزوں کا باعث بنتی ہیں اورربّ کے حکم ’’کن فیکون‘‘ سے تقدیر بدل جایا کرتی ہے پس صبر اور اللہ پر بھروسہ ضروری ہے۔
اللہ پر یقین اتنا کامل ہونا چاہئے کہ اللہ کبھی بھی دوسرا دروازہ کھولے بغیر پہلا دروازہ بند نہیں کرتا۔ اگر اللہ پر یقین پختہ ہو جائے تو معاشرے سے بہت سے گناہوں کا خاتمہ ہو جائے۔ اگر اس بات پر یقین آجائے کی قسمت میں لکھا ہوا رزق کسی دوسرے کے پاس نہیں جاسکتا تو کبھی انسان دوسرے کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالے۔ کبھی قتل جیسا کبیرہ گناہ نہ ہو۔ کبھی یتیموں کا مال نہ ہڑپ کیا جائے۔اللہ پر یقین کرنے والے کبھی بھی زندگی کی مشکلات سے گھبرایا نہیں کرتے۔زندگی میں چھائے ہوئے غموں کے بادلوں سے پریشان نہیں ہوا کرتے۔ کیونکہ ان کا یقین واحدویکتا ربّ پر ہوتا ہے ،جہاں بڑی سے بڑی مشکل بھی آسان ہو جایا کرتی ہے۔ جب دل اللہ کی رضا پر راضی رہنے اور شکر کرنے کی عادت ڈال لے تو سکون مقدر بن جاتا ہے ۔’’جن کا بھروسا اللہ پر ہو،اُن کی منزل فلاح و کامیابی ہے ‘‘۔